Dure-Mansoor - Hud : 78
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور اس کی قوم کے لوگ ان کے پاس جلدی جلدی دوڑے ہوئے آگئے اور وہ اس سے پہلے برے کام کیا کرتے تھے، لوط نے کہا اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ہیں وہ تمہارے لئے پاکیزہ ہیں سو تم اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں میں رسوا نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی بھلا مانس نہیں ہے ؟
1:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجآءہ قومہ یھرعون الیہ “ یعنی وہ تیز چلتے ہوئے آئے (آیت) ” ومن قبل کانوا یعملون السیات “ یعنی وہ مردوں کے پاس آتے تھے (شہوت رانی کے لئے) 2:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” وجآءہ قومہ یھرعون الیہ “ یعنی وہ ان کی طرف دوڑے ہوئے آئے۔ 3:۔ طستی (رح) نے نافع بن ازرق (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” یھرعون الیہ “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ وہ آپ کی طرف انتہائی غصہ کے ساتھ آرہے ہیں پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا ـ؟ أتونا یھرعون وھم اساری سیوفہم علی رغم الانوف : ترجمہ : وہ قید ہو کر ہماری جانب غصہ سے لبریز تیزی کے ساتھ آئے ان کی تلواریں خاک آلودہ ناپسندیدہ حال میں تھیں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ومن قبل کانوا یعملون السیات “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ مردوں سے نکاح کرلیتے تھے۔ 5:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” قال یقوم ھولآء بناتی “ کے بارے میں فرمایا کہ لوط (علیہ السلام) نے اپنی بیٹیوں کو اپنی قوم پر پیش نہیں فرمایا تھا نہ بدکاری کے لئے اور نہ نکاح کے لئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ تمہاری عورتوں کی بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ جب قوم کے درمیان موجود ہوتے ہیں تو ان کے باپ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا (آیت) ” وازواجہ امھتہم “ اور گویا وہ ان کے باپ ہیں ابی کی قرأت میں۔ 6:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) نے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ھولآء بناتی “ کے بارے میں فرمایا ان کی بیٹیاں نہیں تھیں لیکن ان کی امت میں سے تھیں کیونکہ ہر نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔ 7:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ آپ نے ان کو ان کی اپنی عورتوں کی طرف بلایا کیونکہ ہر نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔ 8:۔ ابن ابی الدنیا وابن عساکر رحمہما اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ھولآء بناتی “ کے بارے میں فرمایا کہ آپ نے ان پر اپنی امت کی عورتوں کو پیش کیا کیونکہ ہر نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے اور عبداللہ کی قراءۃ میں یوں ہے کہ نبی کریم ﷺ ایمان والوں کے زیادہ حقدار ہیں ان کی اپنی جانوں سے بھی اور وہ ان کے باپ ہیں اور اس کی بیویاں ان کی مائیں ہیں (آیت) ” النبی اولی بالمومنین من انفسہم وازواجہ امھتہم “ (الاحزاب آیت 6) 9:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر رحمہا اللہ نے جویریہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب فاسقوں نے لوط (علیہ السلام) کے مہمانوں کے بارے میں سنا تو وہ لوط کے دروازے تک آگئے لوط نے ان کے پیچھے دروازے کو بند کردیا پھر ان پر جھانک کر فرمایا یہ میری بیٹیاں ہیں (اور) اپنی بیٹیوں کو نکاح اور شادی کے ساتھ پیش کیا ان کو بدکاری کے لئے پیش نہیں کیا وہ لوگ کافر تھے تو ان پر (اپنی بیٹیوں سے) شادی کرلینے کو پیش کیا اور ان میں سے ایک بیٹی کا نام رغوثا تھا اور دوسری کا نام رمیشا تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا نام دیونا تھا ان کا یہ قول (آیت) ” الیس منکم رجل رشید “ یعنی آپ ان کو نیکی کا حکم دیتے رہے اور برائی سے روکتے رہے لیکن جب وہ باز نہ آئے اور نہ آپ ان کو واپس لوٹا سکے اور انہوں نے نہ اس پیش کش کو قبول کیا جو آپ نے پیش کش کی تھی ان کی بیٹیوں کے بارے میں تو فرمایا (آیت) ” قال لو ان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ یعنی اگر میری بھی کوئی جماعت یا گروہ ہوتا جو میری مدد کرتا تاکہ تمہارے اور اس کے درمیان حائل ہوجاتا ان لوگوں نے دروازہ کو توڑا اور اندر داخل ہوگئے جبرائیل (علیہ السلام) اس صورت میں لوٹ آئے کہ جس صورت میں وہ آسمان پر ہوتے ہیں پھر فرمایا اے لوط ! خوف نہ کر ہم فرشتے ہیں یہ تیری طرف ہزگز نہیں پہنچیں گے۔ اور ہم کو ان کے عذاب کا حکم کیا گیا ہے۔ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا اے جبرائیل (علیہ السلام) کیا تم ان کو ابھی عذاب دو گے حالانکہ آپ ان پر بہت غمگین اور پریشان تھے۔ جبرائیل نے فرمایا ان کا عذاب کا وعدہ صبح کو ہے کی صبح قریب نہیں ہے۔ ابن عباس نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو عذاب دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو رات کے اول حصہ میں وہ عذاب کو تیار کرتے ہیں۔ پھر صبح طلوع ہوتے ہی ان کو عذاب دیتے ہیں۔ راوی نے فرمایا پتھروں کو تیار کیا گیا قوم لوط کے لئے رات کے پہلے حصے میں تاکہ ان پر پتھر برسائے جائیں صبح سویرے اسی طرح (پہلی) امتوں عاد اور ثمود کو عذاب دیا گیا جب صبح طلوع ہوئی اور جبرائیل لوط کی بستیوں کی طرف گئے جن میں ان کے مرد عورتیں اور باغات وغیرہ تھے اور ان کو اڑادیا پہلے ان کو جمع کیا پھر ان کو لپٹیا پھر ان کو اکھیڑا نرم مٹی کی جڑوں سے پھر اس کو اٹھا کر اپنے پر کے نیچے سے اس کو آسمان کی طرف بلند کیا آسمان دنیا کے رہنے والوں نے کتوں کو پرندوں کو عورتوں اور مردوں کی جبرائیل (علیہ السلام) کے پر کے نیچے سے آواز سنیں پھر ان کو الٹا کر کے نیچے پھینک دیا۔ پھر اس کے بعد ان پر پتھر برسائے اور یہ پتھر چرواہوں کو اور تاجروں کو لگے اور جو کوئی ان کے شہروں سے باہر تھا (ان کو بھی پہنچ گئے) 10:ـ۔ ابن ابی حاتم (رح) نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ ان پر پیش کیا اپنی بیٹیوں کو نکاح کے لئے اور یہ ارادہ کیا کہ اپنے مہمانوں کو بچا لیں اپنی بیٹیوں کی شادی کے سبب۔ 11:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابوالشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ھولآء بناتی ھن اطھرلکم “ یعنی ان کو لوط نے حکم فرمایا تھا۔ عورتوں سے نکاح کرنے کا۔ اور فرمایا وہ زیادہ پاکیزہ ہیں تمہارے لئے۔ 12:۔ ابوالشیخ (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تخزون فی ضیفی “ یعنی مجھے رسوا نہ کرو میرے مہمانوں کے بارے میں۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرنے والا کوئی رجل رشید ہے ؟ 13:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابو مالک (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیس منکم رجل رشید “ سے مراد ہے وہ آدمی ہے جو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برائی سے روکتا ہو۔ 14:۔ ابو الشیخ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الیس منکم رجل رشید “ رجل رشید وہ ہوتا ہے جو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ 15:۔ ابن ابی حاتم والبیہقی رحمہما اللہ نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الیس منکم رجل رشید “ کے بارے میں فرمایا کیا تم میں سے ایک آدمی بھی نہیں جو ” لا الہ الا اللہ “ کہتا ہو۔ 16:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” قالوا لقد علمت مالنا فی بنتک من حق وانک لتعلم ما نرید “ کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے صرف ارادہ کیا مردوں کا (پھر فرمایا) (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ یعنی میں پناہ لے سکتا ایک مضبوط لشکر کی طرف تو یقینی طور پر میں تم سے قتال کرتا۔ 17:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” او اوی الی رکن شدید “ یعنی قبیلہ (جو) ایک ہی باپ کی اولاد سے ہو۔ 18:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن عساکر رحمہم اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” او اوی الی رکن شدید “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کنبہ قبیلہ۔ خاندانی طاقت نہی عن المنکر میں مددگار ہے : 19:۔ ابو الشیخ (رح) نے علی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے خبطہ دیتے ہوئے فرمایا کہ آدمی کا خاندان ایک آدمی کے لئے زیادہ مفید ہے بنسبت آدمی کے خاندان کے لئے اس وجہ سے اگر وہ روک دے ایک ہاتھ کو تو تو باوجود اپنی حجت اور نفرت کے بہت سے ہاتھ سے روک لیں گے۔ یہاں تک کہ بسا اوقات ایکآدمی دوسرے آدمی کے لئے ناراض اور غصہ نہیں ہوتا ہے۔ اور وہ اسے صرف اپنا ذہنی اور گمان کے مطالبہ میں پہچان سکتا ہے۔ اور عنقریب تم پر اللہ کی کتاب میں سے کئی آیات تلاوت کروں گا پھر اس آیت کو تلاوت فرمائی (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ علی ؓ نے فرمایا کہ الرکن شدید سے مراد ہے خاندان اور لوط کا خاندان نہیں تھا اس ذات کی قسم ! کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اللہ تعالیٰ نے لوط کے بعد کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر جو اپنی قوم میں اہل ثروت اور شوکت میں سے تھا۔ 20:۔ ابن جریر (رح) نے ان جریح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” او اوی الی رکن شدید “ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ لوط کے پاس کوئی نبی نہیں بھیجے گئے مگر وہ اپنی قوم میں اہل میں سے تھا یہاں تک کہ (ہمارے) نبی ﷺ بھی۔ 21:۔ ابن جریر (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جب یہ (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ میرے بھائی لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ وہ مضبوط سہارے کی طرف پناہ لیتے رہے پس کونسی چیز کے لئے انہوں نے عاجزی اختیار کی۔ 22:۔ ابن جریر (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی کریم ﷺ جب یہ آیت پڑھتے تو فرماتے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے لوط پر کہ انہوں نے مضبوط سہارے کی طرف پناہ چاہی تھی اور ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا مگر وہ جو اپنی قوم میں صاحب ثروت تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کو بھی اپنی قوم میں ثروت میں بھیجا۔ 23:۔ ابن جریر (رح) نے و ھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا کہ لوط (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ تو بھیجے ہوئے فرشتوں نے آپ کو غمگین پایا اور انہوں نے کہا اے لوط کہ بیشک تمہارا سہارا بہت مضبوط ہے۔ 24:۔ سعید بن منصور وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے لوط کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا مگر وہ اپنی قوم میں سے عزت والا ہوتا ہے۔ 25:۔ بخاری نے الادب میں والترمذی نے اور آپ نے اس کو حسن کہا وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابوالشیخ والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا وابن مردویہ رحمہم اللہ نے ابو سلمہ کے طریق سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ اس قول (آیت) ” او اوی الی رکن شدید “ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ وہ مضبوط سہارے کی طرف پناہ لیتے رہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف انکے بعد اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا مگر یہ کی جو اپنی قوم میں سے صاحب ثروت ہو۔ 26:۔ سعید بن منصور والبخاری وابن مردویہ رحمہم اللہ نے الاعرج کے راستے سے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) کی مغفرت فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی طرف پناہ لیتے رہے۔ 27:۔ ابن مردویہ (رح) نے ابن ابی کعب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوط (علیہ السلام) پر رحم فرمائے کہ وہ ایک مضبوط سہارے کی طرف پناہ لے رہے تھے۔ 28:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے عبدالرحمن بن بشر الانصاری (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ لوط (علیہ السلام) کی قوم کو ڈراتے تھے۔ پھر ایک شام ان کے پاس فرشتے آئے وہ گزرتے تو وہ ان کو آواز دیتے ہوئے گزرے قوم لوط میں سے ان کے بعض نے بعض کو کہا ان کو نہ بھاگنے دو اور انہوں نے کسی قوم کو فرشتوں میں سے زیادہ خوبصورت نہیں دیکھا۔ جب یہ فرشتے لوط (علیہ السلام) کے گھر داخل ہوئے تو انہوں نے آپ کو اپنے مہمانوں کے بارے میں گناہ کی ترغیب دی۔ وہ برابر کھڑے رہے یہاں تک کہ انہوں نے ان پر اپنی بیٹیوں کو پیش فرمایا انہوں نے انکار کردیا تو فرشتوں نے کہا (آیت) ” قالوا یلوط انا رسل ربک لن یصلوا الیک “ لوط (علیہ السلام) نے پوچھا میرے رب کے بھیجے ہوئے ہو تو فرشتوں نے کہا ہاں لوط (علیہ السلام) سے فرمایا پس اب (عذاب ہوگا) اسی طرح۔ 29:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے حذیفہ بن یمان ؓ سے روایت کیا کہ جب فرشتوں کو بھیجا گیا تو قوم لوط کی طرف تاکہ ان کو ہلاک کردیں۔ ان سے کہا گیا قوم لوط کو ہلاک نہ کریں یہاں تک کہ ان کے خلاف لوط تین مرتبہ گواہی دیدیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جانب ہو کر آئے تھے فرمایا (آیت) ” فلما ذھب عن ابرھیم الروع وجآء تہ البشری یجادلنا فی قوم لوط “ آپ کا مجادلہ خاص طور پر ان (فرشتوں) کے ساتھ تھا اور (ان سے) فرمایا تم بتاؤ اگر ان میں پچاس ایمان والے ہوں تو کیا تم ان کو ہلاک کردو گے ؟ فرشتوں نے کہا نہیں پھر فرمایا (اگر) چالیس ہوں فرشتوں نے کہا نہیں یہاں تک کہ دس اور پانچ تک پہنچے (تو فرشتوں نے کہا ان کو ہلاک نہیں کریں گے) پھر (یہ فرشتے) لوط (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور وہ ایک زمین میں کام کررہے تھے۔ انہوں نے ان کو مہمان خیال کیا پس آپ اپنے گھر والوں کی طرف آئے یہاں تک کہ شام ہوگئی فرشتے بھی ان کے ساتھ چل پڑے تو آپ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا تم کیا رائے رکھتے ہو اس کے بارے میں جو کچھ یہ کر رہے ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ یہ لوگ کیا کرتے ہیں ؟ تو آپ نے کہا لوگوں میں سے ان سے کوئی برا نہیں فرشتے لوط (علیہ السلام) کے ساتھ چلے یہاں تک کہ یہ بات انہوں نے تین مرتبہ فرمائی لوط (علیہ السلام) ان کو لے کر اپنے گھر پہنچے (ان خوبصورت لڑکوں کو دیکھ کر) ایک بداخلاق جو لوط کی بیوی تھی وہ اپنی قوم کے پاس آئی اور کہنے لگی آج کی رات لوط (علیہ السلام) نے ایسی قوم کو مہمان بنایا ہے۔ میں نے ان سے بڑھ کر حسین اور پاکیزہ خوشبو والے کبھی نہیں دیکھے (یہ سن کر) قوم والے ان کی طرف دوڑتے ہوئے آئے اور دروازے کو دھکیلنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ پر غالب آنے کے قریب ہوگئے ایک فرشتے نے اپنے پر کے ساتھ دروازے کو بند کردیا ان کے آگے اور لوط اوپر چڑھ گئے وہ لوگ بھی آپ کے ساتھ اوپر آگئے تو اس وقت لوط (علیہ السلام) نے کہنا شروع کیا (آیت) ھولآء بناتی ھن اطھر لکم فاتقواللہ “ سے لے کر (آیت) ” او اوی الی رکن شدید “ تک۔ فرشتوں نے کہا (آیت) ” قالوا یلوط انا رسل ربک لن یصلوا الیک “ اس وقت انہوں نے جان لیا کہ یہ اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں فرشتے نے اپنا پر مارا اس رات ان میں سے ہر کوئی پر لگنے کی وجہ سے اندھا ہوگیا۔ ان لوگوں نے رات گزاری انتہائی تکلیف کی حالت میں اندھے ہو کر اور وہ عذاب کا انتظار کرنے لگے جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کے ہلاک کرنے میں اجازت طلب کی تو ان کو اجازت دے د ی گئی انہوں نے زمین کو اٹھایا جس پر وہ تھے اور ان کو اتنی بلندی تک لے گیا یہاں تک آسمان دنیا کے رہنے والوں نے ان کے کتوں کی آواز کو سنا اور آپ نے ان کے نیچے آگ کو جلایا اور اس زمین کو ان کے ساتھ الٹا کردیا لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے دھماکہ کی آواز کو سنا اور وہ ان کے ساتھ تھی۔ وہ مڑ کر دیکھنے لگی تو اس کو بھی وہ عذاب پہنچ گیا اور ان کو جو لوگ سفر پر تھے ان پر بھی پتھر برسائے۔ 30:۔ سعید بن منصور وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ کے بھیجے ہوئے لوط کے پاس آئے۔ انہوں نے گمان کیا کہ وہ اس کی قوم کے مہمان ہیں۔ چناچہ آپ نے ان کو قریب کیا یہاں تک کہ ان کو بالکل قریب کرکے بٹھایا پھر آپ اپنی بیٹیوں کو لے آئے اور وہ تین تھیں۔ اور ان کو اپنے مہمانوں اور اپنی قوم کے درمیان بٹھایا ان کی قوم ان کی طرف دوڑتی ہوئی آئی۔ جب ان کو دیکھا تو فرمایا (آیت) ” ھولآء بناتی ھن اطھرلکم فاتقواللہ ولا تحزون فی ضیفی “ قوم والوں نے کہا تیری بیٹیوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں اور تو جانتا ہے جو ہم چاہتے ہیں لوط (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” قال لوان لی بکم قوۃ او اوی الی رکن شدید “ ان کی طرف جبرائیل (علیہ السلام) نے مڑ کر دیکھا اور فرمایا (آیت) ” انارسل ربک لن یصلوا الیک “ جب وہ قریب ہوئے تو آپ نے ان کی بینائی ختم کردی وہ اندھے ہو کر چلے اس حال میں کہ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے یہاں تک کہ جب وہ پہنچے ان لوگوں کی طرف جو دروازے میں تھے تو انہوں نے کہا ہم تمہارے پاس آئے ہیں لوگوں میں سب سے زیادہ جادوگروں کے پاس سے پھر ان کو آدھی رات کے وقت اٹھا لیا گیا یہاں تک کہ وہ لوگ سن رہے تھے پرندوں کی آوازیں آسمان کی فضا میں پھر وہ زمین ان پر الٹ دی گئی پس جو بھی اس میں الٹا کردیا گیا وہ ہلاک ہوگیا اور جو اس سے باہر تھے تو وہ جہاں بھی تھے پتھر ان پر برسے اور پتھروں نے ان کو ہلاک کردیا لوط (علیہ السلام) اپنی بیٹیوں کو لے کر سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ وہ شام کے ایک مقام پر پہنے تو ان کی بڑی بیٹی مرگئی۔ اس کے نزدیک ایک چشمہ جاری ہوگیا پھر آپ وہاں سے چلے جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ آپ پہنچے تو چھوٹی بیٹی بھی مرگئی۔ اس کے پاس بھی ایک چشمہ جاری ہو اب ان سے صرف درمیانی بیٹی آپ کے پاس باقی رہی۔ قوم لوط کا مہمانوں پر حملہ کی کوشش : 31:۔ ابن ابی الدنیا (رح) نے کتاب العقوبات میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لوط نے مہمانوں پر دروازے کو بند کردیا۔ قوم والے آئے انہوں نے دروازہ توڑ دیا اور اندر داخل ہوگئے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے انکی آنکھوں پر پر سے ضرب لگائی تو ان کی آنکھیں چلی گئیں۔ کہنے لگے اے لوط (علیہ السلام) ہمارے پاس جادوگر لائے ہو چناچہ انہوں نے آپ کو بڑی دھمکیاں دی تو آپ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا۔ جب یہ چلے جائیں تو وہ مجھے تکلیف دیں گے۔ جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت ) ” ان موعدھم الصبح الیس الصبح “ لوط نے فرمایا اسی وقت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” الیس الصبح بقریب “ کیا صبح قریب نہیں تو آپ نے کہا اسی وقت چناچہ بستی کو اٹھا لیا گیا یہاں تک کہ آسمان دنیا والوں نے کتوں کے بھونکنے سنا پھر ان کو الٹا کیا گیا اور ان پر پتھر برسائے گئے۔ 32:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاسر باھلک “ یعنی رات کے وقت اپنے گھر والوں کو لے چلئے۔ 33:۔ ابن جریر وابن منذر وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقطع من الیل “ سے مراد ہے آدھی رات۔ 34:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” بقطع “ یعنی رات کی اندھیری۔ 35:۔ عبدالرزاق (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” بقطع من الیل “ یعنی رات میں سے کچھ حصہ۔ 36:۔ ابن الانباری (رح) نے الوقف والابتداء میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق (رح) سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” فاسرباھلک بقطع من الیل “ کے بارے میں بتائیے کہ (آیت) ”’ بقطع “ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا سحری کا وقت آخری رات میں مالک بن کنانہ نے فرمایا۔ ونائحہ تقوم بقطع لیل علی رجل اھانتہ شعوب ترجمہ : نوحہ کرنے والی عورت سحری کے وقت اس شخص پر نوحہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہے جس کو قبیلہ والوں نے ذلیل کردیا۔ 37:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولایلتفت منکم احد “ یعنی تم میں سے کوئی پیچھے نہ دیکھے۔ 38:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولایلتفت منکم احد “ یعنی تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مڑکر نہ دیکھے (آیت) ” الا امراتک “ تک (مگر تیری بیوی کے پیچھے مڑ کر دیکھے گی اور ہلاک ہوگی ) ۔ 39:۔ ابوعبید وابن جریر (رح) نے ہارون (رح) سے روایت کیا کہ ابن مسعود ؓ کی قرأت کے حروف یوں (آیت) ” فاسرباھلک بقطع من الیل الا امرا “ تک۔ 40:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ (رح) نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو (یہ بات) ذکر کی گئی کہ وہ ( یعنی لوط) کی بیوی انکے ساتھی تھی جب وہ طریہ (شہر) سے نکلے اس نے ایک آواز سنی تو اس طرف متوجہ ہوئی اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک پتھر اس کو آکر لگا جس نے اسے ہلاک کردیا۔ اور یہ عورت اپنی ایک جگہ پر تھی جو قوم سے دور تھی اور عبداللہ کے مصحف میں یہ الفاظ اسی طرح ہیں اور البتہ تحقیق ہم نے پورا کردیا اس کی طرف اس کے سب اہل و عیال کو مگر ایک بڑھیا تھی جو مصیبت میں مبتلا ہوئی۔ اور جب لوط سے کہا گیا کہ ان کے (عذاب کا) وعدہ صبح کے وقت ہے، تو انہوں نے فرمایا میں اس سے جلدی کا ارادہ رکھتا ہوں تو جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا (آیت) ” الیس الصبح بقریب “ (کیا صبح قریب نہیں) 41:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لوط نے فرمایا ان کو ابھی اسی وقت ہلاک کردو تو فرشتوں نے کہا ہم کو ہرگز حکم نہیں دیا گیا مگر صبح کے وقت (اور) (آیت) ” الیس الصبح بقریب “ 42:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے سعید بن جبیر ؓ سے روایت کیا کہ لوط (علیہ السلام) نے ان (فرشتوں) سے فرمایا ان کو ابھی ہلاک کردو تو جبرائیل (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا (آیت) ” ان موعدھم الصبح، الیس الصبح بقریب “ لوط (علیہ السلام) پر یہ (آیت) ” الیس الصبح بقریب “ اتری راوی نے کہا کہ پھر ان کو حکم دیا گیا کہ رات کے کچھ حصے میں اپنے گھروالوں کو لے کر چلے جاؤ۔ اور تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھے گا مگر تیری بیوی پس آپ چلے گئے اور جب ان کو ہلاک کرنے کا وقت آیا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے اپنے پر کو زمین میں داخل کیا۔ اس کو اوپر اٹھایا یہاں تک کہ آسمان والون نے مرغ کی اذان کو اور کتوں کے بھونکنے کو سنا اور ان کو اوپر لے جا کر نیچے گرا دیا اور ان پر آگ میں پکے ہوئے پتھروں کی بارش برسائی لوط (علیہ السلام) کی بیوی نے دھماکے کی آواز سنی تو کہنے لگی ہائے میری قوم اتنے میں اس کو بھی ایک پتھر آپہنچا اور اس نے اس کو مار ڈالا۔ 43:۔ ابن عدی وابن عساکر رحمہما اللہ ابوالحلہ ؓ سے روایت کیا کہ میں نے لوط کی بیوی کو دیکھا کہ اسے پتھر میں مسخ کردیا گیا اور اس کو ہر ماہ کے شروع میں حیض آتا ہے۔ 44:۔ ابن جریر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فلما جآء امرنا جعلنا عالیھا سافلھا “ یعنی جب ان لوگوں نے صبح کی تو جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کی بستیوں پر حملہ کیا اور ان کناروں سے ان کو ملا دیا۔ پھر اپنے پر کو داخل کیا پھر اس کو اپنے پروں پر اٹھایا ان سب چیزوں کے ساتھ جو اس میں تھیں پھر ان کو آسمان کی طرف اوپر اٹھایا یہاں تک کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے کو سنا پھر ان کو الٹ دیا۔ ان میں سے جو آپ سے پہلے نیچے گرے وہ ان کے بالاخانے تھے۔ کسی قوم کو ایسا عذاب نہیں پہنچا جو ان کو پہنچا پہلے اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو مٹا دیا۔ پھر ان کی بستیوں کو الٹ دیا گیا پھر آگ سے پکے ہوئے پتھر ان پر برسائے گئے۔ 45:۔ ابن جریر (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ جب ان لوگوں نے صبح کی تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئی اس زمین کو جڑ سے اکھیڑا ساتوں زمینوں میں سے پھر اس کو اٹھایا یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ گئے۔ پھر جبرائیل (علیہ السلام) نے اس کو زمین کی طرف گرا دیا۔ 46:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابو صالح (رح) سے روایت کیا کہ جبرئیل (علیہ السلام) لوط (علیہ السلام) کی بستی میں آئے اپنے ہاتھ کو بستی کے نیچے داخل کیا پھر اس کو اٹھایا یہاں تک کہ دنیائے آسمان والوں نے کتوں کے بھونکنے کو اور پھر مرغوں کی آوازوں کو سنا اور اللہ تعالیٰ نے ان پر گندھگ اور آگ کی بارش برسائی۔ قوم لوط کی بستی کا الٹنا : 47:۔ عبد بن حمید (رح) نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے اس شہر کو جڑ سے اکھیڑا قوم لوط کی زمین میں سے پھر اس کو اوپر اٹھایا اپنے پروں سے یہاں تک کہ ان کو پہنچایا جہاں تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر اس کے اوپر والے حصے کو نیچے کردیا۔ (یعنی اسے نیچے گرا دیا) 48:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم رحمہما اللہ نے محمود بن کعب قرظی محمد بن قرظی (رح) سے روایت کیا کہ مجھے بات بیان کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا الٹی ہوئی بستیوں کی طرف یہ قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں تھیں انہوں نے ان کو اپنے پر کے ساتھ اٹھایا پھر ان کو اوپر لے گئے یہاں تک کہ آسمان والوں نے ان کے کتوں کے بھونکنے کو اور ان کے مرغوں کی آوازوں کو سنا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھر برسائے۔ اسی کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (آیت) ” جعلنا عالیھا سافلھا وامطرنا علیھا حجارۃ من سجیل “ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہلاک کردیا اور اللہ تعالیٰ نے ان الٹی ہوئی بستیوں کے اردگرد رہنے والوں کو ہلاک کردیا اور یہ پانچ بستیاں تھیں صنع، صغرہ، عصرہ دوما، اور سدوم اور یہ بڑی بستی تھی۔ 49:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ یہ تین بستیاں تھیں ان میں وہ تعداد تھی جو اللہ تعالیٰ نے چاہی کہ کثرت سے ہو اور ہم کو یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ ان کی چالیس لاکھ تعداد تھی اور یہ سدوم بستی تھی مدینہ اور شام کے درمیان۔ 50:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہما اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ یعنی مٹی سے اور ” مسومۃ “ یعنی وہ نشان زدہ تھے اور السوم سے مراد سرخی میں سفیدی کا ہونا ہے۔ 51:۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن منذر وابن ابی حاتم رحمہم اللہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ سجیل کو فارسی زبان میں سنک کہتے ہیں اور یہ پتھر اور مٹی کے لئے استعمال ہوتا ہے اور (آیت) ” مسومۃ “ یعنی نشان لگائے ہوئے۔ 52:۔ الفریابی وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ فارسی زبان میں حجارہ کہتے ہیں جو شروع میں پتھر ہو اور آخر میں مٹی ہو اور (آیت) ” مسومۃ “ یعنی نشان لگائے ہوئے۔ 53:۔ عبد بن حمید (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ عجمی کلمہ ہے اس کو عربی بنایا گیا۔ اس کا معنی سنگ ورمل یعنی پتھر اور مٹی۔ 54:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایک پتھر ہے جس میں مٹی ہوتی ہے۔ 55:۔ عبدالرزاق وابن جریر وابوالشیخ (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ یعنی مٹی سے بنائے ہوئے (آیت) ” منضود “ یعنی لگا تار (آیت) ” مسومۃ “ یعنی جسے خالص سرخ رنگ کا طوق پہنایا جائے۔ (آیت) ” وماھی من الظلمین ببعید “ یعنی اس سے کوئی ظالم بری نہیں ان کے بعد۔ 56:۔ ابن جریر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے ربیع ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے ” منضود “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ پتھر ایک دوسرے پر آکر لگے (یعنی مسلسل برستے رہے) اور (آیت ) ” مسومۃ “ یعنی ان پر نشان تھا سفید لکیروں کا۔ 57:۔ ابوالشیخ (رح) نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ ایسے پتھر جو نشان لگے ہوئے تھے جو مشابہ نہ ہو زمین کے پتھروں سے۔ 58:۔ ابن جریر (رح) نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے آسمان دنیا سے پتھر برسائے گئے اور آسمان دنیا کا نام سجیل ہے۔ 59:۔ ابن ابی شیبہ (رح) نے ابن سابط (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” حجارۃ من سجیل “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ فارسی کا لفظ ہے۔ 60:۔ اسحاق بن بشر وابن عساکر (رح) نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے سوال کیا کیا قوم لوط میں سے کوئی باقی ہے ؟ فرمایا نہیں مگر ایک آدمی چالیس دن باقی رہا وہ مکہ میں تاجر تھا اس کے پاس پتھر آیا تاکہ اس کو حرم میں آکر لگے تو اس کی طرف حرم کے فرشتے کھڑے ہوگئے اور پتھر سے کہا لوٹ جا جہاں سے تو آیا ہے کیونکہ یہ آدمی اللہ کے حرم میں ہے تو پتھر لوٹ گیا اور حرم سے باہر چالیس دنوں تک ٹھہرا رہا آسمان اور زمین کے درمیان یہاں تک کہ آدمی نے جب اپنی تجارت پوری کرلی جب وہ باہر نکلا تو حرم کے باہر اس کو وہ پتھر پہنچ گیا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ (آیت ) ” وماھی من الظلمین ببعید “ یعنی اس امت کے ظالموں سے دور نہیں ہے۔ 61:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ رحمہم اللہ نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” وماھی من الظلمین ببعید “ کے بارے میں فرمایا کہ اس کے ساتھ قریش کو اللہ تعالیٰ ڈرا رہا ہے کہ ان کو (وہ عذاب) پہنچ سکتا ہے جو قوم (لوط) کو پہنچا۔ 62:۔ ابن ابی حاتم (رح) نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” وماھی من الظلمین ببعید “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد عرب کے ظلم کرنے والے ہیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان کو بھی اسی طرح کا عذاب دیا جائے گا۔ 63:۔ ابن ابی حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس آیت کے بارے میں فرمایا ہر ظالم کے بارے میں ہم نے سنا کہ اس کے مقابلہ کے لئے پتھر بنایا گیا ہے جو انتظار کرتا ہے کہ کب حکم ہوتا ہے کہ میں اس پر واقع ہوجاوں تو ظالموں کو خوب ڈرایا اور فرمایا کہ ظالموں سے (وہ عذاب) دور نہیں ہے۔ 64:۔ ابن جریر وابن حاتم وابوالشیخ رحمہما اللہ نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت ) ” وماھی من الظلمین ببعید “ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد اس امت کے ظالم ہیں پھر فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کسی ظالم کو پناہ نہیں دی۔ 65:۔ ابن ابی الدنیا (رح) نے ذم الملاھی میں وابن منذر والبیہقی نے شعب الایمان میں محمد بن المنکدر اور یزید بن حفصہ اور صفوان بن سلیم (رح) تینوں حضرات سے روایت کیا کہ خالد بن الولید نے ابوبکر صدیق کی طرف لکھا کہ ہم نے عرب کی بعض بستیوں میں ایک آدمی کو پایا وہ نکاح کرتا ہے جیسے عورتیں نکاح کرتی ہیں اور انہوں نے اس پر گواہ بھی قائم کردئیے ابوبکر نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ سے مشورہ فرمایا علی بن طالب نے فرمایا کہ یہ ایسا گناہ ہے کہ امتوں میں سے کسی امت نے اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کی سوائے ایک امت کے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ جو معاملہ فرمایا تم جانتے ہو میرا یہ خیال ہے کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے چناچہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓ اس بات پر جمع ہوگئے کہ اس کو آگ میں جلا دیا جائے۔ ابوبکر ؓ نے خالد کی طرف لکھا کہ اس کو آگ میں جلا دو پھر ابن الزبیر ؓ نے اپنے دورامارت میں ان کو جلایا پھر ہشام بن عبدالملک نے بھی ان کو جلایا۔ 66:۔ ابن منذر (رح) نے ربیعہ بن ابی عبدالرحمن الرائے (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو عذاب دیا اور ان پر کنکر کے پتھر پھینکے پس تو یہ سزا نہ ہٹا ان لوگوں سے جو قوم لوط والا عمل کریں۔
Top