Tafseer-e-Mazhari - Hud : 10
وَ جَآءَهٗ قَوْمُهٗ یُهْرَعُوْنَ اِلَیْهِ١ؕ وَ مِنْ قَبْلُ كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ هٰۤؤُلَآءِ بَنَاتِیْ هُنَّ اَطْهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ لَا تُخْزُوْنِ فِیْ ضَیْفِیْ١ؕ اَلَیْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِیْدٌ
وَجَآءَهٗ : اور اس کے پاس آئی قَوْمُهٗ : اس کی قوم يُهْرَعُوْنَ : دوڑتی ہوئی اِلَيْهِ : اس کی طرف وَ : اور مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے السَّيِّاٰتِ : برے کام قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم هٰٓؤُلَآءِ : یہ بَنَاتِيْ : میری بیٹیاں هُنَّ : یہ اَطْهَرُ : نہایت پاکیزہ لَكُمْ : تمہارے لیے فَاتَّقُوا : پس ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَ : اور لَا تُخْزُوْنِ : نہ رسوا کرو مجھے فِيْ ضَيْفِيْ : میرے مہمانوں میں اَلَيْسَ : کیا نہیں مِنْكُمْ : تم سے (تم میں) رَجُلٌ : ایک آدمی رَّشِيْدٌ : نیک چلن
اور لوط کی قوم کے لوگ ان کے پاس بےتحاشا دوڑتے ہوئے آئے اور یہ لوگ پہلے ہی سے فعل شنیع کیا کرتے تھے۔ لوط نے کہا کہ اے قوم! یہ (جو) میری (قوم کی) لڑکیاں ہیں، یہ تمہارے لیے (جائز اور) پاک ہیں۔ تو خدا سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے (بارے) میں میری آبرو نہ کھوؤ۔ کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں
وجاء ہ قومہ یھرعون الیہ اور لوط کے پاس اس کی قوم والے لپکتے ہوئے آئے۔ حضرت ابن عباس اور قتادہ نے ترجمہ کیا ہے : تیز تیز آئے۔ مجاہد نے کہا : لپکتے آئے۔ شمر بن عطیہ نے کہا : تیز چال اور لپکنے کے درمیان چال سے آئے۔ حسن نے کہا : دونوں چالوں کے درمیانی رفتار سے آئے۔ صاحب قاموس نے ہرع کا ترجمہ کیا ہے : ایسی چال جس میں جھپک اور تیزی ہو۔ یُھْرَعُوْنَ (فعل مجہول) انتہائی سرعت و اضطراب پر دلالت کر رہا ہے ‘ گویا کوئی (اندرونی یا بیرونی قوت) ان کو تیز تیز لئے جا رہی تھی۔ ومن قبل کانوا یعملون السیاٰت اور اس سے پہلے بھی وہ بری حرکتیں کرتے رہے تھے۔ مردوں سے لواطت کرتے تھے اور طرح طرح کی فحش حرکتوں کے عادی تھے ‘ بےحیا ہوگئے تھے ‘ اسی لئے ایسے برے ارادے سے علی الاعلان لپکتے جھپکتے آئے تھے۔ قال یٰقوم ھؤلاآ بناني لوط نے کہا : اے میری قوم ! یہ میری لڑکیاں ہیں۔ یعنی تم ان سے نکاح کرلو۔ پہلے حضرت کی لڑکیوں سے نکاح کرنے کی درخواست قوم والوں نے کی تھی مگر ان کی بدکاریوں کو دیکھ کر آپ نے انکار کردیا تھا۔ درخواست کو رد کردینے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ کافر تھے ‘ کافروں سے نکاح کی حرمت تو شریعت اسلامیہ میں بعد کو ہوئی ہے ‘ پہلے ازدواجی رشتہ کافر و مؤمن کا جائز تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دونوں صاحبزادیوں کا رشتہ عتبہ بن ابی لہب اور ابو العاص بن ربیع سے نزول ممانعت سے پہلے کیا تھا۔ حسین بن فضل نے کہا : حضرت لوط نے اپنی لڑکیوں سے نکاح کی پیشکش ان کے مسلمان ہوجانے کی شرط پر کی تھی۔ مجاہد اور سعید بن جبیر نے کہا : بناتی سے قوم کی ساری عورتیں مراد ہیں ‘ ہر نبی اپنی امت کا باپ ہوتا ہے۔ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں آیت النَّبِیُّ اَوْلٰی بالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھَاتُھُمْ کے آخر میں وَھُوَاَبٌ لَھُمْ بھی آیا ہے ‘ اس سے قول کی تائید ہوتی ہے۔ اس قول کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت لوط کی لڑکیاں دو تھیں اور لڑکوں کی طلبگار پوری جماعت تھی ‘ دو لڑکیوں کا ایک جماعت سے نکاح کیسے ممکن تھا۔ جو لوگ بنات سے مراد حضرت لوط کی لڑکیاں لیتے ہیں ‘ وہ کہتے ہیں کہ قوم لوط کے د و سردار تھے ‘ سب لوگ ان کا حکم مانتے تھے ‘ انہی دونوں سے آپ نے اپنی لڑکیوں کا نکاح کرنا چاہا تھا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت لوط نے جو ھٰٓؤُ لاآءِ بَنَاتِیْ فرمایا اس سے (نکاح کی حقیقتاً پیشکش مقصود نہ تھی بلکہ) مقصد تھا قوم والوں کی بدترین خباثت کا اظہار اور دفاع۔ ھن اطھر لکم وہ زیادہ پاک ہیں تمہارے لئے (اس کا یہ مطلب نہیں کہ لواطت پاک ہے اور امرد پرستی سے لڑکیوں سے نکاح زیادہ پاک ہے) مطلب یہ کہ تمہارے لئے اس فعل میں زیادہ نظافت ہے ‘ یا اس میں بےحیائی کم ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی کہے کہ چھینے ہوئے مال سے تو مردار زیادہ پاک اور زیادہ حلال ہے (ظاہر ہے کہ حلال نہ مردار ہے نہ مال مغصوب ‘ مگر مال مغصوب کی زیادہ برائی ظاہر کرنے کیلئے ایسا جملہ بولا جاتا ہے) ۔ فاتقوا اللہ پس اللہ سے ڈرو۔ یعنی ان بےحیائی کے کاموں کو ترک کرو۔ ولا تخزون اور مجھے رسوا نہ کرو۔ یہ لفظ یا خزی سے بنا ہے ‘ خزی کا معنی ہے رسوائی (اس کے مطابق ترجمہ کیا گیا ہے) یا خزایتہ سے بنا ہے ‘ خزایتہ کا معنی ہے حیا۔ یعنی مجھے شرمندہ نہ کرو۔ فی ضیفی میرے مہمانوں کے مقابلہ میں۔ مہمان کو ذلیل کرنے کا معنی ہے میزبان کو ذلیل کرنا۔ الیس منکم رجل رشید کیا تم میں کوئی بھی ہدایت یافتہ نہیں جو حق پر چلے اور بری حرکتوں سے پرہیز کرے۔ ابن اسحاق نے رَّشِیْد کا ترجمہ کیا ہے : بھلائی کا حکم دینے والا اور برائی سے روکنے والا۔
Top