Dure-Mansoor - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور بلاشبہ ہم نے انسان کو بجتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا جو سیاہ رنگ کے سڑے ہوئے گارے سے بنی تھی۔
1:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابوالشیخ نے العظمہ میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تین قسم کی مٹی سے پیدا فرمایا بجتی ہوئی مٹی سے، سڑے ہوئے گارے سے، ا ورمٹی چپکنے والی، عمدہ چپکنے والی، نرم بجنے والی مٹی جس سے ٹھیکری بنائی جاتی ہے اور سڑا ہوا گارا وہ مٹی جس میں سڑندہو۔ انسان کی پاکیزہ مٹی سے تخلیق ہوئی۔ 2:۔ عبد بن حمید، ابن جریر، ابن منذر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” من صلصال “ یعنی صلصال سے وہ مٹی مراد ہے کہ جب پاکیزہ زمین پر پانی واقع ہو پھر وہ اس مٹی میں جذب ہوجائے اس کے بعد مٹی خشک ہوجائے پھر وہ ٹھیکری کی طرح بجنے لگے۔ 3:۔ ابن جریر، ابن منذر، اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الصلصال “ وہ خشک مٹی ہے جو گیلی ہوجاتی ہے اپنے خشک ہونے کے بعد۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الصلصال “ وہ مٹی ہے جو ریت کے ساتھ ملا دی گئی ہو۔ 5:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الصلصال “ وہ مٹی ہے کہ جب اس کو مارا جائے تو آواز نکالے۔ 6:۔ ابن ابی حاتم نے قتادہ ؓ سے روایت کیا (آیت) ” الصلصال “ وہ خشک مٹی مراد ہے کہ جس کی آواز سنی جائے 7:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا (آیت) ” الصلصال “ وہ مٹی ہے کہ جس کو تو اپنے ہاتھوں میں نچوڑے تو اس میں سے پانی نکل پڑے تیری انگلیوں کے درمیان میں سے۔ 8:۔ ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” من حما مسنون “ سے مراد ہے گیلی مٹی سے۔ 9:۔ فریابی، ابن جریر، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) ” من حما مسنون “ سے مراد ہے بدبودارمٹی سے۔ 10:۔ امام طلستی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ابن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت ) ” من حما مسنون “ کے بارے میں بتائیے فرمایا کہ اس سے مراد ہے کالا کیچڑ بدبودار اور مسنون سے مراد ہے قالب میں ڈھالی ہوئی پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے حمزہ بن عبدالمطلب کا قول (شعر) نہیں سنا اور وہ رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اغرکان البدر مسنۃ وجہہ جلا الغیم عنہ ضوء ہ فتبددا ترجمہ : وہ روشن پیشانی والا ہے گویا اس کا چہرہ چودھویں رات کا عکس ہے اس کی چمک سے بادل چھٹ گیا ہے اور بکھر گیا ہے۔ 11:۔ ابن عساکر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) زمین کی سطح سے پیدا کیے گئے (پھر) زمین پر چھوڑ دیئے گئے یہاں تک کہ لیسدار مٹی بن گئی اور وہ مٹی ہے چپکنے والی پھر اس کو چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ سڑا ہوا گارا بن گیا اور وہ بدبودار مٹی بن گیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پیدا فرمایا اور وہ چالیس دنوں تک ایک ڈھانچے کی صورت میں تھا یہاں تک کہ وہ خشک ہوگیا اور وہ ایک بجتی ہوئی مٹی بن گئی جیسے ایک ٹھیکری ہو جب اس پر مارا جاتا تو وہ آواز دیتا تھا اسی وجہ سے (آیت) ” الصلصال “ اور ” فخار “ کی حالت میں اس ی طرح پڑرہا۔
Top