Mafhoom-ul-Quran - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا : اور تحقیق ہم نے پیدا کیا الْاِنْسَانَ : انسان مِنْ : سے صَلْصَالٍ : کھنکھناتا ہوا مِّنْ حَمَاٍ : سیاہ گارے سے مَّسْنُوْنٍ : سڑا ہوا
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا۔
انسان کی پیدائش اور ابلیس کی نافرمانی تشریح : حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کا قصہ اور شیطان کا ملعون ہونا سورة بقرہ رکوع 4، سورة نساء رکوع 18 اور سورة اعراف رکوع 2 میں بڑی وضاحت سے بیان کیا جا چکا ہے۔ یہاں سورة الحجر میں کیونکہ ان آیات سے پہلے تمام کائنات اور ہر چیز کے ناپ تول کا ذکر کیا گیا ہے، اس لیے یہاں انسان کی پیدائش، جسم، نفس، روح اور زندگی کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب بھی اللہ نے بڑے حساب کتاب اور ناپ تول سے بنائے ہیں۔ یہاں وہ تمام راز کھول کر بیان کردیے گئے ہیں جو انسانی سائنسی تحقیقات سے بہت بلند ہیں۔ پچھلی آیات سے جو کچھ معلوم ہوا وہ تو تمام تخلیقات کے بارے میں تھا۔ یہاں خاص طور سے یہ قصہ آدم (علیہ السلام) اور شیطان اسی لیے دہرایا گیا ہے کہ انسان کو پیدا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسے تمام انسانی خصوصیات اور پھر پاکیزہ روح دی گئی تاکہ وہ نیابت الٰہی کرسکے۔ جو کہ باقی کسی مخلوق کو نہیں دی گئی۔ اس قصہ کو بیان کرنے کے تین واضح مقاصد دکھائی دیتے ہیں۔ (1) پہلا یہ کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ مگر اس کے فرائض بھی بڑے سخت ہیں۔ کیونکہ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا دشمن شیطان بھی پیدا ہوگیا۔ جو اس کو ہمیشہ راہ سے بھٹکانے کی پوری کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر جو انسان اپنے مقام بلند کو برقرار رکھتے ہوئے شیطان کی شرارت سے بچ کر اللہ کی راہ پر چلے گا وہی مقبول الٰہی ہوگا۔ یہی آزمائش ہے انسان کے لیے اس دنیا کی پوری زندگی میں۔ (2) دوسرا یہ کہ جنت و جہنم انسان کے اسی دنیا کے عمل پر ملیں گے۔ (3) تیسرا یہ کہ قیامت کے دن کوئی آدمی شیطان کو الزام نہ دے سکے گا کہ شیطان نے اس کو بہکایا تھا۔ کیونکہ اللہ نے ہدایت اور گمراہی کا راستہ واضح کردیا جو شیطان کو ہی سب کچھ سمجھ لے اور اس کے بہکاوے میں آجائے تو اس کا ذمہ دار خود انسان ہی ہوگا نہ کہ شیطان پر اس گمراہی کا الزام دیا جائے گا۔ شیطان کا تو کام ہے بہکانا اور انسان کا کام ہے اپنے آپ کو بچا کر رب کی راہ پر لگانا۔ ورنہ پھر دوزخ کی راہ پر چلنا ہوگا۔ دوزخ کا بیان تو کافی کیا جا چکا ہے یہاں دوزخ کے ان درجات کا ذکر دروازوں کی نسبت سے کیا گیا ہے۔ کیونکہ دوزخ کے بھی گناہوں کے مطابق درجات ہیں۔ یعنی دہریت، شرک، نفاق، نفس پرستی، ظلم و ستم، فسق و فجور، قتل و غارتگری، غرض ہر قسم کی بدکرداری کا درجہ دوزخ میں گناہ کی نوعیت سے دیا جائے گا۔ یہ تمام راز کی باتیں اور حقیقتیں رب ذوالجلال نے بتا دی ہیں۔ ان میں شک و شبہ کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں یہ سب ایسے ہی ہوگا، جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اپنے پیارے نبی کے ذریعہ سے ہمیں بتا دیا ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں اور اللہ کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اکثر باتیں قرآن پاک میں پہلے سے بتا دی ہیں اور ہمیں پوری طرح ہوشیار اور خبردار کردیا ہے۔ ہمیں ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
Top