Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Hijr : 26
وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ
وَلَقَدْ خَلَقْنَا
: اور تحقیق ہم نے پیدا کیا
الْاِنْسَانَ
: انسان
مِنْ
: سے
صَلْصَالٍ
: کھنکھناتا ہوا
مِّنْ حَمَاٍ
: سیاہ گارے سے
مَّسْنُوْنٍ
: سڑا ہوا
اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو بجنے والے ، متغیر ، سڑے ہوئے گارے سے ۔
(ربط آیات) گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے دلائل بیان ہوئے ، پہلے بیرونی دلائل کا ذکر ہوا جن میں آسمانوں کی تخلیق ، اس میں ستاروں اور سیاروں کو چلانا ، پھر زمین کو پھیلانا اور اس میں طرح طرح کی چیزیں پیدا کرنا ، پھر زمین وآسمان کے درمیان فضاؤں میں ہواؤں کو چلانا ، بادلوں کو اٹھانا ، باران رحمت کا نزول ، انسانوں ، جانوروں اور نباتات کے لیے پانی کی بہم رسانی اور اس کے نتیجے میں خوراک کا مہیا کرنا وغیرہ بیرونی دلائل تھے ، اس کے ساتھ ساتھ اللہ نے قیامت کا ذکر بھی فرمایا (آیت) ” ان ربک ھو یحشرھم “۔ تیرا پروردگار ان سب کو اس دن اکٹھا کریگا وہ انسان کو دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھتا ہے ، پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی اور جزائے عمل واقع ہوگی ، کہ یہ انسان کی پیدائش کے ساتھ لازم ہے ۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مسئلہ بیان فرمایا ہے اور اس میں اپنی قدرت اور وحدانیت کے اندرونی دلائل ذکر کیے ہیں ، بیرونی دنیا کے علاوہ اللہ نے انسان کے اندر بھی غور وفکر کرنے والوں کے لیے بہت سے دلائل رکھے ہیں ، چناچہ قرآن میں دوسری جگہ موجود ہے (آیت) ” وفی انفسکم ، افلا تبصرون “۔ (الذریت) تمہارے نفسوں کے اندر بھی اللہ نے بہت سے دلائل رکھے ہیں ، کیا تم دیکھتے نہیں ؟ اسی طرح حشر اموات بھی خود انسان کے اندرونی دلائل میں سے ایک دلیل ہے ۔ (مسئلہ تخلیق انسان) اللہ نے انسان کو پیدا کرکے اور اس کو وجود عطا کرکے بہت بڑا احسان فرمایا کہ اس سے نوع انسانی قائم ہوئی ہے انسان میں اگرچہ نافرمانی کا مادہ بھی پایا جاتا ہے ، مگر اللہ نے اس میں کمالات بھی بہت زیادہ پیدا کیے ہیں ، اگر انسان ان سے کام لے تو ہر کمال خدا تعالیٰ کی معرفت کی دلیل بن سکتا ہے ، چناچہ ارشاد ہوتا ہے ، (آیت) ” ولقد خلقنا الانسان “۔ اور البتہ تحقیق ہم نے پیدا کیا انسان کو (آیت) ” من صلصال من حما مسنون “۔ بجنے والے متغیر ، سڑے ہوئے گارے سے ، صلصال اس خشک مٹی کو کہتے ہیں کہ جب اسے آگ پر پکایا جائے تو ٹھوکر لگانے سے بجنے لگتی ہے سورة الرحمن میں ہے (آیت) ” خلق الانسان من صلصال کا لفخار “۔ انسان کو پیدا کی خشک مٹی سے پکی ہوئی مٹی سے ہوئی ہے تو اس میں حرارت کا جزو بھی یقینا موجود ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تمام روئے زمین کی مٹی اکھٹی کرکے لاؤ پھر اس کو گوندھا گیا ، اس کا گارا بنایا گیا ، اور پھر اس سے انسان کا مجسمہ تیار ہوا ۔ (انسانی وجود کے عناصر) عام مشہور ہے کہ انسان عناصر اربعہ یعنی مٹی ، آگ ، ہوا اور پانی کا مجموعہ ہے ، یہ نظریہ یونانیوں کے ہاں مانا جاتا تھا جسے بعض دوسروں نے بھی تسلیم کیا تاہم بعض لوگ انسان کو پانچ ، سات یا اس سے بھی زیادہ عناصر کا مجموعہ سمجھتے تھے ، موجودہ سائنسی تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بیرونی دنیا میں پائے جانے والے لاتعداد عناصر کا مرکب ہے ، باہر کی دنیا میں جتنے عناصر موجود ہیں انسانی وجود ان سب کا خلاصہ اور نچوڑ ہے اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کی مشینری بڑی پیچیدہ بنائی ہے اس کی باریک باریک رگیں اور دماغ کے پیچ وخم میں اپنی قدرت کے بیشمار کمالات اور حکمتیں رکھی ہیں اور پھر یہ ہے کہ روئے زمین کی مٹی کہیں نرم ہے کہیں سخت کہیں سفید ہے ، کہیں سیاہ اور کہیں سرخ ، اسی طرح یہ خواص انسان بھی پائے جاتے ہیں ، بعض لوگ نرم مزاج ہوتے ہیں اور بعض سخت مزاج بعض رنگت میں کالے ، گورے اور سرخ ہوتے ہیں یہ مختلف خطوں کی مٹی کی تاثیر ہے ۔ بہرحال اللہ نے انسان کی تخلیق کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے انسان کو صلصال یعنی کھنکھنانے والی ، حما ، یعنی بدلی ہوئی اور مسنون یعنی گلی سڑی مٹی سے پیدا کیا ، اس بات کی تفصیل تو نہیں تھی کہ آدم (علیہ السلام) کا مجسمہ تیار ہو کر کتنی دیر تک پڑا رہا اور پھر خشک ہوا ، البتہ فرشتے اور ابلیس اس مجسمے کو دیکھ رہے تھے ، ابلیس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے دیکھا کہ یہ مجسمہ اندر سے خالی ہے اور اس میں وسوسے ڈالنے کی گنجائش موجود ہے ، ادھر فرشتے بھی اس عجیب و غریب مجسمے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ یہ کیسی مخلوق ہے ، کافی عرصہ کے بعد اس مجسمے میں روح ڈالی گئی ، بہرحال فرمایا کہ ہم نے کھنکھنانے والے ، متغیر اور سڑے ہوئے گارے سے انسان کو تخلیق کیا ، اس مٹی میں اللہ نے وہ کمال رکھا جو کسی دوسرے مادے میں نہیں پایا جاتا ، اس میں خدا تعالیٰ کی ذاتی تجلیات کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو کسی دوسری مخلوق جنات ملائکہ وغیرہ میں بھی نہیں رکھی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسان کو برتری عطا فرمائی ہے ، (فرشتوں کی تخلیق) فرشتوں (1) (حجۃ اللہ البالغہ ص 23 ج 1) تخلیق انسان کی تخلیق سے کروڑوں سال پہلے ہوئی امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایک ایسا دور بھی آیا جب اللہ تعالیٰ نے ملاء اعلی کے فرشتوں جبرائیل اور میکائل کو پیدا فرمایا ، ان فرشتوں کے مادہ تخلیق کی مثال شاہ صاحب (رح) (2) (حجۃ اللہ البالغہ ص 16 ج 1) نے اس آگ سے دی ہے جسے موسیٰ (علیہ السلام) نے کوہ طور پر دیکھا تھا ، وہ ایک خاص نوری یاناری مادہ تھا جو درخت سے ظاہر ہو رہا تھا مگر درخت کو جلاتا نہیں تھا ، جوں جوں اس کی روشنی میں اضافہ ہوتا تھا ، درخت کی سرسبزی اور شادابی بھی بڑھتی جاتی تھی ، تو اس قسم کے حیرت انگیز مادے سے اللہ تعالیٰ نے ملاء اعلی کے فرشتوں کی تخلیق کی ، پھر ملاء اعلی کے دوسرے طبقے کے فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے عالم مثال کے لطیف مادے سے پیدا کیا ، پھر باقی فرشتے پیدا کیے ، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ تمام فرشتوں کا تعلق ایک ہی طبقے سے نہیں بلکہ ملاء اعلی سے زمین تک ان کے (3) (الخیر الکثیر ص 46 ، ص 47) سات طبقے ہیں اور ہر طبقے کا مادہ تخلیق مختلف ہے ، بعض کا مادہ برف کے ٹکڑے کی مانند ہے جس سے دھواں سا نکلتا ہوا دکھائی دیتا ہے بہرحال فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے نوع انسانی کی مصلحت کی خاطر پیدا فرمایا ، فرشتے ، جنات ، زمین اور آسمان وغیرہ تمام چیزیں پہلے پیدا کیں اور اس کے بعد انسان کو پیدا فرمایا ۔ (انسان کی برتری) اللہ تعالیٰ نے انسان کو باقی تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت عطا فرمائی ہے کیونکہ اس کے مادہ تخلیق میں جو لطافت اور کمال رکھا ہے اور جو خوبیاں اور صفات اس میں ودیعت کی ہے ، وہ کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائی جاتیں ، مٹی جیسی حقیر چیز کو دیکھیں اور پھر اس سے پیدا ہونیوالا اللہ کا شاہکار ملاحظہ کریں کہ انسان کو کیسی عظیم ہستی بنایا ہے ، اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے (آیت) ” لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم “۔ (التین) ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت اور بہترین قدوقامت میں پیدا فرمایا ، اللہ کا یہ بھی ارشاد (آیت) ” ولقد کرمنا بنی آدم “۔ (بنی اسرائیل) ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ، انسان کو مجسمہ بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس میں اپنی طرف سے روح ڈالی ، انسان کا شرف و کمال اسی روح کی وجہ سے ہے روح نہایت ہی لطیف چیز ہے اور اسی کی بدولت انسان کی صفات اور کمالات قائم ہیں ، (جنات کی تخلیق) انسان کی تخلیق کے بیان کے ساتھ اللہ نے نافرمان عنصر یعنی جنات کی تخلیق کا ذکر بھی کیا ہے (آیت) ” والجان خلقنہ من قبل من انار السموم “۔ اور اس سے پہلے ہم نے جنوں کو آگ کی لو سے پیدا کیا بعض کہتے ہیں کہ جان سے مراد جنوں کا جدامجد ابلیس ہے ، اور بعض کہتے ہیں کہ وہ ان میں شامل نہیں بلکہ الگ ہے ، تاہم ابلیس کی ساری اولاد نافرمان ہے مگر جنات میں سے فرمانبردار بھی ہیں اور نافرمان بھی جیسا کہ سورة جن میں آتا ہے (آیت) ” وانا من الصلحون ومنا دون ذلک “ ۔ ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ، بہرحال جنات کو اللہ تعالیٰ نے نار سموم سے پیدا کیا ، سورة الرحمن میں ہے (آیت) ” وخلق الجان من مارج من نار “۔ جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا ، شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کی تخلیق میں مٹی کا عنصر زیادہ ہے جب کہ جنات اور شیاطین کی تخلیق میں آگ کا عنصر غالب ہے ۔ (انسان کی تخلیق) اب اللہ نے انسان کی تخلیق کا مفصل حال بیان فرمایا ہے (آیت) ” واذ قال ربک للملئکۃ “۔ اور جب کہا تیرے پروردگار نے فرشتوں سے یہ انسان کی پیدائش سے پہلے کا واقعہ ہے ، فرمایا (آیت) ” انی خالق بشرا “ میں بشر یعنی انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، انسان کو بشر اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی کھال نمایاں نظر آتی ہے ، یہ انسان کا خاصہ ہے کہ اس کی کھال واضح طور پر نظر آتی ہے ، جب کہ جانوروں اور پرندوں کی کھال پوشیدہ ہوتی ہے اور واضح طور پر نظر نہیں آتی ، فرمایا میں انسان کو پیدا کرنے والا ہوں (آیت) ” من صلصال من حما مسنون “۔ کھنکھنانے والے متغیر اور سڑے ہوئے مادے سے ، غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انسان کی پیدائش کے متعلق پہلے ہی آگاہ کردیا ، (روح کا مسئلہ) فرمایا (آیت) ” فاذا سویتہ “۔ پھر جب میں اس کو برابر کر دوں (آیت) ” ونفخت فیہ من روحی “ اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں ، برابر کرنے سے مراد ہے کہ جب میں آدم (علیہ السلام) کے تمام اعضا وقوی اپنے اپنے مقام پر رکھ دوں ، جہاں تک روح کا تعلق ہے ، یہ حادث یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ نے اپنی روح پھونک دی ، اس طرح حلول کا مسئلہ بن گیا کہ انسان خدا ہوگیا اور خدا آدم بن گیا ، بلکہ روح تو مخلوق ہے اور اس کا تعلق عالم امر اور عالم خلق دونوں سے ہے ، سورة بنی اسرائیل میں موجود ہے کہ اے پیغمبر ﷺ ! لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو کہہ دیں (آیت) ” قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “۔ کہ وہ میرے پروردگار کا ایک امر ہے اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے ۔ روح کا مسئلہ بڑا پیچیدہ اور مشکل ہے ، بڑے بڑے فلاسفروں اور علماء نے اس پر کلام کیا ہے ، امام رازی (رح) نے کتاب النفس لکھی ہے جس میں روح اور نفس کی جملہ معلومات جمع کی ہیں اور اس میں قدیم نظریات کا ذکر بھی کیا ہے ، امام غزالی (رح) نے بھی کتاب الروح کے نام سے کتاب لکھی ہے جس میں روح کی حقیقت کو سمجھانے کی کوشش کی ہے ، امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگرد امام ابن قیم (رح) نے بھی کتاب الروح جیسی کتاب پیش کی ، تاہم اس مسئلہ میں سب سے زیادہ کلام امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ روح کے بارے میں خواص تو بحث کرسکتے میں مگر عوام کے لیے یہی کافی ہے کہ روح امر ربی ہے جیسا کہ سورة بنی اسرائیل کا حوالہ پہلے دے دیا ہے ، دوسری بات یہ ہے کہ روح کی نسبت اللہ کی طرف اس کی شرافت کی وجہ سے کی گئی ہے ، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ کو یہ نام ان کی شرافت کی وجہ سے دیے گیے ہیں ۔ (فرشتوں کو سجدے کا حکم) فرمایا جب میں آدم کو برابر کردوں اور اس میں اپنی طرف سے روح ڈال دوں (آیت) ” فقعوالہ سجدین “۔ تو تم اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا چناچہ ایسا ہی ہوا ، جب اللہ نے آدم (علیہ السلام) میں روح ڈال دی (آیت) ” فسجد الملئکۃ کلھم اجمعون “۔ تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا اس ضمن میں متکلمین اور علماء سارے ہی کہتے ہیں کہ عالم بالا اور عالم زیریں کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ حکم ملاء اعلی کے فرشتوں کو نہیں تھا بلکہ ملائکہ عنصرین کو تھا جن کی تخلیق عناصر سے ہوئی تھی ، ابلیس اور شیاطین بھی منجملہ ان میں سے ہیں ، اس لیے ان کو بھی سجدے کا حکم ہوا تھا ، سورة اعراف میں موجود ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” مامنعک الا تسجد اذ امرتک “۔ تجھے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا ، مطلب یہ ہے کہ جس طرح فرشتوں کو سجدے کا حکم ہوا تھا ، اسی طرح ابلیس کو بھی حکم تھا ، مگر اس نے انکار کردیا ۔ (سجدہ تعظیمی ) اللہ تعالیٰ نے جس سجدے کا حکم فرشتوں اور ابلیس کو دیا تھا وہ سجدہ تعظیمی تھا سجدہ عبادت اللہ کے سوا کسی کے لیے روا نہیں ، اگر کوئی کریگا تو اس پر کفر لازم آئے گا ، یہ سجدہ تعظیم و تکریم ایسا ہی ہے جیسا یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے آپ کے سامنے کیا تھا ، قدیم زمانے میں لوگ سجدہ تعظیمی بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کے سامنے بھی کرتے تھے ، اس کو سجدہ تحیہ یعنی ملاقات کا سجدہ بھی کہتے ہیں اور یہ پہلی امتوں میں ممنوع نہیں تھا مگر اس آخری امت کے لیے سجدہ تعظیمی بھی حرام ہے خواہ یہ کسی بادشاہ پیر ، استاد ، یا قبر کے سامنے کیا جائے ، البتہ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں کہ فرق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی انسان یا قبر کو سجدہ تعظیمی کرتا ہے ، تو وہ حرام ہے ، سجدہ کرنے والے پر کفر کا فتوی نہیں لگ سکتا ، اور اگر کوئی شخص کسی مخلوق کے سامنے عبادت کا سجدہ بجا لاتا ہے تو یہ صریح کفر ہوگا کیونکہ عبادت کا سجدہ ہر امت میں حرام ہے ۔ بعض فرماتے ہیں کہ سجدہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے نہیں ہوا تھا بلکہ سجدہ تو اللہ تعالیٰ کو ہی تھا ، اور آدم (علیہ السلام) بمنزلہ قبلہ کے تھے ، جس طرح ہم بیت اللہ شریف کو قبلہ اور جہت مان کر اللہ تعالیٰ کے سامنے سربسجود ہوتے ہیں ، اسی طرح فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کو قبلہ مان کر اللہ کو سجدہ کیا تھا ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کی تحقیق یہ ہے کہ خانہ کعبہ مرکز عالم ہے ، اس کی سمت پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات بہت زیادہ پڑتی ہیں ، تو ہمارا سجدہ دراصل اس تجلی الہی کو ہوتا ہے ، اسی طرح آدم (علیہ السلام) بھی منزلہ قبلہ تھے جن کی طرف فرشتوں نے سجدہ کیا ، بعض فرماتے ہیں کہ جب آدم (علیہ السلام) کے لیے سجدے کا حکم ہوا تو اس وقت ان کے قلب مبارک پر اللہ تعالیٰ کی ذاتی تجلیات پڑ رہی تھیں اس لیے آدم (علیہ السلام) کی سمت میں فرشتوں کو سجدہ کا حکم ہوا ، بعض فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی محض تعظیم کرائی تھی اور فرشتوں نے اس حکم کی بجا آوری کی ۔ (ابلیس کا انکار) بہرحال تمام فرشتوں نے سجدہ کی (آیت) ” الا ابلیس “ ماسوائے ابلیس کے (آیت) ” ابی ان یکون مع السجدین “ اس نے انکار کیا کہ وہ سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہو قال اللہ نے فرمایا (آیت) ” یابلیس مالک الا تکون مع السجدین “۔ اے ابلیس ! تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا ” قال “ کہنے لگا (آیت) ” ثم اکن لا سجد لبشر خلقتہ من صلصال من حما مسنون “۔ میں اس بشر کو سجدہ نہیں کرسکتا جسے تو نے کھنکھنا نے والے متغیر گارے سے پیدا کیا ہے گویا ابلیس نے آدم (علیہ السلام) پر اپنی برتری ظاہر کی سورة اعراف میں ہے (آیت) ” قال انا خیر منہ “ میں اس سے بہتر ہوں (آیت) ” خلقتنی من نار وخلقتہ من طین “۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم (علیہ السلام) کی مٹی سے تخلیق کیا ہے اور آگ مٹی سے فائق ہے ، لہذا میں مٹی جیسی ادنی چیز کے سامنے سجدہ نہیں کرسکتا بشار ابن برد شاعر نے کہا ہے ۔ ابلیس افضل من ابیکم ادم فتبینوا یا معشرالاشرار۔ النار عنصرہ وادم طینۃ والطین لا یسموسموا النار : ابلیس تمہارے جد امجد آدم (علیہ السلام) سے زیادہ فوقیت رکھتا ہے کیونکہ ابلیس کا عنصر آگ ہے اور آدم کا مٹی ، اور آگ کو مٹی پر فوقیت حاصل ہے یہ ابلیس کا تکبر اور حسد تھا کہ اس نے آدم (علیہ السلام) پر اپنی برتری ظاہر کی تکبر بہت بری بیماری ہے ، اسی لیے بزرگان دین جب کسی کی تربیت کرتے ہیں تو تکبر سب سے آخر میں نکلتا ہے یہ سب سے خطرناک اخلاق ہے تو شیطان نے اکٹر کی وجہ سے کہا میں آدم (علیہ السلام) سے افضل ہوں ۔ (شیطان راندہ ودرگاہ) قال : اللہ نے فرمایا (آیت) ” فاخرج منھا “ یہاں سے نکل جاؤ ، (آیت) ” فانک رجیم “۔ بیشک تم مردود ہو ، تم میں تکبر پیدا ہوگیا ہے ۔ سورة بقرہ میں ہے (آیت) ” ابی واستکبر وکان من الکفرین “۔ اس نے انکار اور تکبر کیا تو کافروں میں ہوگیا ، حضرت شمس الدین یحیٰ منیری (رح) کے مکتوبات میں ہے کہ ابلیس نے ساتھ لاکھ سال عبادت کی مگر اللہ کے ایک حکم کی سرتابی کی وجہ سے ساری عبادت رائیگاں چلی گئی ، فرمایا یاد رکھو ! (آیت) ” وان علیک اللعنۃ الی یوم الدین “۔ تم پر قیامت تک لعنت ہی برستی رہیگی ، اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت آنے پر لعنت سے نکل جائیگا بلکہ قیامت برپا ہونے کے بعد تو جزائے عمل کی منزل آنے والی ہے اور پھر اس کا عذاب تو مزید بڑھ جائے گا ، کافروں کے متعلق سورة بقرہ میں اللہ کا واضح حکم ہے (آیت) ” ان الذین کفروا وما توا وھم کفار اولیک علیھم لعنۃ اللہ والملئکۃ والناس اجمعین ، خلدین فیھا لا یخفف عنھم العذاب ولا ھم ینظرون “۔ جو شخص کفر کی حالت میں مرگیا ، اس پر اللہ ، اس کے فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہوگی ، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ان کے عذاب میں نہ تخفیف ہوگی اور نہ انہیں مہلت دی جائیگی ، بہرحال فرمایا کہ اے ابلیس ! تم پر قیامت تک لعنت پڑتی رہیگی اور پھر آخرت کا عذاب تو دائمی ہوگا۔
Top