Dure-Mansoor - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی جی میں یہ بات ڈالی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور عمارتوں میں جو لوگ اونچے گھر بناتے ہیں
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ”‘ واحی ربک الی النحل “ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہام کیا شہد کی مکھی کو۔ 2:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ نحل ایک چھوٹا سا جانور ہے اس کی طرف وحی بھیجی یعنی اس کے دل میں (بات) ڈال دی۔ شہد کی مکھی بھی عجائب قدرت میں سے ہے : 3:۔ ابن جریر اور ابن منذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ”‘ واحی ربک الی النحل “ یعنی اس کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ کوئی قاصد اس کی طرف نہیں بھیجا۔ 4:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ”‘ واحی ربک الی النحل “ یعنی اس کو حکم فرمایا کہ تو پھلوں میں سے رس نکال کر کھائے اور اس کو حکم کیا کہ اپنے رب کے راستے پر چل جو آسان ہے۔ 5:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن منذر اور ابن حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاسلکی سبل ربک ذللا “ یعنی ایسے راستوں پر چل جن پر مکان بنانا مشکل نہ ہو۔ 6:۔ عبدالرزاق ابن جریر اور ابن منذر نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاسلکی سبل ربک ذللا “ یعنی (راستہ جو تیرے لئے) آسان کیا گیا۔ 7:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ ” ذلول “ اس کو کہتے ہیں جس کی قیادت کی جاتی ہے وہ وہاں ہی جاتا ہے جہاں اس کا مالک ارادہ کرتا ہے فرمایا لوگ شہد کی مکھیوں کے پیچھے جاتے تھے اور اس کے ذریعہ چراگاہ تلاش کرتے تھے اور لوگ جاتے ہیں جبکہ شہد کی مکھی ان کی پیروی کرتی ہے پھر یہ (آیت) پڑھی ” اولم یروا انا خلقنا لہم مما عملت ایدینا انعاما فہم لھا مالکون (71) وذللنھا لہم ” یسین آیت (72) ۔ 8:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” فاسلکی سبل ربک ذللا “ یعنی اطاعت شعار (آیت) ” یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ “ فرمایا یہ شہد ہے (آیت) ” فیہ شفآء للناس “ یعنی ان تکلیفوں کے لئے شفاء ہے جن کی شفا اس میں رکھی گئی ہے۔ 9:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ “ یعنی شہد اور قرآن میں شفا ہے۔ 10:۔ ابن جریر ابن ابی شیبہ اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” یخرج من بطونھا شراب مختلف الوانہ فیہ شفآء للناس ‘ میں شراب سے مراد شہد ہے۔ 11:۔ ابن ابی شیبہ اور ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ شہد میں ہر بیماری سے شفا ہے اور قرآن شفا ہے (ان بیماریوں سے) جو سینوں میں ہیں۔ شفاء دینے والی دو چیزیں : 12:۔ سعید بن منصور، ابن ابی شیبہ، ابن منذر، ابن ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ دو شفا دینے والی چیز تم لازمی پکڑو شہد اور قرآن۔ 13:۔ ابن ماجہ، ابن مردویہ، حاکم اور بیہقی نے شعب میں (حاکم نے صحیح بھی کہا) ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لازم پکڑو دو شفا دینے والی چیزوں کو شہد اور قرآن۔ 14:۔ بخاری نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تین چیزوں میں شفا ہے پچھنے لگانے کے لئے ایک بار کونچنا یا شہد پینا یا آگ سے داغ دینا اور میں اپنی امت کو داغنے سے منع کرتا ہوں۔ 15:۔ احمد، بخاری، مسلم اور ابن مردویہ نے ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے بھائی کو اسہال کی شکایت ہے آپ نے فرمایا اس کو شہد پلاو اس نے اس کو شہد پلایا پھر آیا اور کہنے لگا کہ اسہال اور زیادہ ہوگیا آپ نے فرمایا جاؤ اس کو شہد پلاؤ اس نے پھر شہد پلایا پھر آیا اور کہنے لگا اسہال اور زیادہ ہوگیا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سچ کہا اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے جاؤ اور اس کو (پھر) شہد پلاؤ وہ گیا اور (پھر) شہد پلایا تو وہ اچھا ہوگیا۔ 16:۔ ابن ماجہ، ابن السنی اور بیہقی نے شعب میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ہر ماہ کی تین صبح کو شہد چاٹ لیا اس کو کوئی بڑی مصیبت نہ پہنچے گی۔ 17:۔ بیہقی نے شعب میں نقل کیا کہ عامر بن مالک ؓ نے بیان فرمایا میں ایک آدمی کو رسول اللہ ﷺ کے پاس بھیجا سخت بخار کی وجہ سے جو مجھ کو تھا تاکہ آپ دوا یا شفا لے آئے تو آپ نے شہد کی ایک کپی میری طرف بھیج دی۔ 18۔ حمید بن زنجویہ نے نافع (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر ؓ ہر تکلیف کے لئے شہد استعمال فرماتے تھے حتی کہ پھوڑے پر بھی شہد لگا دیتے تھے ہم نے ان سے کہا آپ پھوڑے کا علاج بھی شہد سے کرتے ہیں ؟ فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے (آیت) ” فیہ شفآء للناس “۔ 19:۔ احمد اور نسائی نے معاویہ بن خدیج (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر کسی چیز میں شفا ہے (تو ان طریقوں سے ہے) پچھنے لگانے کے لئے ایک بار کونچنے کو یا شہد پینے کو یا آگ سے داغنے کو اور میں داغ دینا پسند نہیں کرتا۔ 20:۔ ابن ابی شیبہ نے حشرم المجمری (رح) سے روایت کیا کہ نیزوں سے کھیل کرنے والے عامر بن مالک ؓ نے نبی کریم ﷺ کے پاس (کسی) کو بھیجا کہ آپ سے سوال کرے اس بیماری کی شفاء اور دوا کا جو ان کو لگی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف شہد کی ایک کپی بھیج دی۔ 21:۔ ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ مومن کی مثال کھجور کی طرح ہے پاکیزہ چیز کھاتا ہے اور پاکیزہ رکھتا ہے۔ 22:۔ ابن ابی شیبہ نے امام زھری (رح) سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چیونٹی اور شہد کی مکھی کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ 23:۔ طبرانی نے اوسط میں سند حسن کے ساتھ ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بلال ؓ کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے میٹھی اور کڑوی میں سے کھاتی ہے پھر وہ سارے کا سارا شہد ہوتا ہے۔ 24:۔ حاکم نے (اور اس کو صحیح بھی کہا) عبداللہ بن عمر و ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ فحش گو اور بتکلف فحش گوئی کرنے والے کو پسند نہیں فرماتے اور برے پڑوسی کو اور قطع رحمی کو بھی پھر فرمایا مومن کی مثال شہد کی مکھی کی طرح ہے (کھیتوں میں) چرتی ہے پاکیزہ چیز کھاتی ہے پھر (اپنے چھتے) پر بیٹھ جاتی ہے پس تو اسے نہ اذیت دے اور نہ اس کو توڑ۔ 25:۔ طبرانی نے سہل بن سعد الساعدی ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چیونٹی کو شہد کی مکھی کو ھدھد کو لٹورے کو اور مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ 26:۔ خطیب نے تاریخ میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے چیونٹی شہد کی مکھی ھد ھد اور لٹورا کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ 27:۔ ابویعلی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مکھی چالیس دن زندہ رہتی ہے سوائے شہد کی مکھی کے سب مکھیاں دوزخ میں جائیں گی۔ شہد کی مکھی دوزخ میں نہیں جائے گی : 28:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں مجاہد (رح) کے طریق سے عبید بن عمیر یا ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر مکھی دوزخ میں جائے گی سوائے شہد کی مکھی کے اور اس کے مارنے سے منع فرمایا۔ 29:۔ حکیم ترمذی نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب مکھیاں دوزخ میں جائیں گی سوائے شہد کی مکھی کے۔ 30:۔ ابن جریر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ومنکم من یرد الی ارذل العمر “ میں ارذل العمر سے مراد پچھتر سال ہے۔ 31:۔ ابن ابی حاتم نے سدی (رح) سے (آیت) ” ومنکم من یرد الی ارذل العمر “ کے بارے میں فرمایا کہ ارذل العمر سے مراد ہے خوف۔ 32:۔ سعید بن منصور ابن ابی شیبہ ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ جو شخص قرآن پڑھتا ہے وہ نکمی عمر کی طرف نہیں لوٹایا جاتا تو پھر یہ (آیت) لکی لا یعلم بعد علم شیئا “ پڑھی۔ 33:۔ ابن ابی شیبہ نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ عالم کی عقل بڑھاپے کی وجہ سے فاسد نہیں ہوتی۔ 34:۔ ابن ابی شیبہ نے عبدالمالک بن عمیر سے روایت کیا کہ یہ بات کہی جاتی تھی کہ لوگوں میں عقل کے لحاظ سے باقی رہنے والے قرآن کو پڑھنے والے ہیں۔ 35:۔ بخاری اور ابن مردویہ نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ یوں دعا فرماتے تھے : اعوذ بک من البخل والکسل وارذل العمر و عذاب القبر وفتنۃ الدجال وفتنۃ المحیا وفتنۃ الممات ـ:ـ ترجمہ : میں پناہ مانگتا ہوں آپ سے کنجوسی سے سستی سے نکمی عمر سے قبر کے عذاب سے دجال سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔ 36:۔ ابن مردویہ ابن مسعود ؓ عنہنے فرمایا رسول اللہ ﷺ یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اعوذ باللہ میں دعاء لا یسمع ومن قلب لا یخشع ومن علم لا ینفع ومن نفس لا یشبع : ترجمہ : میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ سے ایسی دعا سے جو نہ سنی جائے ایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسی جان سے جو سیر نہ ہو۔ اللہم انی اعوذ بک من الجوع فانہ بئس الضجیع ومن الخیانۃ فانھا بئست الطانۃ۔ ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں بھوک سے کیونکہ برا ساتھی ہے (اور پناہ مانگتا ہوں) خیانت سے کیونکہ وہ برا دوست ہے۔ اعوذ بک من والکسل والھرم والبخل والجین واوعوذبک ان ارد الی وارذل العمر وعوذبک من فتنۃ الدجال و عذاب القبر “ ترجمہ : اور میں پناہ مانگتا ہوں سستی سے اور بوڑھاپے سے کنجوسی سے اور بزدلی سے اور میں پناہ مانگتا ہوں کہ میں نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاوں اور میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں دجال کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے۔ 37:۔ ابن مردویہ نے سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ یوں دعا فرمایا کرتے تھے : اللہم انی اعوذ بک من البخل والجین اوعوذبک ان ارد الی ارذل العمر واعوذبک من فتنۃ الدجال و عذاب القبر : ترجمہ : اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں کنجوسی اور آپ سے پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے اور آپ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاوں اور آپ سے پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور آپ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔ بچوں کے اعمال صالحہ کا اجر والدین کو ملتا ہے : 38:۔ ابن مردویہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بچہ بالغ ہونے سے پہلے تک جو وہ کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اس کے والد یا والدین کے اعمال نامے میں درج کردیا جاتا ہے اور اگر وہ کوئی برا عمل کرتا ہے تو نہ اس پر لکھا جاتا ہے اور نہ اس کے والدین پر اور جب وہ بالغ ہوجاتا ہے تو اس پر قلم جاری ہوجاتا ہے (یعنی اس کے اعمال اچھے یا برے اس کے اپنے اعمال نامے میں لکھنا شروع ہوجاتے ہیں) تو وہ فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ رہیں وہ اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور اس کو درست جانب چلانے کی کوشش کرتے ہیں جب وہ چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی تین مصیبتوں سے امن دے دیتے ہیں جنون سے جذام سے اور برص سے اور جب وہ پچاس برس کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیاں دگنی کردیتے ہیں اور جب وہ ساٹھ برس کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں اس حالت میں جس کو وہ پسند فرماتے ہیں اور جب وہ ستر برس کو پہنچ جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت فرماتے ہیں اور جب وہ نوے سال کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کے گھروالوں کے بارے میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا نام اسیر اللہ (یعنی اللہ کا قیدی) ہوتا ہے اس کی زمین میں اور جب نکمی عمر کو پہنچ جاتا ہے ” لکی لا یعلم بعد علم شیئا “ تو اللہ تعالیٰ (اس کے نامہ اعمال میں) وہ نیک اعمال لکھ دیتے ہیں جو وہ اپنی صحت (کے زمانہ) میں کرتا تھا اور اگر وہ کوئی برا عمل کرتا تھا تو اس پر نہیں لکھا جاتا۔
Top