Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 68
وَ اَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَۙ
وَاَوْحٰى : اور الہام کیا رَبُّكَ : تمہارا رب اِلَى : طرف۔ کو النَّحْلِ : شہد کی مکھی اَنِ : کہ اتَّخِذِيْ : تو بنا لے مِنَ : سے۔ میں الْجِبَالِ : پہاڑ (جمع) بُيُوْتًا : گھر (جمع) وَّ : اور مِنَ : سے۔ میں الشَّجَرِ : پھل وَمِمَّا : اور اس سے جو يَعْرِشُوْنَ : چھتریاں بناتے ہیں
اور آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں القاء کیا کہ تو گھربنا لے پہاڑوں میں (بھی) اور درختوں میں (بھی) اور لوگ جو عمارتیں بناتے ہیں ان میں (بھی) ،99۔
99۔ چناچہ شہد کی مکھیاں اپنا چھتا انہیں مقامات پر لگاتی ہیں، ان مکھیوں کا چھتا بھی صنعت وکاریگری کا ایک حیرت انگیرنمونہ ہوتا ہے، معلوم ہوتا ہے کہ کسی مہندس یا انجینئر نے اسے تیار کیا ہے۔ (آیت) ” اوحی “۔ وحی یہاں اصطلاحی مفہوم میں نہیں، جو وحی نبوت کے مرادف ہے۔ بلکہ اپنے عام ووسیع معنی میں ہے، دل میں بات ڈال دینے کے مرادف ہے۔ واصل الوحی الاشارۃ السریعۃ (راغب) اے انہ تعالیٰ قرر فی انفسھا ھذہ الاعمال العجیبۃ (کبیر) ماہرین نفسیات انگریزی میں جس شے کو (جبلت) سے تعبیر کرتے ہیں، وہ وحی حیوانی ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور علامہ راغب نے اسی مفہوم کو ” تسخیر “ سے ادا کیا ہے۔ (آیت) ” النحل “۔ شہد کی مکھی اپنی فراست، دانائی کے لحاظ سے ساری حیوانی دنیا میں مشہور وممتاز ہے۔ فرنگی ماہرین فن نے کتابوں پر کتابیں ان مکھیوں کی فراست و دانائی اور حسن انتظام و تدبر پر لکھ ڈالی ہیں۔ حق تھا کہ اس ننھی سی مخلوق کی ذہانت خاصہ کو وحی الہی اپنی جانب منسوب کرتی (آیت) ” ممایعرشون “۔ سے مراد عمارتیں بھی ہوسکتی ہیں، اور انگور وخرما کی ٹہنیاں بھی۔ (آیت) ” من الجبال من الشجر مما یعرشون “۔ میں ہر جگہ تبعیضیہ ہے۔ یعنی یہ مراد نہیں کہ مکھی اپنا چھتا ہر پہاڑ، ہر درخت، ہر اونچی عمارت پر لگاتی ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ ان چیزوں میں سے جو بھی اسے مناسب معلوم ہوتی ہیں، ان پر لگاتی ہے۔
Top