Dure-Mansoor - Al-Israa : 11
وَ یَدْعُ الْاِنْسَانُ بِالشَّرِّ دُعَآءَهٗ بِالْخَیْرِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا
وَيَدْعُ : اور دعا کرتا ہے الْاِنْسَانُ : انسان بِالشَّرِّ : برائی کی دُعَآءَهٗ : اس کی دعا بِالْخَيْرِ : بھلائی کی وَكَانَ : اور ہے الْاِنْسَانُ : انسان عَجُوْلًا : جلد باز
اور انسان برائی کے لئے ایسی دعا مانگتا ہے جیسے خیر کے لئے مانگتا ہے اور انسان جلد باز ہے۔
1:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویدع الانسان بالشر دعآء بالخیر “ سے مراد ہے انسان کا یہ کہنا (جیسے وہ بدعا کرتے ہوئے کہتا ہے) اے اللہ اس پر لعنت فرما اور اس پر غضب فرما۔ 2:۔ عبدبن حمید، ابن منذر اور ابن ابی حاتم نے الحسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویدع الانسان بالشر دعآء بالخیر “ سے مراد ہے انسان کی بدعا اپنی اولاد پر اپنی بیوی پر کہ جب ان میں سے کوئی غصہ ہوتا ہے تو اس پر بددعا کرتا ہے اپنے آپ کو گالیاں دیتا ہے اپنی بیوی کو اپنے مال کو اور اپنی اولاد کو گالیاں دیتا ہے اگر اللہ تعالیٰ (اس کی بددعا کے مطابق) عطاء فرما دیں تو اس پر شاق گزرتا ہے اسی لئے اس سے منع کیا گیا پھر وہ (جب) خیر کی دعا کرتا ہے تو اللہ اس کو عطاء فرمادیتے ہیں۔ 3:۔ ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ویدع الانسان بالشر دعآء بالخیر “ سے مراد ہے انسان کی بددعا مراد ہے کہ وہ اپنی اولاد پر اپنی بیوی پر بددعا کرنے میں جلدی کرتا ہے اور نہ بھی نہیں چاہتا کہ ان کو یہ مصیبت پہنچ جائے۔ 4:۔ ابوذر اور بزار نے جابر (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنے اوپر اپنی اولاد پر اپنے مالوں پر بددعا نہ کرو اللہ تعالیٰ سے کسی ایسی گھڑی میں موافقت نہ کرو جس میں قبولیت ہو ورنہ وہ تمہاری اس بدعا کو بھی قبول فرمائے گا۔ 5:۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ( آیت) ” وکان الانسان عجولا “ سے مراد ہے کہ انسان بہت جلد اکتانے والا ہے نہ اسے خوشحالی پر صبر ہے اور نہ اسے تنگدستی پر صبر ہے۔ 6:۔ ابن ابی شیبہ، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن منذر اور ابن عساکر نے سلیمان فارسی ؓ سے روایت کیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سر کو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمایا تو وہ پیدا ہونے کے بعد دیکھنے لگے جبکہ ان کی ٹانگیں (تیار ہونا) باقی تھیں جب عصر کے بعد کا وقت ہوا تو عرض کیا اے میرے رب رات سے پہلے جلدی جلدی میری ٹانگیں بھی بنا دیجئے اسی کو فرمایا ( آیت) ” وکان الانسان عجولا “ 7:۔ ابن ابی شیبہ نے مجاہد ؓ سے روایت کیا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کا باقی جسم پیدا کرنے سے پہلے ان کی آنکھوں کو پیدا فرمایا تو عرض کیا اے میرے رب سورج غروب سے پہلے میری پیدائش کو پورا فرما دیجئے تو اسی پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ( آیت) ” وکان الانسان عجولا “۔
Top