Dure-Mansoor - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! دیدہ دانستہ اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ ہی تم آپس کی امانتوں 28 میں خیانت کرو
28 امانتوں میں خیانت کی مختلف صورتیں :۔ امانتوں میں خیانت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ امانتوں سے مراد وہ تمام عہد معاہدے اور وہ ذمہ داریاں ہیں جو کسی انسان پر عائد کی گئی ہوں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ سے انسان کا عہد، عہد میثاق بھی ہے جس کو پورا کرنے پر انسان اللہ کا نافرمان رہ ہی نہیں سکتا اور وہ عہد بھی جو انسان ذاتی طور پر اللہ سے باندھتا ہے جیسے نذریں اور منتیں وغیرہ اللہ کے رسول ﷺ سے خیانت یہ ہے کہ جن باتوں پر کسی مسلمان نے آپ سے بیعت کی ہے۔ ان میں فرار کی راہیں سوچنے لگے اور لوگوں سے معاہدے دین کے بھی ہوسکتے ہیں۔ صلح و جنگ کے سمجھوتے بھی، نکاح کے بھی، پھر انسان پر اس کے منصب کے لحاظ سے طرح طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ غرض اس آیت کے مضمون میں انسان کی پوری زندگی آجاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی زندگی کے ہر واقعہ کے وقت متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ کسی حال میں خیانت نہ کرے۔ اور بالخصوص جس بات پر اس آیت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کفار سے متعلق مسلمانوں کی پالیسی کو منافقوں یا مشکوک لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اس سلسلہ میں انتہائی احتیاط سے کام لیں۔ کیونکہ ہر قسم کی جنگی تدابیر اللہ اور اس کے رسول کی امانت ہیں اور ایسے اقدامات کے متعلق کافروں کو اشارتاً یا کنایتہ مطلع کرنا یعنی جنگی راز کو فاش کرنا بھی امانت میں خیانت ہے۔ جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ بسا اوقات فتح شکست میں بدل جاتی ہے۔
Top