Dure-Mansoor - Al-Baqara : 44
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ
اَتَأْمُرُوْنَ : کیا تم حکم دیتے ہو النَّاسَ : لوگ بِاالْبِرِّ : نیکی کا وَتَنْسَوْنَ : اور بھول جاتے ہو اَنْفُسَكُمْ : اپنے آپ کو وَاَنْتُمْ : حالانکہ تم تَتْلُوْنَ الْكِتَابَ : پڑھتے ہو کتاب اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ : کیا پھر تم نہیں سمجھتے
کیا تم لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تم سمجھ نہیں رکھتے
(1) امام عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم “ سے وہ اہل کتاب مراد ہے جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب کی تلاوت کرتے تھے لیکن اس سے نفع نہیں اٹھاتے تھے جو اس کے اندر احکام ہیں (یعنی اس پر عمل نہیں کرتے تھے) ۔ (2) امام ثعلبی اور واحدی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ یہود مدینہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ان میں سے ایک آدمی تھا جو سسرالی اور نسبتی رشتہ داروں اور اس شخص سے جو اس کے اور ان کے درمیان مسلمانوں میں سے رضاعت کا رشتہ تھا کہا کرتا تھا اس دین پر قائم رہ جس پر تو ہے اور اس پر بھی جو یہ آدمی تجھ کو اس کا حکم کرتا ہے اور وہ اس آدمی سے مراد لیتے تھے حضرت محمد ﷺ کی ذات مبارک۔ کیونکہ اس کا حکم حق ہے اور (یہودی) لوگوں کو اس بات کا حکم کرتے تھے اور (خود) ایسا نہیں کرتے تھے (یعنی اسلام قبول نہیں کرتے تھے) ۔ (3) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اتامرون الناس بالبر “ سے مراد ہے دین محمد ﷺ میں داخل ہوتا۔ لفظ آیت ” وانتم تتلون الکتب “ حالانکہ تم اس کتاب کو پڑھتے ہو لفظ آیت ” افلا تعقلون “ کیا تم نہیں سمجھتے ہو (یعنی) ان کو اس برے اخلاق سے منع فرمایا۔ (4) امام ابن اسحاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس آیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ تم لوگوں کو تورات کے عہد اور نبوت کے انکار سے روکتے ہو حالانکہ تم خود میرے رسول کی تصدیق کے عہد کا انکار کرتے ہو جو اس تورات کے اندر موجود ہے۔ (5) امام عبد الرزاق، ابن ابی شیبہ، ابن جریر اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو قلابہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں ابو الدرداء ؓ سے روایت فرمایا کہ کوئی آدمی ہر فقہ حاصل نہیں کرسکتا یہاں تک کہ وہ لوگوں سے اللہ کی ذات کے بارے میں لوگوں پر ناراض ہو۔ پھر وہ اپنی ذات کی طرف لوٹتا ہے۔ (یعنی اپنے کردار پر نظر کرتا ہے) تو وہ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے اوپر زیادہ نفرت کرنے والا ہوتا ہے۔ (6) امام وکیع، ابن ابی شیبہ، احمد، عبد بن حمید، البزار، ابن ابی داؤد نے البعث میں، ابن المنذر، ابن حیان، ابو نعیم نے الحلیہ میں، ابن مردویہ اور بیہقی نے الشعب میں حضرت انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا معراج کی رات میں میں نے کئی مردوں کو دیکھا کہ جن کے ہونٹ آگ کی کینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں جب وہ کٹ جاتے ہیں تو پھر اپنی پہلی حالت پر لوٹ آتے۔ میں نے جبرئیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ آپ کی امت کے خطلب حضرات ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتاب یعنی قرآن کو پڑھتے تھے کیا وہ ( اس بات کو) نہیں سمجھتے تھے۔ (7) امام احمد، بخاری، مسلم نے اسامہ بن زید ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ایک آدمی قیامت کے دن لایا جائے گا اور اس کو دوزخ میں ڈالا جائے گا اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ ان کی گرد اس طرح گھومے گا جیسے گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے اس کے گرد دوزخ والے چکر لگائیں گے اے فلاں تجھ کو کیا ہوا (یہ عذاب) تجھ کو کیسے پہنچا کیا تو ہم کو نیکی کا حکم نہیں کرتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا ؟ وہ کہے گا میں تم کو نیکی کا حکم کرتا تھا اور خود عمل نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے روکتا تھا اور (خود) اس کو کرلیتا تھا۔ جنتی و دوزخیوں کے آپس کا مکالمہ (8) حضرت الخطیب نے اقتضاء العلم بالعمل میں اور ابن النجار نے تاریخ الخطوات میں جابر ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت والے دوزخ والوں پر (جھانکیں گے) اور ان سے پوچھیں گے تم کیوں دوزخ میں داخل ہوئے حالانکہ ہم تمہارے ہی تعلیم کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے وہ کہنے لگے ہم تمہیں (نیک کام کا) حکم کرتے تھے مگر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ (9) امام طبرانی اور الخطیب نے اقتضاء العلم بالعمل میں اور ابن عساکر نے ضعیف سند کے ساتھ ولید بن عقبہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت والے دوزخ والوں پر جھانکیں گے اور ان سے پوچھیں گے تم آگ میں کیوں داخل ہوئے اللہ کی قسم ہم تمہاری ہی تعلیم سے جنت میں داخل ہوئے وہ کہیں گے ہم (دوسروں کو) کہتے تھے مگر خود عمل نہیں کرتے تھے۔ (10) امام عبد الرحمن نے زوائد الزہد میں ولید بن عقبہ ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اپنے خطبہ میں فرمایا حکم دینے والے دوزخ میں جائیں گے اور ان کی اطاعت کرنے والے جنت میں داخل ہوں گے تو جنتی پوچھیں گے جبکہ حکم دینے والے آگ میں ہوں گے تم کس طرح آگ میں داخل ہوئے حالانکہ ہم جنت میں تمہاری اطاعت سے داخل ہوئے تو وہ لوگ جواب دیں گے ہم ہم تم کو کچھ چیزوں کا حکم کرتے تھے مگر ہم خود اس کی مخالفت کرتے تھے۔ (11) امام ابن ابی شیبہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا ایک قوم جنت میں جھانکے گی ایسی قوم پر جو آگ میں ہوگی (اور) جنت والے ان سے پوچھیں گے تم لوگ آگ میں کس طرح پہنچے تم تو وہ عمل کرتے تھے جو تم ہم کو بتاتے تھے (اس لئے ہم جنت میں پہنچ گئے) دوزخ والے جواب دیں گے کہ ہم تم کو بتاتے تھے مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ (12) امام ابن المبارک نے الزہد میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ جنت والے جھانکیں گے دوزخ والوں پر اور پوچھیں گے کس عمل نے تم کو آگ میں داخل کیا حالانکہ ہم تو تمہاری تعلیم و تربیت کی وجہ سے جنت میں داخل ہوئے۔ دوزخ والے جواب دیں گے ہم تم کو نیکی کا حکم کرتے تھے مگر خود نیکی نہیں کرتے تھے۔ (13) امام طبرانی، خطیب نے الاقتضاء میں اور الاصبہانی نے الترغیب میں جید سند کے ساتھ جندب بن عبد اللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس عالم کی مثال جو لوگوں کو خیر سکھاتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا مانند اس چراغ کے ہے جو لوگوں کو روشنی پہنچاتا ہے اور اپنے آپ کو جلا دیتا ہے۔ (14) امام ابن ابی شیبہ اور عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزہد میں جندب بجلی (رح) سے روایت کیا کہ مثال اس شخص کی جو لوگوں کو نصیحت کرتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے مانند اس چراغ کے ہے جو دوسروں کو روشنی پہنچاتا ہے اور اپنے آپ کو جلا ڈالتا ہے۔ (15) امام طبرانی اور الخطیب نے الاقتضاء میں ابو برزہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مثال اس شخص کی جو لوگوں کو تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے مانند اس فتیلہ کے ہے جو لوگوں کو روشنی پہنچاتا ہے اور اپنے آپ کو جلا ڈالتا ہے۔ (16) حضرت ابن قانع نے اپنی معجم میں الخطیب نے الاقتضاء میں سلیک ؓ سے روایت کیا کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب عالم علم سکھاتا ہو اور (خود) اس پر عمل نہ کرتا ہو اس چراغ کی مانند ہے جو لوگوں کو روشنی پہنچاتا ہے اور اپنے آپ کو جلا دیتا ہے۔ (17) الاصبہانی نے الترغیب میں ضعیف سند کے ساتھ ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا برے عالم کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اس کو جہنم میں پھینک دیا جائے تو وہ اپنے قصب کے گرد گھومے گا میں نے کہا قصب کیا چیز ہے ؟ تو انہوں نے کہا معدہ انتڑیاں (وہ اپنی آنتوں کے گرد اس طرح گھومے گا) جس طرح گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے۔ اس سے کہا جائے گا ہائے افسوس تو اس مصیبت میں کیوں گرفتار ہوا حالانکہ ہم نے تیری وجہ سے ہدایت پائی تو وہ کہے گا میں تمہاری مخالفت کرتا تھا جس سے تم کو روکتا تھا۔ (18) امام طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص لوگوں کو کسی قول یا عمل کی طرف بلاتا ہے اور خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ برابر اللہ کے غصہ کے سایہ میں رہتا ہے یعنی ناراضگی میں یہاں تک کہ اس برائی سے رک جائے یا عمل کرنے لگ جائے جو اس نے کہا (نیک عمل کے بارے میں) یا جس کی طرف اس نے (لوگوں کو نیکی کی طرف) بلایا۔ (19) امام ابن مردویہ، بیہقی نے شعب الایمان میں اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہنے لگا اے ابن عباس ؓ ! میں ارادہ کرتا ہوں کہ میں نیکی کا حکم کروں اور برائی سے روکوں انہوں نے فرمایا کیا میں اس طرح تبلیغ کا حق ادا کروں گا ابن عباس ؓ نے فرمایا میں امید رکھتا ہوں (پھر) انہوں نے فرمایا اگر تو اس بات سے نہیں ڈرا کہ تجھے اللہ کی کتاب میں سے تین آیات رسوا نہ کردیں تو ضرور ایسا کر عرض کیا وہ کون سی آیات ہیں فرمایا اللہ تعالیٰ کا قول ہے لفظ آیت ” اتامرون الناس بالبر وتنسون انفسکم “ کیا تو نے یہ آیت سمجھ لی ہے اس نے کہا نہیں پھر فرمایا دوسری آیات جو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے لفظ آیت ” لم تقولون مالا تفعلون کبر مقتا عند اللہ ان تقولوا مالا تفعلون “ کیا یہ آیت تو نے سمجھ لی ہے تو اس نے کہا نہیں (پھر) فرمایا تیسری آیت جو نیک بندے شعیب (علیہ السلام) کا قول ہے لفظ آیت ” ما ارید ان اخالفکم الی ما انھکم عنہ “ (سورۃ ہود) کیا یہ آیت تو نے سمجھ لی ہے اس نے کہا نہیں پھر فرمایا پہلے اپنے آپ سے شروع کر (یعنی پہلے اپنی ذات کو ” امر بالمعروف ونہی عن المنکر “ کر) ۔ (20) امام ابن المبارک نے الزہد میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں شعبی (رح) سے روایت کیا کہ خطیب نے دنیا میں خطبہ دیا ہے تو عنقریب اللہ تعالیٰ اس کا خطبہ پیش فرمائیں گے جو بھی اس نے اس خطبہ سے ارادہ کیا ہوگا۔ (21) امام ابن سعد، ابن ابی شیبہ اور احمد نے الزہد میں ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو کچھ بھی نہیں جانتا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو اس کو علم عطا فرماتے اس شخص کے لیے سات مرتبہ ہلاکت ہے جو علم رکھتا ہے اور عمل نہیں کرتا۔ (22) امام احمد نے الزہد میں عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو نہیں جانتا اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو اس کو علم عطا فرماتے اور جو شخص جانتا ہے پھر عمل نہیں کرتا تو اس کے لیے سات مرتبہ ہلاکت ہے۔
Top