Tafseer-e-Mazhari - Adh-Dhaariyat : 8
اِنَّكُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍۙ
اِنَّكُمْ : بیشک تم لَفِيْ : البتہ میں قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ : بات جھگڑنے والی
کہ (اے اہل مکہ) تم ایک متناقض بات میں (پڑے ہوئے) ہو
انکم لفی قول مختلف کہ تم (سب) لوگ (قیامت کے بارے میں) مختلف گفتگو میں ہو اِنَّکُمْ : کفار مکہ کو خطاب ہے۔ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ : یعنی رسول اللہ ﷺ کے بارے میں تمہارے قول مختلف ہیں ‘ کبھی شاعر کہتے ہو ‘ کبھی جادوگر ‘ کبھی دیوانہ ‘ پاگل یا قرآن کے متعلق تمہارے اقوال میں اختلاف ہے۔ کوئی اس کو جادو کہتا ہے ‘ کوئی کہانت ‘ کوئی داستان پارینہ اور کوئی خودساختہ شعر یا قیامت کے بارے میں تمہارے کلام جدا جدا ہیں ‘ کوئی قیامت کے واقع ہونے میں شک کرتا ہے ‘ کوئی اس کو محال سمجھتا اور انکار کرتا ہے۔ بیضاوی نے لکھا ہے اس جملۂ قسمیہ میں لوگوں کے قولی اختلاف اور مقاصد کی منافات کو طرق سماوی سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ سماوی راستوں میں بھی باہم بڑی دوری ہے اور غایات کا اختلاف ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مخاطب اہل مکہ ہوں خو اہ مؤمن ہوں یا کافر یعنی اے اہل مکہ تم میں سے کچھ لوگ تصدیق کرتے ہیں اور کچھ تکذیب
Top