Dure-Mansoor - Al-Baqara : 58
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطٰیٰكُمْ١ؕ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاِذْ قُلْنَا : اور جب ہم نے کہا ادْخُلُوْا : تم داخل ہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : بستی فَكُلُوْا : پھر کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ شِئْتُمْ : جہاں سے تم چاہو رَغَدًا : با فراغت وَادْخُلُوْا : اور تم داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : بخش دے نَغْفِرْ : ہم بخش دیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطَايَاكُمْ : تمہاری خطائیں وَسَنَزِيْدُ : اور ہم عنقریب زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِیْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور جب ہم نے کہا داخل ہوجاؤ اس بستی میں سو کھاؤ اس میں سے جہاں سے چاہو خوب اچھی طرح، اور داخل ہوجاؤ دروازہ میں جھکے ہوئے، اور یوں کہو کہ ہم گناہوں کی بخشش کا سوال کرتے ہیں، ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے، اور نیکو کاروں کی اور زیادہ دیں گے۔
(1) امام عبد الرزاق، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ادخلوا ھذہ القریۃ “ میں قریہ سے مراد بیت المقدس ہے۔ (2) وکیع الفریابی، عبد بن حمید ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” ادخلوا الباب “ میں باب سے مراد ہے تنگی دروازہ۔ ” سجدا “ سے مراد ہے ” رکعا “ یعنی رکوع کی حالت میں ” وقولوا حظۃ “ سے مراد ہے ” مغفرۃ “ یعنی مغفرت طلب کرتے ہوئے (لیکن) وہ اپنے سرین کے بل (گھسٹتے ہوئے) داخل ہوئے اور مذاق کرتے ہوئے (حطۃ کی بجائے) حنطۃ کہنے لگے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لہم “۔ (3) امام ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ادخلوا ھذہ القریۃ “ سے بیت المقدس کے دروازوں میں سے وہ ایک دروازہ مراد ہے جس کو ” حطۃ “ کہا جاتا تھا۔ (4) امام وکیع، الفریابی، عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، طبرانی نے الکبیر میں اور ابو الشیخ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ان سے کہا گیا لفظ آیت ” ادخلوا ھذہ القریۃ “ یعنی اپنے سروں کو جھکاتے ہوئے داخل ہوں ” وقولوا حطۃ “ اور حطۃ کہتے رہو مگر وہ کہنے لگے ” حنطۃ حبۃ حمیرا، فیہا شعیرۃ “ یعنی گیہوں کا سرخ دانہ جس میں جو ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” فبدل الذین ظلموا “۔ (5) امام ابن جریر، طبرانی، ابو الشیخ اور حاکم نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے یہ (الفاظ) کہے ” ھطی سمقانا اربۃ مزیا “ اور یہ عربی زبان میں گیہوں کے سرخ سوراخ والے دانے کو کہتے ہیں جس میں کالے رنگ کا جو ہو۔ (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقولوا حطۃ “ سے مراد ہے کہ (اے اللہ) ہماری خطاؤں کو معاف کر دے۔ (7) امام عبد بن حمید، ابن جریر، اور ابن ابی حاتم نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ادخلوا ھذہ القریۃ “ سے مراد ہے اپنے سروں کو جھکاتے ہوئے ” وقولوا حظۃ “ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ (کہتے ہوئے) ۔ (8) امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں عکرمہ کے طریق سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وقولوا حطۃ “ سے مراد ہے لا الہ الا اللہ (کہتے ہوئے) (9) امام ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ دروازہ قبلہ کی طرف تھا۔ (10) امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ حطۃ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو حکم فرمایا کہ (دروازہ میں) داخل ہوجاؤ حطۃ کہتے ہوئے اور دروازہ ان کے لیے چھوٹا کردیا گیا تھا تاکہ سر جھکا کر گزریں (لیکن) جب انہوں نے سجدہ کیا (یعنی سروں کو جھکایا) تو (بجائے حطۃ کے) حنطۃ کہنے لگے۔ (11) امام عبد بن حمید نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ادخلوا ھذہ القریۃ “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم بیان کرتے تھے کہ وہ بیت المقدس کے دروازوں میں سے ایک دروازہ تھا لفظ آیت ” وقولوا حطۃ نغفرلکم خطیکم، وسنزید المحسنین “ فرمایا کہ جو شخص خطا کار ہوگا اس کی خطاؤں کو بخش دیا جائے گا اور جو شخص نیک ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کو (اور) زیادہ مقدر فرما دیں گے لفظ آیت ” فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لہم “ فرمایا کہ ان کے لیے ایک حکم بیان کیا گیا تھا پھر انہوں نے جان بوجھ کر حکم الٰہی کی مخالفت کی اور سرکشی کرتے ہوئے اور اللہ کے حکم کے خلاف جرأت کرتے ہوئے۔ نیکی کرنے والوں کی نیکی میں اضافہ (12) امام ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے لفظ آیت ” وسنزید المحسنین “ کے بارے میں فرمایا کہ جو تم سے پہلے نیکی کرنے والا تھا اس کی نیکیوں کو بڑھا دیا جائے گا اور جو خطا کار ہوگا اس کی خطاؤں کو ہم معاف کردیں گے۔ (13) امام عبد الرزاق، احمد، بکاری، مسلم، عبد بن حمید، ترمذی، نسائی، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابو عبیدہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا بنی اسرائیل کو یہ کہا گیا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے اور ” حطۃ “ کہتے ہوئے داخل ہوں تو انہوں نے حکم کو بدل دیا اور چوتڑوں کے بل گھسٹے ہوئے داخ (رح) ہوئے اور وہ (حطۃ کی بجائے) حبۃ فی شعرۃ کیا (یعنی جو میں گندم کا دانہ) (14) امام ابن جریر، ابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے اور ابوہریرہ ؓ (دونوں سے) روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ لوگ اس دروازہ میں چوتڑوں کے بل گھسٹے ہوئے داخل ہوئے جس میں ان کو سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونے کا حکم دیا تھا اور انہوں نے لفظ آیت ” حنطۃ فی شعیرۃ “ کہا۔ (15) امام ابو داؤد، الضیاء المقدسی نے المختارہ میں ابو سعید خدری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرمایا تھا لفظ آیت ” وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطۃ تغفرلکم خطیکم “۔ (16) امام ابن مردویہ نے ابو سعید (رح) سے روایت کیا کہ (ایک دفعہ) ہم روات کے وقت رسول اللہ ﷺ نے ساتھ سفر کر رہے تھے جب رات کا آخری حصہ تھا تو ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا جس کو ذات الحنظل کہا جاتا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس رات والی گھاٹی کی مثال اس درواذہ کی سی ہے جس کی بارے میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو یہ فرمایا تھا لفظ آیت ” وادخلوا الباب سجدا وقولوا حطۃ نغفرلکم خطیکم “ (17) امام ابن ابی شیبہ نے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ اس امت میں ہماری مثال نوح (علیہ السلام) کی کشتی کی طرح ہے اور بنی اسرائیل میں حطۃ کے مکتوب کی طرح ہے۔
Top