Mualim-ul-Irfan - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
آپ کہہ دیجئے (اے پیغمبر ﷺ تم مجھے حکم دیتے ہو کہ میں اللہ کے سوا غیر کی عبادت کروں ، اے نادانو۔
(عبادت غیر اللہ کی ترغیب) گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید میں بعض دلائل بیان فرمائے اور مشرکین کے انجام کا ذکر کیا ، اس کے ساتھ ساتھ اہل ایمان نیکوکاروں کا انجام بھی بیان فرمایا ، اب آج کے درس میں وقوع قیامت ، محاسبہ اعمال اور کافروں اور مشرکوں کی حسرت اور افسوس کا ذکر ہے اور ساتھ ساتھ توحید کی بات بھی سمجھائی گئی ہے آج کی پہلی آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کافر اور مشرک لوگ حضور ﷺ پر طعنہ زنی کرتے ہے کہ آپ نے اپنے آباؤ واجدا کے دین کو باطل اور خود ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے جو کہ سراسر غلط بات ہے ، پھر آپ کو سابقہ دین پر قائم رہتے ہوئے معبودان باطلہ کی پرستش کی ترغیب دیتے ، اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی اس حرکت کا سختی کے ساتھ جواب دیا ہے ارشاد ہوتا ہے ۔ ” قل “ اے پیغمبر ﷺ آپ ان سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیں ، (آیت) ” افغیر اللہ تامرونی اعبد ایھا الجھلون “۔ اے نادانو ! کیا تم مجھے اس بات کا حکم دیتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کروں ؟ بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے بلکہ غیر اللہ کی پوجا تو عقل اور نقل دونوں کے خلاف ہے ، کوئی بھی سلیم الفطرت آدمی اللہ وحدہ لا شریک ، عالم الغیب ، قادر مطلق اور تمام تصرفات کے مالک ومختد کو چھوڑ کر غیروں کی پرستش نہیں کرسکتا ، تمام آسمانی کتابوں میں اس کی تردید آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے سارے نبیوں نے اسی ایک وحدہ لاشریک کی عبادت کا حکم دیا ہے ۔ (اعمال کی بربادی) آگے اللہ تعالیٰ نے شرک کی تردید میں فرمایا (آیت) ” ولقد اوحی الیک “۔ اور البتہ تحقیق وحی کی گئی ہے آپ کی طرف (آیت) ” والی الذین من قبلک “۔ اور ان کی طرف بھی جو آپ سے پہلے گزرے ہیں اور وہ یہ بات ہے (آیت) ” لئن اشرکت لیحبطن عملک “۔ اگر آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو آپ کے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے ، شرک کے ارتکاب سے تمام اچھے اعمال برباد ہوجاتے ہیں یہ ایسی قبیح چیز ہے ، سورة الانعام میں فرمان خداوندی ہے (آیت) ” الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن وھم مھتدون “۔ (آیت : 83) جو لوگ ایمان لائے اور پھر انہوں نے اپنے ایمان میں شرک کی ملاوٹ نہیں کی امن ان کے لیے ہے اور وہ لوگ ہی ہدایت پر ہیں اگر اعمال میں ذرا بھی شرک کی امیزش ہوگئی تو معاملہ خراب ہوگیا ، اسی سورة الانعام میں جہاں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء کا اکٹھا ذکر کیا ہے وہاں بھی فرمایا ہے ۔ (آیت) ” ولو اشرکوا لحبط عنھم ماکانوا یعملون “۔ (آیت : 88) اگر اللہ کے یہ مقربین بھی شرک کا ارتکاب کرتے تو ان کے اعمال بھی ضائع ہوجاتے ، غرضیکہ شرک ایک ایسی بیماری ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح فرمان ہے (آیت) ” ان اللہ لا یغفر ان یشرک بہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء “۔ (النسآء : 116) بیشک اللہ تعالیٰ شرک جیسے اکبر الکبائر کو معاف نہیں کرے گا ، اس کے علاوہ جس کو چاہے اپنے عفو و درگزر سے معاف فرما دے ، فرمایا اگر بفرض محال آپ نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تو نہ صرف اعمال ضائع ہوجائیں گے (آیت) ” ولتکونن من الخسرین “۔ ، بلکہ آپ نقصان اٹھانے والوں میں بھی ہوجائیں گے ، اس سے زیادہ اور کیا نقصان ہوگا کہ انسان کے تمام نیک اعمال ہی برباد ہوجائیں اور وہ قیامت والے دن مفلس ترین آدمی ہو۔ فرمایا غیر اللہ کی عبادت کرنے کی بجائے (آیت) ” بل اللہ فاعبد “۔ صرف اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرو (آیت) ” وکن من الشکرین “۔ اور اس کے شکر گزار بن جاؤ ۔ شرک کفران ہے اس سے بچ جاؤ اللہ تعالیٰ کی عظمت جلال کو سمجھو اور اس پر یقین رکھو ، شرک کے قریب نہ جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے تمام انعامات کا شکریہ ادا کرو ۔ (عظمت خداوندی کی پہچان) یہود ونصاری اور کفار ومشرکین کے شرک کے بارے میں فرمایا (آیت) ” وما قدر اللہ حق قدرہ “۔ ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کا حق ہے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی ، برتری اور اس کے جلال کو نہیں سمجھ سکے ، اگرچہ یہ معرفت الہی کے دعویدار ہیں مگر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچانا ہی نہیں اللہ تعالیٰ کی شان اور مرتبہ بہت بلند ہے ، کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچان لیتے تو شرک کے مرتکب نہ ہوتے ۔ ایک دفعہ ایک یہودی عالم حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور قیامت والے دن کی کیفیت کے متعلق کہنے لگا اے ابوالقاسم ! (ا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت والے دن جب زمین ایک انگلی پر ہوگی آسمان ایک انگلی پر اور باقی تما چیزیں ایک انگلی پہ تو اس وقت کیا کیفیت ہوگی یہ سن کر حضور ﷺ مسکرائے اور یہی آیت تلاوت فرمائی (آیت) ” وما قدر اللہ حق قدرہ “۔ دیکھو ! ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر ہی نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے شرک کی تردید تو تورات میں بھی موجود ہے ، مگر یہ لوگ جانتے بوجھتے ہوئے اس میں مبتلا ہیں اور عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت کی کیا پہچان ہے ! فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” والارض جمیعا قبضتہ یوم القیمۃ “۔ قیامت والے دن ساری کی ساری زمین اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہوگی (آیت) ” والسموت مطویت بیمینہ “۔ اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے ، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دائیں بائیں کو مخلوق کے دائیں بائیں پر محمول کرنے سے اللہ تعالیٰ کی توہین کا پہلو نکلتا ہے ، اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں مگر اس کی کیفیت ہماری ادراک سے باہر ہے ، لہذا ہمیں یہی ایمان رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے دراصل لفظ یمین متشابہات میں سے ہے جس کا معنی تو معلوم ہے ، مگر اس کی کیفیت معلوم نہیں ، تیین قوت اور طاقت پر بھی بولا جاتا ہے ، تو فرمایا زمین اس کے قبضہ میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ پر لپیٹے ہوئے ہوں گے ، یہ ان کی شان رفیع کی علامت ہے ” سبحنہ “۔ پاک ہے اس کی ذات (آیت) ” و تعلی عما یشرکون “۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات بلندو برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک بناتے ہیں ۔ (صوراسرافیل) اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے وقوع قیامت کے سلسلہ میں صور کے دو نفخوں کا ذکر کیا ہے (آیت) ” ونفخ فی الصور “۔ اور صور میں پھونکا جائے گا (آیت) ” فصعق من فی السموت ومن فی الارض “۔ پس بیہوش ہوجائیں گے جو ہیں آسمانوں اور جو زمین میں (آیت) ” الا من شآء اللہ “۔ سوائے اس کے کہ جس کو اللہ تعالیٰ چاہے اس پر بیہوشی طاری نہیں ہوگی بعض روایات میں آتا ہے کہ حاملین عرش اور مقرب فرشتے جبرائیل (علیہ السلام) ، میکائیل (علیہ السلام) ، وغیرہ محفوظ رہیں گے ، باقی سب پر بیہوشی طاری ہوجائے گی ، گویا جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز پر بیہوشی طاری ہوجائے گی اور نظام کائنات درہم برہم ہو کر رہ جائے گا (آیت) ” ثم نفخ فیہ اخری “۔ پھر صور میں دوسری مرتبہ پھونکا جائے گا (آیت) ” فاذا قیام ینظرون “ کہ اچانک سب لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور سب کچھ دیکھ رہے ہوں گے ۔ عام مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس آیت کریمہ کے مصداق صرف دو دفعہ صور پھونکا جائے گا پہلے صور کے بعد ہر چیز فنا ہوجائے گی اور دوسرے صور پر سب لوگ پھر سے زندہ ہوجائیں گے ، سارے کے سارے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں حاضر ہوں گے ، حساب کتاب کی منزل آئے گی اور پھر جزا وسزا کے فیصلے ہوں گے تاہم بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ کل چار صور ہوں گے پہلا صور تمام عالم کے فنا کا پیش خیمہ ہوگا ، دوسرے صور پر مخلوق پھر سے زندہ ہوجائے گی پھر تیسری مرتبہ حشر کے میدان میں صور پھونکا جائے گا تو سب پر بیہوشی طاری ہوجائے گی اور چوتھے صور پر سب لوگ ہوش میں آجائیں گے اور پھر ساری کاروائی ہوگی ۔ (عدالت خداوندی کے فیصلے) بہرحال قیامت والے دن کیفیت یہ ہوگی (آیت) ” واشرقت الارض بنور ربھا “۔ اس دن زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی ، یہ ایسی کیفیت ہوگی جو انسان آج اپنے زمین میں نہیں لاسکتے کہ وہ کیسا نظارہ ہوگا ، بس خدا کی تجلیات پڑ رہی ہوں گی اور ساری زمین روشن ہوجائے گی پھر حساب کتاب کی منزل شروع ہو جائیگی (آیت) ” ووضع الکتب “ اور کتاب یعنی باب اعمالنامہ سامنے رکھ دیا جائے گا ہر شخص اس کو پڑھے گا سورة الکہف میں آتا ہے (آیت) ” ووضع الکتب فتری المجرمین مشفقین مما فیہ “۔ (آیت 49) مجرم لوگ یہ اعمالنامہ پڑھ کر ڈر جائیں گے اور کہیں گے ہائے افسوس ہمارے ، یہ کیسی ہے کہ جس نے ہر چھوٹی بڑی چیز کا احاطہ کر رکھا ہے ، اور بہرحال اس اعمالنامے کے علاوہ (آیت) ” وجایء بالنبین والشھدآء “۔ نبیوں اور شہیدوں کو بھی بطور گواہ لایا جائے گا پھر وہ اپنے ماننے اور نہ ماننے والوں کے متعلق گواہی دیں گے تمام معاملات پیش ہوں گے سوال و جواب ہوں گے (آیت) ” وقضی بینھم بالحق “۔ اور اس کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا (آیت) ” وھم لا یظلمون “ اور ان میں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہوگی کسی کا حق نہیں مارا جائے گا نہ کسی ایک کا گناہ دوسرے پر ڈالا جائے گا اور نہ کسی کے اعمال میں کمی کی جائے گی ، بلکہ سب کے ساتھ حق و انصاف کا فیصلہ ہوگا (آیت) ” ووفیت کل نفس ما عملت “۔ پھر ہر نفس کو پورا پورا بدلہ دیا جائے گا جو کچھ اس نے کیا نیکی یا برائی کا جو بھی کام کیا ہے اس کی جزا یا سزا ملے گی اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی ۔ فرمایا (آیت) ” وھو اعلم بما یفعلون “۔ اور اللہ تعالیٰ ان تمام باتوں کو خوب جانتا ہے ، جو کچھ انسان اس دنیا میں کرتے رہے ، اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے وہ قیامت والے دن تمام مخفی چیزوں کو بھی ظاہر کر دے گا پھر گواہ لائے جائیں گے بلکہ خود انسان کے اعضاء وجوراح گواہی دیں گے ، زمین اور شجر وحجر گواہی دیں گے ، اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشہادت ہے اور اسے ان گواہوں کی بھی ضرورت نہیں ہے ، مگر وہ ضابہ کی کاروائی کے لیے متعلقہ گواہ بھی پیش کرے گا ، تاکہ اتمام حجت ہوجائے اور کسی کے لیے اعتراض کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔
Top