Baseerat-e-Quran - Az-Zumar : 64
قُلْ اَفَغَیْرَ اللّٰهِ تَاْمُرُوْٓنِّیْۤ اَعْبُدُ اَیُّهَا الْجٰهِلُوْنَ
قُلْ : فرمادیں اَفَغَيْرَ اللّٰهِ : تو کیا اللہ کے سوا تَاْمُرُوْٓنِّىْٓ : تم مجھے کہتے ہو اَعْبُدُ : میں پرستش کروں اَيُّهَا : اے الْجٰهِلُوْنَ : جاہلو (جمع)
(اے نبی ﷺ آپ ان سے کہئے کہ اے جاہلو ! مجھے تم اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت و بندگی کے لئے کہتے ہو ؟
لغات القرآن آیت نمبر 64 تا 70 :۔ تامرونی ( تم مجھے حکم دیتے ہو ، سکھاتے ہو) ما قدروا ( انہوں نے قدر نہ کی) مطویت (لپیٹ دی گئی) نفخ ( پھونک ماری گئی) صعق ( وہ گر پڑا) اشرقت ( روشن ہوگئی ، جگمگا اٹھی) وقیت ( پورا دیا گیا) تشریح : آیت نمبر 64 تا 70 :۔ کفار قریش نبی کریم ﷺ سے کہتے تھے کہ وہ اپنے باپ دادا کے مذہب پر واپس آجائیں ، کبھی کہتے تھے کہ آپ کوئی ایسا طریقہ اختیار کیجئے کہ جس سے ہمارے یہ اختلافات دور جائیں ایک سال آپ ہمارے معبودوں کی عبادت کیجئے اور ایک سال ہم آپ کے مبعود کی عبادت و بندگی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جاہل ، ناواقف اور بےعلم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ہمارے حبیب ﷺ ! آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اے جاہلو ! تم مجھے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت و بندگی کے لئے کہتے ہو ؟ جو ایک نہایت جاہلانہ اور احمقانہ بات ہے کیونکہ اللہ کے سوا کوئی بھی عبادت کے قابل نہیں ہے وہی ایک پروردگار سب کا خالق ومالک ہے اسی نے میری طرف وحی کر کے یہ حکم دیا ہے کہ میں اللہ کے سوا کسی کی عبادت و بندگی نہ کروں۔ فرمایا کہ اے نبی ﷺ آپ سے پہلے جن پیغمبروں پر وحی ناز ل کی گئی تھی ان سے بالکل واضح اور دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا گیا تھا کہ اگر (فرض کرلیا جائے کہ) تم نے اللہ کو چھوڑ کر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا تو تمہارے سارے اعمال ضائع کردیئے جائیں گے اور تمہیں شدید نقصان پہنچے گا ۔ فرمایا گیا کہ آپ صرف اسی ایک اللہ کی عبادت و بندگی کیجئے اور اس کے شکر گزار بندوں میں سے ہوجائیے۔ دراصل اللہ کے پیغمبر ہر طرح کے گناہوں اور کفر و شرک کے ہر طریقے سے معصوم اور محفوظ ہوتے ہیں ، نہ وہ کسی طرح کا گناہ کرتے ہیں اور نہ کسی گناہ کی نسبت ان کی طرف کی جاسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان آیات میں انبیاء کرام (علیہ السلام) کے واسطے سے پوری امت سے خطاب کر کے بتایا گیا ہے کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت و بندگی کریں اور اللہ کی وہ عظمت کریں جس کے وہ لائق ہے۔ لوگوں کا یہ حال ہے کہ انہوں نے اللہ کی وہ قدر نہ کی جیسا کہ اس کی عظمت کا حق تھا یعنی انہوں نے دوسروں کو اس کے ساتھ شریک کیا ۔ غیر اللہ میں ایسی صفات کو مانا جو صرف اللہ ہی کی صفات ہو سکتی ہیں ۔ نہ اس کی عبادت اس طرح کی جیسا کہ اس کا حق تھا نہ اس کی نعمتوں کا شکر ادا کیا جیسا کرنا لازم تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن یہ ساری زمین اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں ایک کاغذ کی طرح لپٹے ہوئے ہوں گے ، یعنی ساری طاقت و قوت ایک اللہ کے ہاتھ میں ہوگی اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوگ جن غیر اللہ کو اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں وہ غیر اللہ بےحقیقت چیز تھے۔ فرمایا کہ قیامت کا وہ ہولناک دن جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو سوائے ان لوگوں کے جنہیں وہ زندہ رکھنا چاہے گا کائنات کی ساری مخلوق مر کر ڈھیر ہوجائے گی لیکن جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سارے مردے زندہ ہو کر حیران و پریشان اٹھ کر چاروں طرف دیکھنے لگیں گے۔ اس دن زمین اپنے پروردگار کے نور تجلی سے جگمگا اٹھے گی ۔ سب کے نامہ اعمال ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے۔ تمام پیغمبروں کو گواہ کے طور پر بلایا جائے گا اور لوگوں کے درمیان اس طرح فیصلہ کردیا جائے گا کہ کسی کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہوگی ۔ ہر ایک کو اس کے کئے کا پھل پوری طرح دیا جائے گا ۔ اس سلسلہ میں چند احادیث سے ان آیات کی تشریح ملاحظہ کرلیجئے۔ ٭حضرت عبد اللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے۔ ایک دن ایک یہودی عالم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا ۔ اے محمد ﷺ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر روک لے گا ، ایک انگلی پر زمینوں کو ، ایک انگلی پر پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر پانی اور زمین کی تہہ کو اور باقی مخلوق کو ایک انگلی پر روک لے گا اور پھر وہ ( ان پانچوں انگلیوں کو) حرکت دے کر گھمائے گا ( جس طرح گیند یا لٹو کو گھمایا جاتا ہے) اور فرمائے گا میں بادشاہ ہوں اور میں ہی تمہارا معبود اللہ ہوں۔ ( مسند احمد ، نسائی ، ابن ماجہ) بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ زمین کو مٹھی میں لے لے گا اور آسمانوں کو لپیٹ کر کے اپنے داہنے ہاتھ میں ( کاغذ کی طرح) لے لے گا اور فرمائے گا کہ آج میں بادشاہ ہوں زمین کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔ جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کو اپنی مٹھی میں لے کر فرمائے گا ۔ میں ہوں اللہ رحمن و رحیم ، میں ( ایسا) بادشاہ ہوں کہ ( تمام عیبوں سے) پاک ہوں ۔ میں امن دینے والا ہوں ، میں نگرانی کرنے والا ہوں ، میں غالب ہوں ، میں بڑی طاقتوں والا ہوں ، میں بڑائی والا ہوں ، میں نے ہی دنیا کو ابتداء میں پیدا کیا تھا جب کہ وہ کچھ نہ تھی اور میں ہی اس کو دوبارہ پیدا کر رہا ہوں ۔ آج دنیا بھر کے بادشاہ کہاں ہیں ؟ اور بڑی طاقتوں والے کہاں ہیں ؟ ( بخاری و مسلم) ٭قیامت میں پہلے صور کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا بعض روایات کے مطابق ان کے درمیان چالیس دن کا فصل ہوگا ۔ ٭جب اللہ تعالیٰ دنیا کو دوبارہ پیدا فرما دیں گے تو اللہ جلوہ گر ہوں گے۔ جس طرح کھلے آسمان پر چمکتے سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اسی طرح وہ نور رب کو کھلی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ ٭ہر شخص کو اس کے کئے ہوئے اعمال پر پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔ اللہ کو ہر انسان کے ایک ایک عمل کی خبر ہے وہ لوگوں کے بتانے سے نہیں بلکہ اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرمائیں گے کیونکہ اللہ سے کوئی بات اور انسانوں کا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے۔
Top