Dure-Mansoor - An-Nahl : 99
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِۙ
حَتّيٰٓ : یہانتک کہ اِذَا جَآءَ : جب آئے اَحَدَهُمُ : ان میں کسی کو الْمَوْتُ : موت قَالَ : کہتا ہے رَبِّ : اے میرے رب ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس بھیج دے
یہاں تک کہ جب اس کے پاس موت آپہنچے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس کیجئے تاکہ میں جس کو چھوڑ کر آیا ہوں اس میں نیک عمل کروں
1۔ ابن ابی الدنیا فی ذکر الموت وابن ابی حاتم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ کافر جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اس کو آگ میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے آیت ” رب ارجعون “ اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دیجئے) یہاں تک کہ میں توبہ کرلوں اور نیک عمل کرلوں تو اس سے کہا جاتا ہے جتنی تیری عمر تھی تو نے گزاری۔ اس کے بعد) اس کی عمر تنگ کردی جاتی ہے اور وہ مصیبت زدہ کی طرح نیند کرتا ہے اور گھبراتا ہے زمین کے کیڑے مکوڑے جیسے سانپ اور بچھو اس کی طرف گرتے ہیں۔ نافرمانوں کی قبر میں سانپ 2۔ ابن ابی حاتم نے عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ ہلاکت ہے قبروالوں میں سے نافرمانوں کے لیے ان کی قبروں میں ان کے کالے سانپ داخل ہوں گے ایک سانپ اس کے سر کے پاس ہوتا ہے اور ایک سانپ اس کے پاؤں کے پاس ہوتا ہے وہاں سے ڈستے رہتے ہیں یہاں تک کہ دونوں سانپ اس کے درمیان میں جاکر مل جاتے ہیں یہی وہ برزخ کا عذاب ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت ” ومن وراء ہم برزخ الی یوم یبعثون “۔ 3۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ آیت قال رب ارجعون “ سے مراد ہے کہ موت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے اس کو دیکھ لیتا ہے۔ 4۔ ابن جریر وابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے گمان کیا کہ نبی ﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمایا کہ جب مومن فرشتوں کو دیکھتا ہے تو فرشتے اسے کہتے ہیں ہم تجھ کو دنیا کی طرف واپس لے جاتے ہیں تو وہ کہتا ہے غموں اور پریشانیوں کے گھر کی طرف نہیں بلکہ مجھے اللہ کی طرف لے چلو لیکن کافر سے وہ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تجھ کو دنیا کی طرف واپس لے چلتے ہیں تو وہ کہتا ہے آیت ” رب ارجعون لعلی اعمل صالھا فیما ترکت “۔ 5۔ الدیلمی نے جابر بن عبداللہ رضی الہ عنہ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب انسان کی موت حاضر ہوتی ہے تو اس کے لیے ہر چیز کو جمع کیا جاتا ہے جو اس کو حق سے روکا کرتی تھی اور اس کی آنکھوں کے سامنے رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس وقت وہ کہتا ہے۔ آیت ” رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت “۔ 6۔ عبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے عکرمہ (رح) سے آیت ” رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ یہ اس لیے کہے گا کہ شاید میں لا الہ الا اللہ کہوں۔ 7۔ البیہقی فی السماء والصفات من طریق عکرمہ ابن عباس ؓ سے آیت ” رب ارجعون لعلی اعمل صالحا فیما ترکت “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس کا معنی ہے کہ شاید میں لا الہ الا للہ کہوں۔ 8۔ ابن ابی حاتم نے سفیان بن حسین (رح) سے روایت کیا کہ آیت “ ومن وراء ہم برزخ “ سے مراد ہے کہ ان کے سامنے (برزخ ہے) 9۔ ابن ابی شیبہ وہناد وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابو نعیم فی الحلیہ نے مجاہد (رح) سے آیت ” ومن وراء ہم برزخ الی یوم یبعثون “ کے بارے میں فرمایا کہ وہ (برزخ موت سے لے کر دوبارہ اٹھائے جانے کے درمیان ہے 10۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ” البرزخ “ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک رکاوٹ ہے۔ 11۔ عبد بن حمید وابن جریر نے مجاہد (رح) سے آیت ” ومن وراۂم برزخ الی یوم یبعثون “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ایک رکاوٹ ہے میت اور دنیا کی طرف لوٹائے جانے کے درمیان۔ 12۔ ابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ البرزخ دنیا اور آخرت کے درمیان ہے نہ وہ دنیا والوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ کھاتے اور پیتے اور نہ آخرت والوں کے ساتھ ہوتا ہے کہ اسے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ 13۔ عبد بن حمید نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ البرزخ دنیا اور آخرت کے درمیان کا عرصہ ہے۔ 14۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ البرزخ سے مراد ہے باقی دنیا۔ 15۔ عبد بن حمید نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” ومن وراۂم برزخ “ سے مراد ہے کہ قبر والے برزخ میں ہیں جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے وہ اس میں اٹھائے جانے کے دن تک ہوں گے۔ 16۔ عبد بن حمید نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ البرزخ سے مراد ہے قبریں۔ 17۔ ابن ابی حاتم نے ابو صخر (رح) سے روایت کیا کہ البرزخ سے مراد قبر والے ہیں نہ وہ دنیا میں ہیں اور نہ آخرت میں اور وہ اٹھائے جانے کے دن تک (قبروں میں) مقیم رہیں گے۔ 18۔ سعید بن منصور وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم وسمویہ فی فوائدہ ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ ایک جنازے میں حاضر تھے جب میت کو دفن کردیا گیا تو فرمایا یہ برزخ ہے اٹھائے جانے کے دن تک۔ 19۔ ہناد نے ابو محلم (رح) سے روایت کیا کہ شعبی سے کہا گیا کہ فلاں آدمی مرگیا تو انہوں نے فرمایا نہ وہ دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں (بلکہ وہ برزخ میں ہے) ۔ 20۔ ابن جریر نے سعید بن جبیر (رح) سے آیت ” ومن وراۂم برزخ “ کے بارے میں روایت کیا کہ اس سے موت کے بعد کا زمانہ مراد ہے۔
Top