Dure-Mansoor - Ash-Shu'araa : 2
تِلْكَ اٰیٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ
تِلْكَ : یہ اٰيٰتُ : آیتیں الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ : روشن کتاب
یہ کتاب مبین کی آیت ہیں
1۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ’ ’ لعلک باخع نفسک “ سے مراد ہے شاید کہ تو قتل کرنے والا ہے اپنے آپ کو آیت ” الا یکونو مومنین “ (یعنی وہ ایمان کیوں نہیں لائے) آیت ” ان نشاء ننزل علیہم من السماء اٰیۃ فظلت ا 4 عناقہم لہا خضعین “ یعنی اگر اللہ چاہے تو ان پر ایسی نشانی نازل فرماتا ہے کہ جس کے سامنے وہ اطاعت والے بن جاتے اور ان میں سے کوئی بھی اپنی گردن کو نہ موڑتا اللہ کی نافرمانی کی طرف آیت ”’ وما یاتیہم من ذکر من الرحمن محدث یعنی ان کے پاس کوئی چیز اللہ کی کتاب میں سے نہیں آئی مگر وہ اس سے اعراض کرتے ہیں آیت ” فسیاتیہم “ یعنی قیامت کے دن آیت ” انبواء “ ان کے پاس ایسی خبریں آئیں گی کہ جس کے ساتھ وہ مذاق کرتے تھے اللہ کی کتاب میں سے آیت ” کم انبتنا فیہا من کل زوج کریم “ میں کرم سے مراد ہے حسن۔ 2۔ الطستی نے حضرت ابن عباسر ضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ ان سے نافع بن ازرق نے قول آیت ” فظلت اعناقہم لہا خضعین کے بارے میں پوچھا کہ اس سے کیا مراد ہے انہوں نے فرمایا کہ العنق سے مراد ہے ایک جماعت لوگوں میں سے پھر پوچھا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے حرث بن ہشام کو یہ کہتے ہوئے نہیں وہ ابوجہل کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے یخبرنا المخبران عمرا امام القوم من عنق مختل ترجمہ : ہم کو ایک خبردینے والے نے خبر دی کہ عمرو یعنی ابوجہل قوم کے سامنے بزدل دجماعت سے ہوتا ہے۔ 3۔ ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” فظلت اعناقہم لہا خضعین “ میں خضعین سے مراد ہے ذلیل 4۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے روایت کیا کہ ” الخاضع “ سے مراد ہے ذلیل 5۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” کم انبتنا فیہا من کل زوج کریم “ یعنی کس قدر اگائیں ہم نے زمین کی نباتات میں سے ان چیزوں سے جس سے لوگ اور جانور کھاتے ہیں۔ 6۔ الفریابی وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” کم انبتنا فیہا من کل زوج کریم سے مراد ہے کہ لوگ بھی زمین کی نباتات میں سے ہیں جو شخص جنت میں داخل ہوگا وہ عزت والا ہے اور جو شخص آگ میں داخل ہوگا وہ کمینہ ہے۔ 7۔ ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے روایت کیا کہ سورة شعراء میں جو آیت ” العزیز الرحیم سے اس سے مراد وہ سابقہ امتیں ہیں جو ہلاک ہوگئیں پہلی امتوں میں سے اللہ تعالیٰ نے فقط لفظ عزیز کا زکر فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمن سے انتقام لیا آیت ” رحیم “ یعنی رحم کرنے والے ایمان والوں کے ساتھ جب ان کو نجات دی اس عذاب سے کہ جس کے ذریعہ اپنے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ .
Top