Dure-Mansoor - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
بیشک اللہ نے منتخب فرما لیا آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو سارے جہانوں پر۔
(1) ابن جریر، ابن المنذر ابن ابی حاتم نے علی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” وال ابراہیم وال عمران “ سے مراد آل عمران آل یاسین اور آل محمد ﷺ میں سے ایمان والے۔ (2) عبد بن حمید وابن جریر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو نیک گھر والوں اور دو نیک آدمیوں کا ذکر فرمایا اور ان کو جہان والوں پر فضیلت دی اور محمد ﷺ آل ابراہیم میں سے تھے۔ (3) ابن جریر وابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو سارے لوگوں پر اور سارے جہاں والوں پر نبوت کے ساتھ فضیلت دی وہ انبیاء اتقیاء اور اپنے رب کی اطاعت کرنے والے تھے۔ (4) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ذریۃ بعضھا من بعض “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ نیت میں عمل میں اخلاص میں اور توحید میں ان کا بعض بعض میں سے تھا۔ اولاد کا باپ کے نقش قدم پر ہونا (5) ابن سعد ابی حاتم نے جعفر بن محمد (رح) سے وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ؓ نے حضرت حسن ؓ سے فرمایا کھڑا ہوجا اور لوگوں کو خطبہ دے حضرت حسن ؓ نے عرض کیا میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ خطبہ دوں اور آپ میرے سامنے ہوں حضرت علی ؓ ایسی جگہ بیٹھ گئے جہاں وہ ان کا کلام سن رہے تھے لیکن اس کو دیکھ نہیں رہے تھے حضرت حسن ؓ کھڑے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی اور اس کی تعریف کی اور کلام فرمایا (لوگوں سے) پھر (منبر سے) نیچے اتر آئے تو حضرت علی ؓ نے فرمایا لفظ آیت ” ذریۃ بعضھا من بعض واللہ سمیع علیم “۔ (6) اسحاق بن بشیر اور ابن عساکر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ان اللہ اصطفی ادم “ یعنی ان کو لوگوں میں سے اپنی رسالت کے لیے چن لیا ” ادم ونوحا وال ابراہیم “ یعنی ابراہیم اسماعیل اسحاق یعقوب اور ان کی اولاد کو ” وال عمرن علی العلمین “ یعنی ان کو چن لیا نبوت اور رسالت کے لیے اس زمانہ کے جہان والوں پر وہ اس طرح ان میں سے بعض کو بعض کی ذریت ہے اور سب آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں پھر نوح (علیہ السلام) کی اولاد پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے (پھر فرمایا) ” اذ قالت امرات عمرن “ عمران ماثان کے بیٹے تھے اس عورت کا نام حنہ بنت فاقوذ تھا اور یہ مریم (علیہا السلام) کی والدہ ہیں (انہوں نے دعا فرمائی) لفظ آیت ” رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررا “ اور یہ اس وجہ سے (انہوں نے نذر مانی) کہ مریم (علیہا السلام) کی والدہ حنہ ناامید ہوئی تھیں اولاد سے اور حیض سے اس درمیان کہ وہ ایک درخت کے سایہ میں بیٹھی تھیں اچانک انہوں نے دیکھا ایک پرندہ کی طرف جو اپنے بچے کو خوراک دے رہی تھی اس کے دل میں اولاد کی خواہش پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک لڑکا عطا فرمائے اسی وقت حائضہ ہوگئیں جب پاک ہوئیں تو ان کے شوہر نے ان سے حق زوجیت ادا کیے اور جب بچہ کا یقین ہوگیا تو کہنے لگیں اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو نجات دی اور میں نے اپنے پیٹ سے بچے کو جنم دیا تو میں اس کو آزاد کردوں گی بنو ماثان بنی اسرائیل کے حاکم اور داؤد (علیہ السلام) کی نسل میں سے تھے اور آزاد کیا ہوا دنیا کا کام نہیں کرتا تھا شادی نہیں کرتا تھا اور آخرت کے عمل کے لیے فارغ ہوتا تھا (صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اور وہ گرجا گھر کی خدمت کرتا تھا اور اس زمانہ میں صرف لڑکے ہی آزاد ہوتے تھے مریم کی والدہ نے اپنے شوہر سے کہا کہ انبیاء کی نسل میں سے آزاد ہوتے ہیں اور ہمارا خاندان تو بادشاہوں کا خاندان ہے انبیاء کا خاندان تو نہیں ہے جبکہ میں نے تو اپنے پیٹ میں جو کچھ ہے اس کی نذر مان لی ہے کہ اس کو اللہ کے لیے آزاد کر دوں گی اس کے شوہر نے کہا مجھے بتا اگر تیرے سے لڑکی ہوئی اور لڑکی تو چھپانی کی چیز ہوتی ہے تو پھر تو کیسے کرے گی تو وہ اس بات سے غمگین ہوگئی اور اسی وقت کہا لفظ آیت ” رب انی نذرت لک ما فی بطنی محررا فتقبل منی انک انت السمیع العلیم “ یعنی مجھ سے قبول فرما لیجئے جو کچھ میں آپ کے لیے نذر مانی ہے۔ ” فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثی واللہ اعلم بما وضعت ولیس الذکر کالانثی “ اور لڑکی تو چھپانے والی چیز ہوتی ہے پھر عرض کیا ” وانی سمیتھا مریم “ اور اسی طرح اس کا نام اللہ کے نزدیک تھا ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “ یعنی رجیم کا معنی ملعون ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول فرمائی اور شیطان ان کے اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی اولاد کے قریب نہیں گیا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہر آدم کے بیٹے کو شیطان پہنچتا ہے اور اس کے پیٹ میں کونچا مارتا ہے اپنی انگلی سے اس وجہ سے بچہ روتا ہے مگر مریم کو اور کے بیٹے کو شیطان نہیں پہنچا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا جب اس (مریم) کو جنا تو مریم (علیہا السلام) کی والدہ کو خوف ہوا کہ (شاید) لڑکی کو خدمت کے لیے قبول نہیں کیا جائے گا اس نے اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا اور بیت المقدس میں قراء کے پاس رکھ دیا قراء نے اس پر قرعہ ڈالا کون اس کی پرورش کرے کیونکہ یہ ان کے امام کی بیٹی تھی اور قراء کے امام ہارون (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے حضرت زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا اور وہ علماء کے امیر تھے میں اس کو لوں گا اور میں اس کا زیادہ حقدار ہوں کیونکہ اس کی خالہ میری بیوی ہے جو یحییٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھی قراء نے کہا اگرچہ قوم میں کوئی ایسا بھی ہو جو اس کا زیادہ محتاج ہو اسے زیادہ حقدار کے لیے چھوڑا جاتا تو اس کو اس کے باپ کے لیے چھوڑا جاتا لیکن یہ تو آزاد کی ہوئی ہے سوائے اس کے کہ ہم اس پر قرعہ ڈالتے ہیں سو جس کا نام نکل آئے گا وہ اس کا زیادہ حقدار ہوگا تو ان لوگوں نے تین مرتبہ قرعہ ڈالا اپنی قلموں کے ساتھ کہ جن سے وہ وحی کو لکھا کرتے تھے ” ایھم یکفل مریم “ یعنی کون اس کو لے گا تو ان کا قرعہ زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں نکلا۔ اور ان کی قلموں کا قرعہ یہ تھا کہ انہوں نے ان کو ایک جگہ جمع کیا پھر ان کو ڈھانپ دیا پھر انہوں نے بیت المقدس کے بعض لڑکوں میں سے ایک لڑکے سے کہا جو ابھی بالغ نہیں ہوا تھا کہ اپنے ہاتھ کو داخل کرو اور ان میں سے قلم نکالو سو اس بچہ نے اپنے ہاتھ کو داخل کیا تو زکریا (علیہ السلام) کا قلم نکلا انہوں نے کہا ہم اس سے راضی نہیں ہوتے لیکن قلموں کو (بہتے ہوئے) پانی میں ڈالو سو جس کا قلم جاری پانی سے نکلے گا اور پھر اونچا ہوجائے گا تو وہ اس کی پرورش کرے گا انہوں نے اپنی قلموں کو نہر اردن میں ڈالا تو حضرت زکریا (علیہ السلام) کا قلم پانی کے بہاؤ میں اونچا ہوگیا تو (دوسرے) لوگوں نے کہا ہم تین مرتبہ قرعہ ڈالیں گے جس کا قلم پانی کے ساتھ چلے گا وہی اس کی کفالت کرے گا (پھر) انہوں نے اپنی قلموں کو ڈالا تو زکریا (علیہ السلام) کا قلم پانی کے ساتھ چلنے لگا اور دوسرے لوگوں کی قلمیں پانی کے بہاؤ میں اٹھ آئیں اس وقت زکریا (علیہ السلام) نے ان کو اپنی کفالت میں لے لیا اسی کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا لفظ آیت ” وکفلھا زکریا “ یعنی حضرت مریم (علیہا السلام) کو اپنے قبضہ میں لے لیا پھر فرمایا لفظ آیت ” فتقبلھا ربھا بقبول حسن وانبتھا نباتا حسنا “ یعنی انہوں نے اس کی اچھی تربیت فرمائی اپنے رب کی عبادت اور اطاعت کرو میں یہاں تک کہ وہ بڑی ہوگئیں (پھر) زکریا (علیہ السلام) نے بیت المقدس میں ان کے لیے ایک کمرہ بنایا اور اس کا دروازہ ایک دیوار کے درمیان میں رکھ دیا کہ اس پر سیڑھی کے بغیر نہیں چڑھا جاسکتا تھا اور اس کے لیے ایک دائی اجرت پر لی جب دو سال پورے ہوگئے تو اس نے دودھ چھوڑ دیا حضرت زکریا (علیہ السلام) مریم (علیہا السلام) کے کمرے کا دروازہ بند کر رکھتے اور چابی ان کے پاس ہوتی تھی آپ کس کو بھی ان کے پاس آنے کی اجازت نہ دیتے اور ان کے علاوہ کوئی ان کے پاس نہ آتا تھا یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئی۔ (7) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن عساکر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) کی والدہ کا نام حنہ تھا۔ (8) حاکم نے ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ حنہ نے مریم (علیہا السلام) کو جنا جو عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ تھیں۔ (9) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے لفظ آیت ” نذرت لک ما فی بطنی محررا “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے یہ نذر مانی تھی کہ میں اس کو گرجا گھر میں بٹھاؤں گی تاکہ یہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے اور ان کو یہ امید ہوگئی کہ (پیدا ہونے والا بچہ) لڑکا ہوگا۔ (10) ابن المنذر نے حضرت بن عباس ؓ سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ انہوں نے اس بات کی نذر مانی تھی کہ اس کو عبادت کے لیے آزاد کر دے گی۔ (11) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محررا “ سے مراد ہے کہ وہ بیعہ (یعنی یہودیوں کا عبادت خانہ) کا خادم ہوگا۔ (12) ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے وجہ آخر سے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محررا “ سے مراد ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کے لیے خالص ہوگا دنیا کا کوئی کام اس سے خلط ملط نہ ہوگا۔ (13) عبد بن حمید اور ابن جریر نے قتادہ (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے کہ عمران کی بیوی نے جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا اس کو اللہ کے لیے آزاد کردیا تھا اور وہ صرف لڑکوں کو آزاد کیا کرتے تھے اور آزاد کرنے والا جب آزاد کرتا تھا تو اس کو گرجا گھر میں بٹھا دیتا تھا پھر وہ وہاں سے نہیں ہٹتا تھا اسی میں مقیم رہتا تھا اس کی خدمت کرتا اور اس کا جھاڑو دیتا تھا اور عورت ایسا کام نہیں کرسکتی (کہ دن رات گرجا گھر میں مقیم رہے کیونکہ) اس کو اذی (یعنی حیض ونفاس) لگ جاتا ہے اسی لیے فرمایا لفظ آیت ” ولیس الذکر کالانثی “ یعنی مرد عورت کی طرح نہیں ہوسکتا۔ (14) عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا ہے کہ ” محررا “ سے مراد ہے کہ میں نے اس کو اللہ کے لیے اور گرجا گھر کے لیے آزاد کردیا ہے تاکہ اس کے اور عبادت کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو۔ (15) ابن المنذر نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ نبی اسرائیل کے زمانہ میں عورت جب کسی لڑکے کو جنتی تھی اس کو دودھ پلاتی تھی یہاں تک کہ جب وہ خدمت کرنے کے لائق ہوجاتا تو ان لوگوں کے سپرد کردیتی تھی جو کتابیں پڑھاتے تھے اور یہ کہتی تھی یہ تمہاری خدمت کے لیے آزاد ہے۔ عمران کی بیوی کی نذر (16) ابن جریر اور ابن منذر نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ عمران کی عورت بڑھیا اور بانجھ تھی جس کا نام حنہ تھا اور وہ بچہ نہیں جنتی تھی اور وہ دوسری عورتوں پر اولاد کی وجہ سے رشک کرتی تھی تو انہوں نے دعا مانگی اے اللہ ! مجھ پر بطور شکر نذر ہے اگر آپ مجھ کو اولاد عطا فرمائیں کہ میں اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کروں گی اور وہ بیت المقدس کی مدد کرنے والا اس کی خدمت کرنے ہوگا (پھر فرمایا) لفظ آیت ” فلما وضعتھا قالت رب انی وضعتھا انثی “ اور مذکر مؤنث کی طرح نہیں ہوتا عورت کو حیض آتا ہے، اور عورت کو یہ بھی لائق نہیں کہ وہ مردوں کے برابر ہوجائے پھر مریم کی والدہ اس کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر بنو کاہن ابن ہارون موسیٰ کے بھائی کے پاس لے آئیں یہ ان دنوں بیت المقدس کی خدمت کے ذمہ دار تھے ایک بلند جگہ پر آگئے تھے مریم (علیہا السلام) کی والدہ نے کہا یہ نذر وصول کرو میں نے اس کو آزاد کردیا ہے اور یہ میری بیٹی ہے اور گرجا گھر میں حائضہ داخل نہیں ہوسکتی اور میں اس کو اپنے گھر کی طرف واپس نہیں لے جاؤں گی ان لوگوں نے کہا یہ ہمارے امام کی بیٹی ہے اور عمران ان کو نماز پڑھایا کرتے تھے زکریا (علیہ السلام) نے فرمایا اس کو مجھے دے دو کیونکہ اس کی خالہ میرے نکاح میں ہے دوسرے لوگوں نے کہا ہمارے دل اس پر راضی نہیں اس وجہ سے انہوں نے اپنی قلموں کے ساتھ قرعہ ڈالا جس سے وہ تورات شریف لکھا کرتے تھے حضرت زکریا (علیہ السلام) کے نام قرعہ نکل آیا اور انہوں نے اس کی کفالت فرمائی (17) سعید بن منصور نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” واللہ اعلم بما وضعت “۔ (18) ابن ابی حاتم نے ضحاک (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ ” بما وضعت “ پڑھتے تھے۔ (19) عبد بن حمید نے عاصم بن ابی النجود سے روایت کیا ہے کہ وہ اس کو رفع کے ساتھ پڑھتے تھے۔ (20) عبد اللہ بن احمد نے زوائد الزھد میں سفیان بن حسین (رح) سے لفظ آیت ” واللہ اعلم بما وضعت “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ رب تبارک وتعالیٰ کی طرف شکایت کے طور پر ہے۔ (21) عبد بن حمید نے اسود (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اس طرح پڑھتے تھے ” واللہ اعلم بما وضعت “ عین کے نصب کے ساتھ۔ (22) عبد بن حمید نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا ہے کہ وہ اس کو اس طرح پڑھتے تھے لفظ آیت ” واللہ اعلم بما وضعت “ عین کے نصب کے ساتھ۔ اما قولہ تعالیٰ : وانی اعیذھا بک : نوزائیدہ بچہ کو شیطان چھوتا ہے (23) عبد الرزاق، احمد، بخاری، مسلم، ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو چھوتا ہے تو وہ بچہ شیطان کے چھونے سے روتا ہے مگر مریم (علیہا السلام) اور اس کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کو (شیطان نہیں چھو سکا) پھر ابوہریرہ ؓ سے روا یت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدم کی اولاد میں سے جو بھی بچہ پیدا ہوتا ہے شیطان اس کو مارتا ہے جس کی وجہ سے بچہ روتا ہے مگر مریم بنت عمران اور اس کے لڑکے (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کو شیطان نہیں مار سکا کیونکہ اس کی ماں نے اس کے پیدا ہونے کے وقت (یہ دعا) کی تھی لفظ آیت ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “ تو دونوں (یعنی شیطان اور عیسیٰ علیہ السلام) کے درمیان پردہ لگا دیا گیا تو شیطان پھر پردہ میں کچھ نہ کرسکا کسی کو نہیں مار سکا) ۔ (25) ابن جریر نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو بچہ پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس بچہ کو ایک یا دو دفعہ دباتا ہے مگر عیسیٰ بن مریم اور حضرت مریم (علیہا السلام) کو نہیں دبا سکا پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی لفظ آیت ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “۔ (26) ابن جریر نے ابن عباس ؓ سے روا یت کیا نہیں ہے کوئی بچہ پیدا ہونے والا مگر وہ پیدا ہوتے وقت روتا ہے سوائے مسیح بن مریم کے کہ ان پر شیطان مسلط نہیں ہوا اور نہ ان کے قریب آیا۔ (27) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن عساکر نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو شیاطین ابلیس کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ بتوں نے اپنے سر جھکا لیے ہیں یہ بڑا واقعہ ہے تم اپنی جگہ ٹھہرو وہ اڑا اور زمین کے مشرق اور مغرب کو اس نے پار کیا مگر کوئی چیز نہ پائی پھر وہ سمندر کی طرف آیا مگر کسی چیز پر قادر نہ ہوا پھر اڑا اور اس نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو پایا کہ ان کی ولادت ہوچکی اور فرشتے اردگرد گھیرے ہوئے تھے (یہ دیکھ کر) وہ ان کی طرف لوٹ آیا اور کہنے لگا کہ ایک نبی گذشتہ رات پیدا ہوئے ہیں حالانکہ کوئی بھی عورت حمل والی ہوتی کبھی بھی یا بچہ جتنی ہے تو میں اس کے پاس ہوتا ہوں مگر ان کے پاس (یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش پر) میں حاضر نہیں تھا۔ شیطان مایوس ہوگئے کہ اس رات کے بعد بتوں کی عبادت کی جائے گی ابلیس نے کہا۔ لیکن انسانوں کے پاس جاؤ اور ان پر جلد بازی اور کفت کی سمت پر حملہ کر دو ۔ (28) ابن جریر ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے اس آیت ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ ہم کو یہ بات ذکر کی گئی کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہر آدم کے بیٹے کو شیطان نے (انگلی سے) دبایا اس کے پہلو میں مگر عیسیٰ (علیہ السلام) بن مریم اور اس کی والدہ اس سے محفوظ رہیں ان کے اور شیطان کے درمیان پردہ لگا دیا گیا تو اس کا مارنا پردے کو لگا لیکن ان دونوں تک نہ پہنچ سکا اور ہم کو ذکر کیا گیا کہ یہ دونوں کسی گناہ کو نہیں کرسکتے تھے جیسا کہ سارے بنی آدم کرسکتے ہیں اور ہم کو یہ بات بھی ذکر کی گئی کہ عیسیٰ (علیہ السلام) دریا کے اوپر ایسے ہی چلتے تھے جیسے خشکی پر چلتے تھے اس سبب سے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو یقین اور اخلاص عطا فرمایا تھا۔ (29) ابن جریر نے ربیع (رح) سے اس آیت ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہر آدمی کو شیطان نے اس کے پہلو میں ضرب لگائی سوائے عیسیٰ (علیہ السلام) اور اس کی والدہ کے (کیونکہ) وہ دونوں کسی گناہ پر قادر نہ تھے جیسا کہ آدم کے بیٹے گناہ پر قادر ہیں اور آپ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے بچا لیا کہ اس کا ہم پر کوئی اثر نہ ہو۔ (30) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ مریم (علیہا السلام) نے (یہ دعا) نہ مانگی ہوتی لفظ آیت ” وانی اعیذھا بک وذریتھا من الشیطن الرجیم “ تب تو اس کی اولاد ہی نہ ہوتی۔
Top