Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
خدا نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا
ذکر اصطفا بعض برگزیدگان خداوند نام علیھم الصلوۃ والسلام قال تعالی، ان اللہ اصطفی۔۔۔ الی۔۔۔ سمیع علیم۔ ربط) ۔ گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے معیار کا بیان تھا اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے چند برگزیدہ بندوں کا ذکر فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حقیقی محب اور محبوب تھے تاکہ ان کے حالات اور واقعات سن کر ان کے اتباع اور محبت کا شوق دل میں پیدا ہوا اور یہ سمجھ لیں کہ حق تعالیٰ سے تعلق اور محبت بدون ان حضرات کی اتباع اور پیروی کے ناممکن ہے اور ان چند محبین اور محبوبین خدا کا ذکر خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ کے ذکر مبارک کی تمہید ہے جیسا کہ آئندہ بیان ہوگا بہرحال مقصود اس تذکرہ سے یہ ہے کہ بارگاہ خداوندی میں وصول بدون حضرات انبیاء کرام کے ناممکن اور محال ہے انہی حضرات کے اتباع سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور خوشنودی حاصل ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے جس نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی محبت کی تعلیم دی اور اس کا طریقہ بتلایا وہ ہمارے محترم ترین باپ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جو اللہ کے خلیفہ ہیں اور علم اور معرفت میں فرشتوں سے بڑھ کر ہیں اور سب سے پہلے خدا کے نبی اور رسول مکلم ہیں۔ اور پھر حضرت نوح (علیہ السلام) اور پھر حضرات ابراہیم (علیہ السلام) اور پھر آل عمران اور پھر سب سے اخیر میں ہمارے نبی اکرم سرورعالم سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں کہ جن کی بےچون وچرا متابعت اور اطاعت محبت خداوندی کا معیار ہے چناچہ فرماتے ہیں تحقیق اللہ تعالیٰ نے آدم کو برگزیدہ اور پسندیدہ بنایا کہ اپنی خلافت کا تاج ان کے سر پر رکھا اور مسجود ملائکہ بنایا اور جس نے ان کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور ان کی ہمسری کا مدعی بنا اس کو ملعون اور مغضوب بناکر اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا اور ان کے ایک عرصہ دراز کے بعد خاصل طور پر نوح کو برگزیدہ بنایا کہ ان کی اتباع کرنے والوں کو نجات دی اور ان کی اطاعت اور اتباع سے اعراض کرنے والوں کو یک لخت غرق کیا اور ابراہیم (علیہ السلام) کو دونوں کے لیے برکت کا وعدہ فرمایا اور علی ہذا خاندان عمران میں سے بھی بعض کو برگزیدہ اور پسندیدہ بنایا مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ وآل عمران علی العالمین میں عمران سے کون سے عمران مراد ہیں آیا عمران بن ماثان مراد ہیں جو حضرت مریم کے والد ہیں اور حضرت مسیح کے جد ہیں یا عمران بن یصہر بن قاہث بن لادی مراد ہیں جو حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کے والد ہیں اور آیت کے سیاق اور سباق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں عمران بن ماثان، حضرت مریم کے والد مراد ہیں اس لیے کہ ان آیات کا نزول نصاری نجران کے بارے میں ہوا جو حضرت عیسیٰ بن مریم کے الوہیت کے قائل تھے بہرحال اس عمران سے اگر حضرت مریم کے والد مراد ہیں تو آل عمران سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مراد ہوں گے غرض یہ کہ ان سب حضرات کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدہ اور پسندیدہ بنایا اور تمام جہانوں میں سے ان کو اپنی نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرمایا درآنحالیکہ یہ جماعت ایک نسل ہیں جو ایک دوسرے سے پیداہ وئے ہیں ایک طینت اور ایک خمیر ہیں جو اصطفاء اور اجتباء کے یکے بعد دیگرے وارث ہوئے اور اللہ تعالیٰ سب اقوال کے خوب سننے والے اور سب ظاہری اور باطنی احوال کے خوب جاننے والے ہیں کہ کون شخص اصطفاء اور برگزیدگی کے لائق ہے اللہ کا اصطفاء علم و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ فائدہ۔ اس آیت میں صراحۃ اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر نہیں وجہ یہ ہے کہ ان آیتوں کا نزول ان لوگوں کے مقابلہ میں ہوا ہے جو حضرت نوح اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آل عمران کی نبوت اور برگزیدگی کو مانتے تھے ان پر حجت پورا کرنے کے لیے ان حضرات کا ذکر کیا گیا جن کی محبت کے وہ دعوے دار تھے اس لیے اس الزام اور توبیخ میں ان افراد کا ذکر نہیں کیا گیا جن کی نبوت وبعثت کے وہ قائل نہ تھے نیز آیت میں کوئی کلمہ حصر کا نہیں کہ اصطفاء انہی حضرات میں منحصر ہے لہذا اگر اسماعیل کے اصطفاء کا اس آیت میں ذکر نہیں تو کوئی مضائقہ نہیں دوسری آیتوں میں ان کا اور دوسرے حضرات انبیاء کا ذکر مفصل آیا ہے جن کا اس آیت میں ذکر نہیں فرمایا۔ نکتہ) ۔ ان اللہ اصطفی کے لفظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ آل ابراہیم اور آل عمران مثلا عیسیٰ (علیہ السلام) سے جو اخوارق اور معجزات ظہور میں آئے وہ ان کی برگزیدگی اور نبوت کی دلیل ہیں نادانی سے ان کو الوہیت کی دلیل نہ سمجھ جانا۔
Top