Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Jawahir-ul-Quran - Yaseen : 68
وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ١ؕ اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ
وَمَنْ
: اور جس
نُّعَمِّرْهُ
: ہم عمر دراز کردیتے ہیں
نُنَكِّسْهُ
: اوندھا کردیتے ہیں
فِي الْخَلْقِ ۭ
: خلقت (پیدائش) میں
اَفَلَا يَعْقِلُوْنَ
: تو کیا وہ سمجھتے نہیں ؟
اور جس کو ہم بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں تو کیا یہ سمجھتے ہیں ؟
آیت نمبر
68
تا
83
ترجمہ : اور جس کی ہم عمر دراز کرکے معمر (سن رسیدہ) کردیتے ہیں تو اس کی تخلیق کو پلٹ دیتے ہیں اور ایک قراءت میں تنکیس سے تشدید کے ساتھ ہے، تو وہ اپنی قوت و شباب کے بعد کمزور اور بوڑھا ہوجاتا ہے، تو کیا یہ سمجھتے نہیں کہ جو ذات اس بات پر کہ جو ان کو معلوم ہے قادر ہے، وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے کہ وہ ایمان لے آئیں، اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ ہے، اور ہم نے اس کو شعر گوئی نہیں سکھائی، یہ کافروں کی اس بات کا جواب ہے کہ محمد ﷺ کو کچھ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں، وہ شعر ہے اور نہ گوئی آپ کی شایان شان ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں وہ تو محض نصیحت ہے، اور احکام وغیرہ کو ظاہر کرنے والا قرآن ہے، تاکہ اس شخص کو قرآن کے ذریعہ جو زندہ ہو متنبہ کرے یعنی جو اس سے کہا جائے اسے سمجھتا ہو اور وہ اہل ایمان ہیں، اور کافروں پر عذاب کا وعدہ ثابت ہوجائے، اور کافر مردوں کے مانند ہیں (اس لئے کہ) جو بات ان سے کہی جاتی ہے اس کو نہیں سمجھتے کیا یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بلا شریک و معین کے پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے منجملہ دیگر لوگوں کے ان کے لئے جانور وہ اونٹ گائے اور بکریاں ہیں پیدا کئے جن کے وہ مالک بنے ہوئے ہیں قابو میں کردیا ان میں سے بعض ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہیں اور ان کے لئے ان میں اور منافع بھی ہیں، جیسا کہ ان کی صوف، رواں اور ان کے بال اور پینے کی چیزیں ہیں، (مثلاً ) ان کا دودھ یا دودھ کا محل (تھن) مشارب مشرَبٌ کی جمع ہے بمعنی شُربٌ کیا لوگ اپنے اوپر جانوروں کے ذریعہ احسان کرنے والے کا شکر ادا نہیں کرتے کہ ایمان لے آئیں، یعنی انہوں نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے غیر اللہ (یعنی) بتوں کو معبود بنالیا ہے کہ ان کی بندگی کرتے ہیں کہ شاہد ان کی طرف سے ان کو مدد پہنچے، کہ اللہ کے عذاب سے ان کے اعتقاد کے مطابق ان (بتوں) کی سفارش سے (عذاب سے) محفوظ رہ سکیں (مگر) ان کے معبود ان کی ہرگز مدد نہیں کرسکتے ان معبودوں کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا ہے وہ یعنی ان کے ضمی معبود جن سے مدد کی توقع رکھنے کی وجہ سے ان کے لشکر میں ان (عابدین) کے ساتھ جہنم میں حاضر کئے جائیں گے، تو آپ کے بارے میں ان کا قول لَسْتَ وغیرہ آپ کو رنجیدہ نہ کرے بیشک ہم اس بات کو اور اس کے علاوہ کو خوب جانتے ہیں جن باتوں کو یہ چھپاتے ہیں اور جن کو ظاہر کرتے ہیں، ہم ان کو اس کا بدلہ دیں گے کیا انسان کو یہ معلوم نہیں اور وہ عاص بن وائل ہے کہ ہم نے اس کو نطفۂ منی سے پیدا کیا حتی کہ ہم نے اس کو قوی اور مضبوط کردیا پھر اس نے بعث کا انکار کرکے خصومت کو ظاہر کردیا اعلانیہ اعتراض کرنے لگا یعنی ہم سے سخت مخاصمت کرنے لگا، اور اس نے اس بارے میں ہماری شان میں ایک عجیب بات کہی اور اپنی اصل (حقیقت) کو بھول گیا کہ وہ نطفہ منی سے پیدا شدہ ہے اور وہ اس کی بیان کردہ عجیب بات سے زیادہ عجیب ہے کہتا ہے ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کرسکتا ہے ؟ رمیم بمعنی بالیۃٌ (بوسیدہ) رَمیمۃ ۃ کے ساتھ نہیں کہا ( جیسا کہ قیاس کا تقاضا تھا) اس لئے کہ رمیم اسم ہے نہ کہ صفت، روایت کیا گیا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی لی، اور اس کو ریزہ ریزہ کردیا، اور آپ ﷺ سے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو بعد اس کے کہ وہ کہنہ اور بوسیدہ ہوگئی زندہ کرسکتا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا : ہاں کیوں نہیں، اور تجھ کو دوزخ میں داخل کرے گا آپ جواب دیجئے کہ ان کو وہ ذات زندہ کرے گی جس نے ان کو اول بار پیدا کیا اور وہ اپنی تمام مخلوق کے بارے میں پیدا کرنے سے پہلے اور پیدا کرنے کے بعد مجملاً ومفصلاً جانتا ہے، اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہارے لئے منجملہ دیگر لوگوں کے مرخ اور عفار یا ہر سبز درخت سے سوائے عناب کے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگالیتے ہو، اور یہ بعث (بعدالموت) پر قادر ہونے کی دلیل ہے، اس لئے کہ اس نے اس میں پانی اور آگ اور لکڑی (متضاد چیزیں) جمع کردیں، پانی آگ کو نہیں بجھاتا اور نہ آگ لکڑی کو جلاتی ہے، جس نے آسمان اور زمین جیسی چیزیں پیدا فرمائیں کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسے صغیر انسانوں کو پیدا کرسکے ؟ ضرور پیدا کرسکتا ہے یعنی وہ اس بات پر قادر ہے خود ہی جواب دیدیا وہ بڑا پیدا کرنے والا ہے اور ہر شئ کا جاننے والا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی تخلیق کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا پس وہ ہوجاتی ہے اور ایک قراءت یکون نصب کے ساتھ ہے، یقولَ پر عطف کی وجہ سے وہ پاک ذات ہے اس کے دست قدرت میں ہر چیز کا اختیار ہے (ملکوت) میں واؤ اور تا زیادہ کئے گئے ہیں اور تم سب کو آخرت میں اسی طرف لوٹ کرجانا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : نُعَمِّرْہُ ای نُطِیْلُ اَجَلَہٗ ہم اس کی عمر دراز کردیتے ہیں۔ جمع متکلم مضارع مجزوم۔ قولہ : نُنَکِّسْہُ ای نُقَلِّبْہُ ای نَجْعَلْہُ علیٰ عَکسِ مَا خَلَقْنَاہُ ہم اس کی تخلیق پلٹ دیتے ہیں (اعراب القرآن) یعنی ہم بتدریج اس کی حالت بدل دیتے ہیں حتی کہ ضعف میں اس کی بچوں جیسی حالت ہوجاتی ہے۔ قولہ : وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) یہ جملہ مستانفہ ہے، قوت سے ضعف کی طرف انسان کی حالت کے بدلنے کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے مَنْ اسم شرط اور نُعَمِّرْ فعل شرط ہے نُنَکِّسْہُ جواب شرط ہے۔ قولہ : اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ فا عاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَرَکُوا التَّکُّرَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ ۔ قولہ : وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ یہ آپ یہ آپ ﷺ پر کفار کی جانب سے شاعر ہونے کے الزام کا جواب ہے، اس کا عطف سورت کی ابتداء میں اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ جملہ قسمیہ پر ہے۔ قولہ : الشِّعْرَ معروف ہے (ج) اشعاد، شعر لغت میں علم دقیق اور احساس لطیف کو اور موزون و مقفی کلام کو کہتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ شعر یا تو منطقی ہوتا ہے اور یا وہ جو مقدمات کا ذبہ پر مشتمل ہو، اسی لئے ان ادلہ کو جو مقدمات کا ذبہ سے مرتب ہوں، ادلہ شعریہ کہتے ہیں، اور اصطلاح میں کلام مقفٰی و موزون علی القصد کو کہتے ہیں، آخری قید سے وہ شعر خارج ہے جو کہ بلا قصد اتفاقی طور پر جاری ہوگیا ہو، جیسا کہ آیات شریفہ اور بعض کلمات نبویہ اس لئے کہ ان میں بلاقصد اتفاقی طور پر علم عروض کے مطابق وزن ہوگیا ہے۔ (حاشیہ جلالین ملخصًا) قولہ : اَوَلَمْ بَرَالإنسانُ (الآیۃ) ہمزہ استفہام انکاری تعجبی ہے، محذوف پر داخل ہے، واؤ عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا رویت سے مراد رویت علمیہ ہے اَنا خلَقْنَاہُ مِن نطفۃٍ قائم مقام دو مفعولوں کے ہے۔ قولہ : خَصِیْمٌ، المخاصمُ المُجادل۔ قولہ : خَلَقْنَا لھُمْ لام حکمت کے لئے ہے، ای حِکْمَۃُ خَلْقِنَا ذٰلِکَ اِنتِفَاعُھُمْ ۔ قولہ : فی جملۃ الناسِ اس سے اشارہ کردیا کہ یہ نعمتیں ان ہی کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ سب کے لئے ہیں۔ قولہ : مَافِعَلُوْا ذء لک اس سے اشارہ کردیا کہ اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ میں ہمزۂ استفہام انکاری ہے۔ قولہ : نُزِّلُوا مَنْزِلَۃََ العُقَلاَءِ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ لا یَسْتَطِیْعُوْنَ سے مشرکین کے ضمی معبود مراد ہیں جو کہ غیر ذوی العقول ہیں اس کی جمع واؤ، نون کے ساتھ لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عابدین اور معبودین میں مشاکلت کے طور پر ذوی العقول کے ردجہ میں اتار کر واؤ نون کے ساتھ جمع لائی گئی ہے۔ قولہ : وَھُمُ لَھُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ ، ھم، مبتداء جندٌ خبر اول، مُحْضَرُوْنَ خبر ثانی اور لَھُمْ جند کے متعلق ہے، مُحْضَرُوْنَ جندٌ کی صفت بھی ہوسکتی ہے۔ قولہ : اَیْ اٰلِھَتُھُمْ مِن الاصْنَامِ اس عبارت کے اضافہ سے شارح کا مقصد ھُمْ ضمیر کا مرجع متعین کرنا ہے، یعنی وہ بت ان کے لئے لشکر کے مانند ہیں مُحْضَرُوْنَ ای مُعَدُّوْنَ لحَفظِھم یعنی اپنی حفاظت کے لئے تیار کردہ لشکر ہے جو دنیا میں (ان کے خیال میں) ان کی حفاظت کرے گا (روح المعانی) دوسرا قول یہ بھی ہے کہ ھُمْ کا مرجع کفار ہیں یعنی کفار عابدین ان کے لئے حاضر باش لشکر کے مانند ہیں کہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ (جمل) قولہ : مِنْ ذٰلکَ ای قو لُھُمْ لَسْتَ مُرْسَلاً ۔ قولہ : الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ یہ الَّذِی أنشأھَا سے بدل ہے۔ قولہ : اِلاَّ العُنَّابُ عناب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے رگڑنے سے آگ نہیں نکلتی، اور یہی وجہ ہے کہ قصارین (دھوبی) عناب کی لکڑی کا مطارق (موسلہ) بناتے ہیں تاکہ رگڑنے سے کپڑے میں آگ نہ لگ جائے۔ (صاوی) تفسیر و تشریح وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) نُعَمِّر تعمیر سے بتدریج عمر دراز کرنا، اور نُنَکِّسْہُ تَنْکِیْسٌ سے پلٹنا، اوندھا کرنا، بتدریج سابقہ حالت کی طرف لوٹانا، سفیان سے منقول ہے کہ تنکیس اسّی سال کی عمر میں ہوتی ہے، وَالحق اَنَّ زمانُ ابتداء الضعف والانتقاص مختلف لا ختلاف الأ مزجۃِ والعوارض (روح المعانی) یعنی تحقیقی بات یہ ہے کہ تنکیس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے یہ امزجہ اور عوارض کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ وما۔۔ الشعر مشرکین مکہ نبی کریم ﷺ کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں، اور یہ قرآن آپ کی شاعرانہ تک بندی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی ہے یعنی نہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت وموعظت ہے، شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط وتفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا کہ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، کہا گیا ہے اَعْذَبُہٗ اَکْذَبُہٗ یعنی شعر میں جتنا زیادہ مبالغہ اور جھوٹ ہوگا اتنا ہی وہ مزیدار ہوگا علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، بلکہ اس کے مزاج و طبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے، اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں، یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکریں پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کردیا جائے اور یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امت بھی قطع شبہات کے لئے تھی، تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو فلاں سے سیکھ کر یا کتب سابقہ کا مطالعہ کرکے مرتب کرلیا ہے، البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اور ان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ ایسا آپ کے قصدوارادہ کے بغیر ہوا، اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح غزوۂ حنین کے موقع پر آپ سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن الحارث لگام پکڑے ہوئے تھے، اس موقع پر چند افراد کے علاوہ کوئی آپ کے ساتھ نہیں رہا تھا تو آپ کی زبان پر بےاختیاریہ رجز جاری ہوگیا : ؎ اَنا النبیُّ لا کَذِبْ اَنَا ابن عبد المطلب اسی طرح ایک موقع پر آپ کی انگشت مبارک پتھر سے زخمی ہوگئی تو آپ نے فرمایا : ؎ ھَلْ انتِ اِلاَّ اِصْبَعٌ دمیتِ وفی سبیل اللہِ ما لقیت (صحیح بخاری، مسلم کتاب الجھاد، روح المعانی) اس کے علاوہ ایک دو شعر کہنے یا پڑھنے سے شاعر نہیں ہوجاتا اور نہ اس کو شاعر کہا جاتا ہے، عرف شاعر اسی کو کہا جاتا ہے جو شعر گوئی پر قدرت اور مشغلہ رکھتا ہو، جس طرح کبھی کبھار کپڑا سینے والا خیاط نہیں کہا جاتا بلکہ درزی وہی ہوتا ہے جو خیاطی کا پیشہ کرتا ہو ورنہ تو ہر شخص خیاط کہلائے گا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے یہ شعر پڑھا : ؎ سَتبدی لک الاَیَّامُ ما کنت جاھِلاً ویاتیک مَنْ لم تزوَّد بالا خبار حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عرض کیا، لیس ھٰکذا یا رسول اللہ فقال رسول اللہ ﷺ اِنِّی واللہ مَا اَنابشاعرٍ ولا ینبغی لی۔ اولم۔۔۔ لھم (الآیۃ) اس آیت میں چوپایوں، جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیت و غریب صنعتکاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے، یہ چوہائے کہ جن کی تخلیق میں کسی انسان وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ ان سے انسانوں کو نفع اٹھانے کا موقع دیا بلکہ ان کا ان کو مالک بھی بنادیا، کہ وہ ان میں جس طرح چاہیں مالکانہ تصرف کرسکتے ہیں، اگر ہم ان میں وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے ہی میں نہ آسکتے، یہ خدا کے کرم و احسان ہی کا نتیجہ ہے کہ ان جانوروں سے جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ انکار نہیں کرتے ہیں، مثلاً ان کی اون اور بالوں سے مختلف کی عمدہ اور آرام دہ چیزیں بنتی ہیں، اور باربرداری اور کھیتی باڑی کے بھی کام آتے ہیں، حتی کہ بوقت ضرورت ان کو ذبح کرکے کھاتے بھی ہیں۔ ملکیت کے بارے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کا نظریہ : گذشتہ صدی کے اوئل سے معاشی نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے یا محنت، سرمایا دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت اور سرمایہ کو اصل قراردیتے ہیں، اور سوشلزم اور کمیونزم (اشتراکیت) والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت قرار دیتے ہیں۔ قران کریم کا نظریۂ معیشت : قرآن کریم کی مذکورہ صراحت نے بتلا دیا ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں (یعنی سرمایہ اور محنت) کا کوئی دخل نہیں، کسی چیز کی تخلیق انسان کے قبضے میں نہیں، تخلیق براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، اور عقل کا تقاضہ ہے کہ جو جس کو پیدا کرے وہی اس کا مالک ہو، اس سے ثابت ہوا کہ اشیاء عالم میں حقیقی ملکیت حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہوسکتی ہے۔ (معارف) واتخذوا۔۔۔ الھۃً (الآیۃ) یہ ان کے کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں، لیکن یہ بجائے اس کے کہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کریں یعنی اس کی عبادت و اطاعت کریں، غیروں سے امید وابستہ کرتے ہیں اور انہیں معبود بناتے ہیں۔ لا۔۔۔ جندٌ (الآیۃ) جندٌ سے مراد بتوں کے حمایتی اور ان کی طرف سے مدافعت کرنے والے اور مُحْضَرونَ سے مراد حاضر باش دنیا میں ان کے پاس رہنے والے ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ جب بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے ؟ یہ مشرکین خود اپنے معبودوں کی مدد اور حفاظت کرتے ہیں، ان کے معبودوں کو اگر کوئی برا کہے ان کی مذمت کرے، تو خود یہی لوگ ان کی حمایت و مدافعت میں سرگرم ہوجاتے ہیں، نہ کہ وہ معبود۔ بعض حضرات نے جُنْدٌ سے مراد فریق مخالف لیا ہے، آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں معبود بنا رکھا ہے یہی قیامت کے روز ان کے مخالف ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ اور حضرت حسن و قتادہ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ ان لوگوں نے بتوں کو معبود تو اس لئے بنایا تھا کہ یہ ان کی مدد کریں گے اور ہو یہ رہا ہے کہ وہ تو ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں خود یہی لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہیں ان کے خدام اور سپاہی بنے ہیں۔ اولم۔۔ نسان (الآیۃ) کیا یہ انسان اتنا نہیں سمجھتا کہ جس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر کیوں قادر نہیں ؟ اس کی قدرت احیاء موتےٰ کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور ادھی راکھ تیز ہوا میں اڑادی جائے، چناچہ اس کے ورثاء نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ جمع کرکے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا ؟ اس نے کہا تیرے خوف سے، چناچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرمادیا۔ (صحیح بخاری، الانبیاء) الذی۔۔۔ نارًا (الآیۃ) کہتے ہیں کہ عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور غفار، اگر انکی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے وہ ہر شئ پر قادر ہے، مردوں کو زندہ کرنا اس کے لئے اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ ابتداءً پیدا کرنا۔ ٭تم بحمداللہ٭
Top