Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 64
یَحْذَرُ الْمُنٰفِقُوْنَ اَنْ تُنَزَّلَ عَلَیْهِمْ سُوْرَةٌ تُنَبِّئُهُمْ بِمَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ قُلِ اسْتَهْزِءُوْا١ۚ اِنَّ اللّٰهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُوْنَ
يَحْذَرُ
: ڈرتے ہیں
الْمُنٰفِقُوْنَ
: منافق (جمع)
اَنْ تُنَزَّلَ
: کہ نازل ہو
عَلَيْهِمْ
: ان (مسلمانوں) پر
سُوْرَةٌ
: کوئی سورة
تُنَبِّئُهُمْ
: انہیں جتا دے
بِمَا
: وہ جو
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل (جمع)
قُلِ
: آپ کہ دیں
اسْتَهْزِءُوْا
: ٹھٹھے کرتے رہو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
مُخْرِجٌ
: کھولنے والا
مَّا تَحْذَرُوْنَ
: جس سے تم ڈرتے ہو
منافق ڈرتے رہتے ہیں کہ ان (کے پیغمبر) پر کہیں کوئی ایسی سورت (نہ) اُتر آئے کہ ان کے دل کی باتوں کو ان (مسلمانوں) پر ظاہر کر دے۔ کہہ دو کہ ہنسی کئے جاؤ۔ جس بات سے تم ڈرتے ہو خدا اس کو ضرور ظاہر کردے گا
یحذر المنفقون ان تنزل علیھم سورة تنبءھم بما فی قلوبھم منافق لوگ (طبعاً ) اس سے اندیشہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر کوئی سورت (مثلاً یہ آیت) نازل نہ ہوجائے جو ان کو ان منافقوں کے مافی الضمیر پر اطلاع دے دے۔ اوّل دونوں ضمیریں مؤمنوں کی طرف اور آخری فی قلوبھم کی ضمیر منافقوں کی طرف راجع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ منافقوں کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی عداوت اور حسد جو ہمارے دلوں میں ہے ‘ کہیں کسی آیت کے ذریعہ سے اس کا پردہ فاش نہ کردیا جائے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ علیہم کی ضمیر بھی منافقوں کی طرف راجع ہو ‘ کیونکہ منافقوں کے بارے میں کسی آیت کا نزول ان کے خلاف پڑے گا اور جب اس آیت کی تلاوت کی جائے گی تو مسلمانوں کو منافقوں کے خلاف دلیل مل جائے گی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ منافقوں کو اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں ہمارے خلاف کوئی آیت نازل ہو کر ہمارے قلبی حسد و عداوت کا پردہ فاش نہ کر دے۔ بغوی نے لکھا ہے : منافق آپس میں خفیہ باتیں کرتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کوئی آیت نازل ہو کر ان کو رسوا نہ کر دے۔ اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے معاملہ میں ان کو تردد تھا (اگر کامل یقین نہ تھا تو محکم انکار بھی نہ تھا ‘ شک میں پڑے ہوئے تھے ‘ اسی لئے) ان کو اندیشہ تھا کہ اگر رسول سچے ہیں تو کہیں اللہ کی طرف سے ان کی رسوائی نہ ہوجائے۔ بعض علماء کے نزدیک یَحْذَرُ اگرچہ خبر کی صورت میں ہے مگر امر کے معنی میں ہے ‘ یعنی منافقوں کو ڈرتے رہنا چاہئے۔ بعض اہل تفسیر کا قول ہے کہ منافق یہ باتیں آپس میں بطور استہزاء کہتے تھے۔ آئندہ جملہ سے اس قول کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا ہے : قل استھزء وا ان اللہ مخرج ما تخذرون۔ آپ کہہ دیجئے : اچھا ! تم استہزاء کرتے رہو ‘ بیشک اللہ اس چیز کو ظاہر کر کے رہے گا جس (کے اظہار) کا تم اندیشہ کرتے ہو۔ یہ امر بطور تہدید ہے ‘ یعنی جس سورت کے نزول یا برائیوں کا پردہ فاش ہونے کا تم کو اندیشہ ہے ‘ وہ تو اللہ ضرور کرے گا۔ تمہاری خفیہ عداوت کو ضرور ظاہر کر دے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اللہ نے ستر منافقوں کے نام مع ولدیت کے ذکر کئے تھے ‘ مگر مسلمانوں پر مہربانی فرمائی اور ان کے (ذہنوں سے اور تلاوت سے ہر طرح سے) منسوخ کردیا کہ آئندہ کوئی ان مخلص مسلمانوں کو عار نہ دلائے اور طعن تشنیع نہ کرے کہ تمہارے باپ تو ایسے منافق تھے۔ بغوی نے لکھا ہے : آیت کا نزول ان بارہ منافقوں کے حق میں ہوا تھا جو گھاٹی کے اوپر جا کر اس غرض سے کھڑے ہوگئے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپسی میں اس گھاٹی پر چڑھیں گے تو اچانک ہم ان کو قتل کردیں گے۔ حضرت جبرئیل نے رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دے دی۔ قصے کی پوری تفصیل حسب ذیل ہے۔ امام احمد نے حضرت ابو طفیل کی روایت سے ‘ بیہقی نے حضرت حذیفہ کی روایت سے اور ابن سعد نے حضرت جبیر بن مطعم کی روایت سے بیان کیا۔ نیز ابن ابی حاتم اور ابو الشیخ نے ضحاک (تابعی) کے حوالہ سے ‘ بیہقی نے عروہ اور ابن اسحاق کی وساطت سے اور محمد بن عمر نے اپنے مشائخ روایت کی سند سے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کسی سفر میں تھے اور کسی راستے میں گزر رہے تھے کہ منافقوں میں سے کچھ لوگوں نے باہم مشورہ کر کے یہ طے کرلیا کہ گھاٹی کے اوپر رسول اللہ ﷺ کو گرا کر قتل کردیں۔ مشورہ طے کرنے کے بعد موقع کی تلاش میں رہے۔ چناچہ (سفر مذکور میں) جب رسول اللہ ﷺ نے کسی گھاٹی پر چلنے کا ارادہ کیا تو منافق بھی آپ کے ساتھ ہو لئے تاکہ جس وقت آپ گھاٹی پر چڑھیں تو منافق آپ کو اونٹنی سے اٹھا کر وادی میں پھینک دیں۔ اللہ نے ان کی مکاری کی اطلاع رسول اللہ ﷺ کو دے دی۔ چناچہ جب رسول اللہ ﷺ گھاٹی پر چڑھنے لگے تو آپ کی طرف سے ایک منادی نے ندا کردی کہ رسول اللہ ﷺ گھاٹی کے راستہ میں جا رہے ہیں۔ خبردار ! کوئی بھی گھاٹی کے راستہ سے نہ جائے ‘ سب وادی کے اندر سے جائیں۔ تم لوگوں کیلئے وادی کے اندر سے جانا آسان بھی ہے (اوپر چڑھنے سے بچ جاؤ گے) حسب الحکم سب لوگوں نے بطن وادی کی راہ اختیار کی مگر جن منافقوں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کرنے کی تدبیر کی تھی ‘ انہوں نے جب یہ حکم سنا تو (اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور اپنے منصوبہ کی تکمیل کیلئے) تیار ہوگئے اور چہروں پر کپڑا باندھ لیا (اور گھاٹی پر جا چھپے) رسول اللہ ﷺ نے جب گھاٹی پر اس شان سے چلنا شروع کیا کہ حسب الحکم آگے آگے حضرت عمار بن یاسر اونٹنی کی مہار پکڑے جا رہے تھے اور پیچھے پیچھے حضرت حذیفہ بن یمان ہنکا رہے تھے ‘ اچانک (چھپے ہوئے لوگوں کی) کچھ آہٹ محسوس ہوئی۔ ساتھیوں نے نیزے تان لئے اور اونٹنی کو زور سے بھگایا ‘ اونٹنی اتنی تیزی سے بھاگی کہ کچھ سامان بھی گرپڑا۔ رات اندھیری تھی۔ حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی بھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گھاٹی میں پہنچ گئے۔ حضرت حمزہ کا بیان ہے کہ (گھاٹی کے اندر مشعل کی طرح) میری پانچوں انگلیاں روشن ہوگئیں جن کی روشنی میں ہم نے کوڑا ‘ رسی اور دوسرا گرا پڑا سامان جمع کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ کو حکم دیا کہ (آنے والے) لوگوں کو واپس لوٹا دیں۔ حضرت حذیفہ کے پاس ایک ٹیڑھی موٹھ کی برچھی دار لاٹھی تھی ‘ آپ اس لاٹھی سے آنے والے لوگوں کی سواریوں کا رخ لوٹانے لگے اور فرمایا : اے اللہ کے دشمنو ! ادھر ہی جاؤ ‘ ادھر ہی رہو۔ ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے ارادے کی اطلاع مل گئی ‘ اسلئے فوراً تیزی کے ساتھ گھاٹی سے اتر کر دوسرے لوگوں سے جا ملے۔ حضرت حذیفہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : حذیفہ ! اونٹنی کو مارو اور عمار ! تم پیدل چلو۔ سب لوگ تیزی سے چلے یہاں تک کہ یہ دونوں بزرگ گھاٹی کے اوپر پہنچ گئے اور رسول اللہ ﷺ گھاٹی سے باہر نکل گئے اور لوگوں کا انتظار کرنے لگے۔ پھر حضرت حذیفہ سے فرمایا : جن لوگوں کو تم نے لوٹایا تھا ‘ کیا ان میں سے کسی کو پہچانا بھی ؟ حضرت حذیفہ نے عرض کیا : حضور ﷺ ! رات کا اندھیرا تھا اور ان کے چہروں پر کپڑے بندھے تھے ‘ میں نے نہیں پہچانا ‘ ہاں ان کی اونٹنیوں کو پہچان لیا۔ فرمایا : تم سمجھے بھی کہ ان کا ارادہ کیا تھا ؟ حضرت حذیفہ نے عرض کیا : خدا کی قسم ‘ حضور ﷺ ! مجھے تو کچھ علم نہیں۔ فرمایا : انہوں نے داؤ کیا تھا کہ میرے ساتھ ساتھ چلیں اور جب میں گھاٹی پر چڑھوں تو پتھر مار مار کر مجھے گھاٹی سے نیچے پھینک دیں۔ اللہ نے مجھے ان کے نام اور ان کے باپوں کے نام بتا دئیے ‘ میں انشاء اللہ تم کو ان کی اطلاع دے دوں گا۔ حضرت حذیفہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! جب لوگ آجائیں تو آپ حکم دے دیجئے کہ ان (بےایمانوں) کی گردنیں مار دی جائیں۔ فرمایا : نہیں ‘ لوگ باتیں بنائیں گے اور کہیں گے کہ محمد نے اپنے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کردیا (بغوی کی روایت کے الفاظ میں کچھ اختلاف ہے مگر مطلب ایک ہی ہے) ہمارے لئے اللہ کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ اور حضرت عمار کو ان منافقوں کے نام بتا دئیے تھے مگر فرما دیا تھا کہ ان کو پوشیدہ رکھنا۔ غرض صبح ہوئی تو حضرت اسید بن حضیر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! رات آپ وادی کے اندر کی راہ سے کیوں نہ چلے ‘ یہ راستہ تو گھاٹی کے راستے سے آسان تھا۔ فرمایا : ابو یحییٰ ! کیا تم جانتے ہو کہ منافقوں کا میرے متعلق کیا رادہ تھا اور انہوں نے کیا طے کیا تھا ؟ ان کا خیال تھا کہ میرے پیچھے پیچھے آئیں گے اور رات کی تاریکی میں میری اونٹنی کا سینہ بند اور تسمے کاٹ کر اونٹنی کے آر چبھو دیں گے (چنانچہ ایسا ہی ہوا) قریب تھا کہ اونٹنی سے مجھے نیچے پھینک دیں۔ حضرت اسید نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! اب سب لوگ جمع ہیں اور اتر پڑے ہیں (یعنی فروکش ہوگئے ہیں اور پڑاؤ ڈال لیا ہے) آپ ہر خاندان کو حکم دے دیں کہ اس خاندان کے جس شخص نے یہ ارادہ کیا ہو ‘ خاندان والے ہی اس کو قتل کردیں اور اگر آپ کی رائے میں مناسب ہو تو مجھے (ان کے نام) بتا دیجئے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ! میں اس جگہ سے ہٹوں گا بھی نہیں کہ ان کے سر آپ کی خدمت میں لا کر حاضر کر دوں۔ فرمایا : مجھے یہ بات پسند نہیں کہ لوگ باتیں بنائیں اور کہیں کہ جب محمد کی لڑائی مشرکوں سے ختم ہوگئی تو وہ اپنے ساتھیوں پر ہاتھ صاف کرنے لگا۔ حضرت اسید نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! وہ تو آپ کے ساتھی نہیں ہیں۔ فرمایا : کیا وہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت کا اظہار نہیں کرتے ہیں ؟ حضرت اسید نے عرض کیا : جی ‘ کرتے تو ہیں۔ فرمایا : اسی وجہ سے میں ان کے قتل سے باز رہا۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت حذیفہ کو حکم دیا کہ عبد اللہ بن سعد بن ابی السرح اور ابو حاضر اعرابی اور عامر ابو عامر اور حلاس بن سوید بن صامت اور مجمع بن حارثہ اور ملیح تمیمی اور حصیر بن نمیر اور طعمہ بن ابیرق اور عبد اللہ بن عیینہ اور مرہ بن ربیع کو بلا لاؤ۔ حلاس ہی وہ شخص تھا جس نے کہا تھا : جب تک آج رات گھاٹی سے محمد ﷺ کو ہم پھینک نہ دیں گے ‘ باز نہ رہیں گے۔ اگر محمد ﷺ اور اس کے ساتھی ہم سے بہتر ہیں تو ہم پھر بکریاں ہوں گے اور وہ چرواہے ‘ ہم بےعقل ہوں گے اور وہ عقل والے۔ ملیح تمیمی وہ شخص تھا جس نے کعبہ کی خوشبو چرائی تھی اور مرتد ہو کر بھاگ گیا تھا مگر سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کہاں جائے۔ ملک میں مارا مارا پھرتا رہا تھا۔ حصیر بن نمیر وہ ہے جس نے زکوٰۃ کی چیزیں چرائی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا : کمبخت ! یہ حرکت تو نے کیوں کی ؟ کہنے لگا : مجھے اس حرکت پر اس خیال نے آمادہ کیا کہ اللہ آپ کو اس بات پر مطلع نہیں کرے گا (کیونکہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں) لیکن اب جبکہ اللہ نے آپ کو آگاہ کردیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اب میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اس وقت سے پہلے میں آپ پر ایمان نہیں لایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ بات سن کر اس سے درگذر فرما لی اور معاف کردیا۔ عبد اللہ بن عیینہ وہی شخص تھا جس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا : آج رات جاگ لو ‘ ہمیشہ کیلئے نجات پالو گے۔ خدا کی قسم ! اس شخص کو قتل کردینے کے سوا تمہارا کوئی کام نہیں (اس کے بغیر تمہارا کام نہ ہوگا) رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلوا کر فرمایا : کمبخت ! اگر میں مارا جاتا تو تجھے کیا فائدہ پہنچتا ؟ دشمن خدا کہنے لگا : اے اللہ کے نبی ! خدا کی قسم ‘ جب سے اللہ نے آپ کو فتح عنایت کی ہے ‘ ہم برابر خیریت کے ساتھ ہیں۔ ہم تو بس اللہ اور آپ کی ذات کے سبب سے (خیریت اور آسائش میں) ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔ مرہ بن ربیع وہ شخص تھا جس نے عبد اللہ بن ابی کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا تھا : اس رکاوٹ کو دور کر دو ۔ اس ایک اکیلے شخص کے قتل کے بعد تو ہمارے لئے چین ہی چین ہے۔ عام لوگ اس کے قتل سے مطمئن ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کو بلوا کر فرمایا : ارے ! تو نے ایسی باتیں کیوں کہیں ؟ اس نے جواب دیا : یا رسول اللہ ! میں نے تو ان میں سے کوئی بات نہیں کہی ‘ اگر کہی ہوتی تو آپ کو معلوم ہی ہوتی۔ غرض ان بارہ منافقوں کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنی چاہی تھی اور رسول اللہ ﷺ کو قتل کردینے کا ارادہ کیا تھا۔ سب کو ان کی کہی ہوئی باتیں ‘ ان کی گفتگو اور ان کے ظاہر و باطن کی حالت بتائی اور آپ کو ان چیزوں کا علم وحی سے ہوا تھا۔ آیت وَھُمَّوآ بِمَا لَمْ یَنَالُوْا سے اسی طرف اشارہ ہے۔ یہ بارہ آدمی نفاق اور اللہ اور اللہ کے رسول سے جنگ کے ارادہ ہی کی حالت میں مرگئے۔ بیہقی نے حضرت حذیفہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے بددعا کی تھی اور فرمایا تھا : الٰہی ! ان کو دنبل میں مبتلا کر دے۔ یعنی آگ کی ایک چنگاری میں جو ان کے دلوں کی رگ پر لگے اور وہ ہلاک ہوجائیں۔ مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میرے ساتھیوں میں بارہ آدمی منافق ہیں۔ یہ اس وقت تک جنت میں نہیں جائیں گے جب تک اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل نہ ہوجائے (اور سوئی کے ناکہ میں اونٹ کا داخل ہونا محال ہے ‘ لہٰذا ان کا جنت میں داخل ہونا بھی محال ہے) آٹھ کا کام تمام تو دنبل کر دے گا۔ یعنی آگ کا ایک چراغ جو ان کے شانوں کے درمیان پیدا ہوگا اور سینوں سے پار ہوجائے گا۔ بیہقی نے کہا : ہم کو حضرت حذیفہ کی روایت پہنچی ہے کہ یہ لوگ چودہ یا پندرہ تھے۔ یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے جب رسول اللہ ﷺ تبوک سے واپس آ رہے تھے۔
Top