Dure-Mansoor - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
بیشک منافق اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اللہ ان کی دھوکہ بازی کی ان کو سزا دینے والا ہے اور جب وہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو کسل مندی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ کو یاد نہیں کرتے مگر تھوڑا سا
(1) ابن جریر و ابن المنذر نے حسن (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہر مؤمن اور منافق پر روشنی پھینکی جائے جس کے ذریعہ وہ قیامت کے دن چلیں گے یہاں تک کہ جب پل صراط پر پہنچیں گے تو منافقین کا نور بجھ جائے گا اور مؤمن لوگ اس نور کے ساتھ چلتے رہیں گے یہ اللہ کی ان کے ساتھ خدیعہ ہوگی۔ (2) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وھو خادعھم “ سے مراد ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کو نور دے گا جس میں وہ مسلمانوں کے ساتھ چلیں گے جیسا کہ وہ دنیا میں ان کے ساتھ ہوتے تھے پھر ان کا یہ نور (اللہ تعالیٰ ) کھینچ لیں گے اور اس کو بچھا دیں گے تو وہ اپنے اندھیروں میں کھڑے رہ جائیں گے۔ ابن المنذر نے مجاہد و سعید بن جبیر (رح) سے اسی طرح روایت کیا۔ (3) ابن جریر نے ابن جریج (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ یہ آیت عبد اللہ بن ابی اور ابو عامر بن نعمان کے بارے میں نازل ہوئی۔ (4) ابن المنذر و ابن ابی حاتم و ابن ابی الدنیا نے الصحت میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ وہ اس بات کو ناپسند فرماتے تھے کہ ایک آدمی یوں کہے میں سست ہوں اور اس آدمی کی تاویل فرماتے تھے۔ (5) ابو یعلی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے نماز کر پڑھتا ہے اور اس کو بری طرح پڑھتا ہے جب خلوت میں ہوتا ہے تو یہ استہانت ہے کہ اس کے ذریعے وہ اپنے رب کو حقیر جانتا ہے۔ (6) عبد بن حمید و ابن جریر و ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” یراء ون الناس “ یعنی اللہ کی قسم ! اگر وہ لوگ نہ ہوتے تو منافق نماز نہ پڑھتے تھے اور صرف دکھاوے اور شہرت کے لئے نماز پڑھتا ہے۔ (7) ابن ابی شیبہ و ابن جریر و ابن المنذر والبیہقی نے شعب الایمان میں حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یذکرون اللہ الا قلیلا “ اس وجہ سے کہ وہ غیر اللہ کے لئے ہوتی ہے۔ (8) عبد بن حمید و ابن المنذر نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یذکرون اللہ الا قلیلا “ بلاشبہ منافق کا ذکر تھوڑا ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کو قبول نہیں فرماتے اور ہر چیز جس کو اللہ تعالیٰ رد فرما دیں وہ تھوڑی ہوتی ہے اور ہر وہ چیز جس کو اللہ تعالیٰ قبول فرمالیں گے وہ بہت ہوتی ہے۔ تقویٰ کے ساتھ عمل کرو (9) ابن المنذر نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ کوئی عمل تقوی کے ساتھ تھوڑا نہیں ہوتا اور کیسے تھوڑا ہوگا جو قبول کرلیا جائے۔ (10) مسلم و ابو داؤد و البیہقی نے اپنی سنن میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا منافق کی نماز ہے بیٹھ کر سورج کو دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جب شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوتا ہے تو کھڑے ہو کر چار ٹھونگے مار لیتا ہے اور اس میں تھوڑا سا اللہ کو یاد کرلیتا ہے۔
Top