Dure-Mansoor - An-Najm : 13
وَ لَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰىۙ
وَلَقَدْ رَاٰهُ : اور البتہ تحقیق اس نے دیکھا اس کو نَزْلَةً : اترنا اُخْرٰى : ایک مرتبہ پھر
اور یہ تحقیقی بات ہے کہ انہوں نے اس کو ایک بار اور دیکھا
41:۔ الترمذی والطبرانی وابن مردویہ (رح) والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں ابن عباس ؓ سے (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری '' کے بارے میں فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے رب عزوجل کو دیکھا ہے۔ 42:۔ عبد بن حمید والترمذی وابن جریر وابن المنذر (رح) والحاکم وابن مردویہ (رح) نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ کعب ؓ سے عرفات میں ملے اور ان سے کسی چیز کے بارے میں پوچھا اور پھر اس طرح اللہ اکبر کہا کہ پہاڑوں نے بھی اس کا جواب دیا ابن عباس ؓ نے فرمایا ہم بنو ہاشم یہ گمان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم کہیں کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا تو کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رؤیت کو اور اپنے کلام کو تقسیم فرمادیا موسیٰ (علیہ السلام) اور محمد ﷺ کے درمیان محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو دوبارہم کلامی کا شرف حاصل ہوا، مسروق (رح) نے فرمایا میرے پاس عائشہ ؓ تشریف لائیں اور میں نے کہا کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا تو انہوں نے فرمایا تو نے اس چیز کے بارے میں بات کی کہ اس کے لئے میرے بال کھڑے ہوگئے میں نے کہا تھوڑی سی مہلت دیجئے پھر میں نے یہ (آیت) پڑھی '' لقد رای من ایت ربہ الکبری '' (انہوں نے اپنے پروردگار کی قدرت کے بڑے بڑے عجائبات دیکھے عائشہ ؓ نے فرمایا تجھ کو کہا لے جایا جارہا ہے بلاشبہ وہ جبرائیل (علیہ السلام) مراد ہیں جو تجھ کو یہ خبر دے کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا یا انہوں نے کسی چیز کو دچھپایا ان چیزوں میں سے جن کا حکم دئیے گئے، یا وہ ان پانچ چیزوں کو جانتے تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت ) '' ان اللہ عندہ علم الساعۃ '' (کے بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے قیامت کا علم) الا یہ تو اس نے بڑا جھوٹ باندھا لیکن آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا آپ نے ان کو اپنی صورت میں دو مرتبہ دیکھا ایک مرتبہ سدرۃ المنتہی کے پاس اور ایک مرتبہ محلہ اجیاد کے پاس ان کے چھ سو پر تھے اور اس نے سارے افق کو بند کردیا تھا۔ 43:۔ النسائی والحاکم (وصححہ) وابن مردویہ (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ تم تعجب کرتے ہو کہ خلوت ہو ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے اور کلام ہو موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے اور رؤیت ہو محمد ﷺ کے لئے۔ 44:۔ ابن جریر (رح) نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔ 45:۔ ابن جریر (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں نے اپنے رب کو بہت اچھی صورت میں دیکھا مجھ سے فرمایا اے محمد کیا تو جانتا ہے کون سی چیز میں ملاء اعلی کے فرشتے جھگڑ رہے ہیں میں نے عرض کیا اے میرے رب میں نہیں جانتا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ مبارت میرے کندھوں کے درمیان رکھا تو میں نے اس کی ٹھنڈک کو اپنے سینے کے درمیان محسوس کیا۔ اور میں نے جان لیا جو کچھ آسمان اور زمین میں تھا میں نے عرض کیا میرے رب درجات کفارات اور جماعات کی طرف قدم اٹھانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار کرنے کے بارے میں (وہ گفتگوکر رہے ہیں) پھر میں نے عرض کیا اے میرے رب آپ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا موسیٰ (علیہ السلام) کو کلام فرمایا اور آپ نے ایسا کیا اور ایسا کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تیرے سینے کو نہیں کھول دیا ؟ کیا میں نے تجھ سے تیرے بوجھ کو نہیں اتارلیا کیا ؟ میں نے تیرے ساتھ ایسا نہیں کیا ؟ کیا میں نے ایسا نہیں کیا ؟ پس اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسی اشیاء ظاہر فرمائیں کہ مجھے اجازت نہیں دی گئی کہ میں ان کو بیان کروں اسی کو فرمایا (آیت ) '' ثم دنا فتدلی (8) فکان قاب قوسین اوادنی (9) فاوحی الی عبدہ ما اوحی (10) ما کذب الفؤاد مارای (11) یعنی میرا نور بصر کو میرے دل میں ڈالا تو میں نے اسے اپنے دل سے دیکھا۔ 46:۔ ابن اسحاق والبیہقی (رح) نے الاسماء والصفات میں (وضعفہ) عبداللہ بن ابی سلمہ ؓ سے روایت کیا کہ عبداللہ بن عمر بن خطاب ؓ نے عبداللہ بن عباس ؓ کی طرف ایک آدمی کو یہ سوال کرنے کے لئے بھیجا کیا محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ عبداللہ بن عباس ؓ نے ان کی طرف یہ پیغام بھیجا ہاں (دیکھا ہے) عبداللہ بن عمر ؓ نے اس قاصد کو یہ پوچھنے کے لئے واپس لوٹایا آپ نے اپنے رب کو کیسے دیکھا پھر انہوں نے یہ جواب بھیجا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کو سبز باغ میں دیکھا اس میں سونے کا فرش تھا۔ اور سونے کی کرسی پر وہ اپنی شان قدرت کے مطابق تشریف تھے اور کرسی کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں تھا دوسرا بیل کی صورت میں تھا تیسرا گدھ کی صورت میں تھا اور چوتھا شیر کی صورت میں تھا۔ 47:۔ البیہقی (رح) فی الاسماء والصفات (وضعفہ) ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ان سے پوچھا گیا کہ محمد ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ فرمایا ہاں (اس حال میں) ان کو دیکھا ہے گویا کہ ان کے قدم سبزے پر تھے جس کے پیچھے موتیوں کا پردہ تھا میں نے عرض کیا اے ابن عباس ؓ ! کیا اللہ تعالیٰ نہیں فرماتے ہیں (آیت ) '' لا تدرکہ الابصار '' (اس کو آنکھیں نہیں پاسکتیں) پھر فرمایا تیری ماں نہ ہو اس سے مراد اس کا وہ نور ہے جو اس کا ذاتی نور ہے، تو جب وہ اس نور سے تجلی ڈالیں گے تو کوئی چیز اس کا ادراک نہیں کرسکے گی۔ 48:۔ عبد بن حمید (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم نے محمد بن کعب قرضی (رح) نے نبی اکرم ﷺ کے بعض اصحاب سے روایت کیا کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ فرمایا میں نے اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا اور میں نے اس کو اپنے دل کے ساتھ دیکھادو مرتبہ پھر یہ (آیت ) '' ثم دنا فتدلی '' تلاوت کی۔ 49:۔ ابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ؟ فرمایا میں نے نہر کو دیکھا اور میں نے نہر کے پیچھے پردہ کو دیکھا اور میں نے نور کے پردے کو دیکھا اس کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ 50:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے ابوالعالیہ (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری '' سے مراد ہے کہ محمد ﷺ نے اپنے دل کے ساتھ اسے دیکھا اور اپنی آنکھوں سے ان کو نہیں دیکھا۔ 51:۔ عبد بن حمید (رح) وابن جریر (رح) نے ابوصالح (رح) سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ما کذب الفؤاد ما رای '' سے مراد ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے رب کو اپنے دل کے ساتھ دو مرتبہ دیکھا۔ 52:۔ عبد بن حمید (رح) نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے اور میں یہ گمان نہیں رکھتا کہ آپ نے ان کو نہیں دیکھا۔ 53:۔ مسلم الترمذی وابن مردویہ (رح) نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کیا آپ نے اپنے رب کو نہیں دیکھا ہے فرمایا '' نورانی اراہ '' یعنی وہ نور ہے میں نے اس کو دیکھا ہے اور اگر اس کو نورانی پڑھا جائے تو یہ معنی ہوگا (وہ نور ہے میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں) ۔ 54:۔ مسلم وابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ـ فرمایا میں نے ایک نور کو دیکھا ہے۔ 55:۔ عبدبن حمید (رح) وابن المنذر (رح) وابن ابی حاتم (رح) ابن مردویہ نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا ہے اور اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کی زیارت دل سے ہوئی : 56:۔ النسائی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کو اپنے دل کے ساتھ دیکھا ہے اور ان کو اپنی نظر سے نہیں دیکھا۔ 57:۔ مسلم والبیہقی (رح) نے دلائل میں ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری '' سے مراد ہے کہ آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا۔ 58:۔ عبد بن حمید (رح) نے ابراہیم (رح) سے روایت کیا کہ آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنی اصلی صورت میں دیکھا۔ 59:۔ عبد بن حمید (رح) نے مرہ حمدانی (رح) سے روایت کیا کہ آپ کے پاس جبرائیل (علیہ السلام) اپنی اصلی صورت میں دو مرتبہ آئے آپ نے ان کو سرسبز شاداب جگہ میں دیکھا جس کے ساتھ موتی لٹک رہے تھے۔ 60:۔ عبدبن حمید (رح) نے قتادہ ؓ سے روایت کیا کہ (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری '' سے مراد ہے کہ آپ نے سدرۃ المنتہی کے پاس ایک بہت بڑے نور کو دیکھا۔ 61:۔ ابوالشیخ وابن مردویہ (رح) نے ابن مسعود ؓ سے (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری '' کے بارے میں روایت کیا کہ آپ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو اس حال میں دیکھا کہ ان کی ٹانگ سدرۃ سے معلق ہے اور پر ہیرے موتی اس طرح چمک رہے ہیں جیسا کہ بارش کے قطرے ہوتے ہیں سبزیوں پر۔ 62:۔ ابوالشیخ نے ابن مسعود ؓ سے (آیت ) '' ولقد راہ نزلۃ اخری (13) عند سدرۃ المنتھی '' کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو ان کی اصل صورت میں سدرۃ کے پاس دیکھا ان کے چھ سو پر تھے ان میں سے ایک پر آسمان کے کناروں کو ڈھکے ہوے تھا اور اس کے پروں سے رنگ برنگ کے آلات موتی اور یاقوت جھڑ رہے تھے جن کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
Top