Dure-Mansoor - Al-Hashr : 7
مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ١ۙ كَیْ لَا یَكُوْنَ دُوْلَةًۢ بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْكُمْ١ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ١ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ
مَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : جو دلوادے اللہ عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول کو مِنْ : سے اَهْلِ الْقُرٰى : بستی والوں فَلِلّٰهِ : تو اللہ کے لئے وَ للرَّسُوْلِ : اور رسول کے لئے وَ لِذِي الْقُرْبٰى : اور قرابت داروں کیلئے وَالْيَتٰمٰى : اور یتیموں وَالْمَسٰكِيْنِ : اور مسکینوں وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ : اور مسافروں كَيْ لَا يَكُوْنَ : تاکہ نہ رہے دُوْلَةًۢ : ہاتھوں ہاتھ لینا (گردش) بَيْنَ : درمیان الْاَغْنِيَآءِ : مال داروں مِنْكُمْ ۭ : تم میں سے تمہارے وَمَآ اٰتٰىكُمُ : اور جو تمہیں عطا فرمائے الرَّسُوْلُ : رسول فَخُذُوْهُ ۤ : تو وہ لے لو وَمَا نَهٰىكُمْ : اور جس سے تمہیں منع کرے عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ : اس سے تم باز رہو وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور تم ڈرو اللہ سے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : سزادینے والا
جو اللہ نے اپنے رسول پر لوٹایا ان بستیوں والوں کی طرف سے تو وہ اللہ کا ہے اور رسول کا ہے اور رشتہ داروں کا ہے اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر کا ہے تاکہ یہ تم میں سے مالداروں کے درمیان گھومنے والی جائیداد بن کر نہ رہ جائے اور جو رسول تمہیں دے تو تم اسے لے لو اور جس سے تمہیں روکے اس سے رک جاؤ اور تم اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ سخت سزا دینے والا ہے
46۔ عبد بن حمید وابن المنذر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القری (جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو بستی والوں سے دلوایا) یعنی قریظہ سے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو قریش کے مہاجرین کے لیے خاص کردیا۔ 47۔ عبدالرزاق وابن المنذر نے زہری (رح) سے آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القری کے بارے میں روایت کیا مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ اس مال سے مراد جزیہ اور خراج ہے۔ 48۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے خیبر میں سے اپنے رسول کو دلوایا وہ آدھا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تھا۔ اور دوسرا آدھا مسلمانوں کے لیے تھا۔ جو حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے تھا۔ وہ کتیبہ، وطیخ سلالہ اور وجدہ تھے۔ اور جو مسلمانوں کے لیے تھا وہ شق تھا اور ہر حصے کے پھر تیرہ حصے تھے۔ اور نطاہ کے پانچ حصے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے مال میں سے کسی مسلمان کے لیے تقسیم نہیں فرمایا۔ مگر اس کے لیے جو حدیبیہ میں حاضر ہوا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے کسی کو اس سے پیچھے رہنے کی اجازت نہیں دی حدیبیہ سے نکلنے کے وقت مگر جو ان کے ساتھ خیبر میں حاضر ہو۔ مگر جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام انصاری کو اجازت فرمائی۔ 49۔ ابوداوٗد وابن مردویہ نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے بنو نضیر اور خیبر اور فدک کا مال خاص تھا۔ لیکن بنو نضیر کا مال غنیمت کس حادثہ یا مصیبت کے لیے روکا جاتا تھا۔ اور فدک کا مال مسافروں کے لیے تھا۔ لیکن خیبر کے مال کے تین حصے کیے گئے۔ ان میں سے دو حصے مسلمانوں میں تقسیم کیے گئے۔ اور ایک حصہ اپنے لیے اور اپنے اہل و عیال کے نفقہ کے لیے روک لیا۔ اور جو اپنے اہل و عیال کے نفقہ سے بچ جاتا وہ آپ فقراء مہاجرین کو عطا فرمادیتے۔ 50۔ ابن الانباری نے مصاحف میں اعمش (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ اور زید بن ثابت ؓ کے مصحف کے درمیان حلال اور حرام میں کوئی اختلاف نہیں۔ مگر دو حرفوں میں ایک سورة انفال میں جیسے فرمایا آیت وعلموا انما غنمتم من شیء فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ دوسرا سورة حشر میں جیسے فرمایا۔ آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القری فللہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل۔ اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں بطور غنیمت ملے خواہ کوئی چیز ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا ہے اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے۔ اس آیت نے اس حکم کو منسوخ کردیا۔ جو اس سے پہلے سورة حشر میں تھا اور مال غنیمت میں خمس (پانچواں حصہ) ان کے لیے بنایا گیا جن کے لیے مال فے تھا اور مال غنیمت کا باقی حصہ وہ سب لوگوں کے لیے ہوگیا جو جنگ میں شریک ہوئے۔ مال فئی رسول اللہ ﷺ کے لیے تھا 52۔ ابو عبید نے کتاب الاموال میں وعبد بن حمید و بخاری ومسلم وابوداوٗد و ترمذی و نسائی وابوعوانہ وابن حبان وابن مردویہ نے مالک بن اوس بن الحدثان رحمہما اللہ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے دوپہر کے وقت مجھے بلا بھیجا۔ میں نے ان کے پاس حاضر خدمت مت ہوا۔ وہ ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کی چارپائی کی رسیوں کے درمیان کوئی بستر نہ تھا اور آپ چمڑے کے ایک تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ فرمایا اے مالک تیری قوم میں سے کچھ گھر والے ہمارے پاس آئے۔ اور میں نے ان کے بارے میں بچا کھچاسامان حکم دیا ہے تم اس کو لے لو اور ان کے درمیان تقسیم کرلو۔ میں نے کہا اے امیر المومنین ! وہ لوگ میری قوم ہے اور میں اس کو لے کر ان کے پاس جانے کو ناپسند کرتا ہوں۔ اس کے بارے میں آپ کسی اور کو حکم فرمائیں۔ ابھی میں اس بارے میں آپ سے بات کر رہا تھا کہ ان کے پاس یرفا ان کا غلام آیا۔ اور اس نے کہا یہ عثمان بن عفان، طلحہ بن عبیداللہ، زبیر اور عبدالرحمن بن عوف ؓ حاضر ہیں اندرآنے کی اجازت مانگ رہے ہیں آپ نے ان کو اجازت عطا فرمائی وہ لوگ اندر داخل ہوئے۔ پھر ان کے پاس یرقا آیا اور کہا یہ علی اور عباد ؓ حاضر ہیں فرمایا ان کو داخل ہونے کی اجازت ددو۔ دونوں داخل ہوئے۔ عباس ؓ نے فرمایا آپ اس بارے میں مجھ سے زیادتی کر رہے ہیں۔ تو پاس بیٹھے ہوئے صحابہ ؓ نے کہا اے امیر المومنین ! ان کے درمیان فیصلہ کردیجیے اور ان میں سے ہر ایک کو اپنے ساتھی کی جانب راحت پہنچائیے۔ کیونکہ اس میں آپ کے لیے بھی راحت اور ان کے لیے سکون ہے حضرت عمر ؓ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے پھر فرایا : ذرا ٹھہرو اور اپنے بازؤو ؓ بڑھائے۔ پھر فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ اے صحابہ کی جماعت کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ بیشک ہم کسی کو وارث نہیں بناتے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ سدقہ ہے چونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ صحابہ ؓ نے فرمایا ہاں ہم اس کو سن چکے ہیں۔ پھر آپ علی اور عباس ؓ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور فرمایا : میں تم دونوں کو اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ آپ نے اس طرح فرمایا ؟ دونوں نے کہا ہاں ! پھر عمر ؓ نے فرمایا کیا میں تم سے اس بارے میں بات نہ کروں۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال اپنے نبی ﷺ کے لیے خاص کیا تھا۔ اور اس کے علاوہ کسی کو عطا نہیں فرمایا کہ ( اس سے) آپ کی مراد بنو نضیر سے حاصل ہونے والے اموال تھے جو صرف رسول اللہ ﷺ کے لیے تھے آپ کے ساتھ اور کسی کا اس میں کوئی حق نہ تھا خدا کی قسم ! آپ نے اسے تمہارے سوا کسی کے لیے جمع نہیں کیا اور نہ اس کے لیے تم پر کسی اور کو ترجیح دی۔ اور آپ نے اسے تم ہی میں تقسیم فرمایا اور یہ مال اسی میں سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس سے اپنے گھروالوں کی سال بھر کی خوراک کے لیے لے لیتے تھے اور باقی اللہ کے راستے میں خرچ کردیتے تھے۔ اسی پر آپ کا عمل جاری رہا۔ یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوگیا پھر ابوبکر صدیق ؓ خلیفۃ الرسول بنے۔ انہوں نے کہا میں رسول اللہ ﷺ کا نائب ہوں۔ میں اسی طرح عمل کروں گا۔ جس طرح آپ ﷺ کرتے تھے۔ اور میں آپ ﷺ کی حیات طیبہ کی سیرت کے مطابق ہی چلوں گا آپ بھی اس مال کی آمدنی سے رسول اللہ ﷺ کے اہل و عیال کے لیے سال بھر ذخیرہ کرلیتے تھے اور باقی مال کو دیگر راستوں میں خرچ کردیتے تھے جیسے رسول اللہ ﷺ کا معمول مبارک تھا پھر ابوبکر صدیق ؓ اپنی زندگی میں اس کا انتظام کرتے رہے۔ یہاں تک کہ ابوبکر وفات پاگئے۔ اب میں رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر دونوں کا نائب ہوں لہٰذا میں اس مال کے بارے میں اس طرح عمل کروں گا جس طرح ان دونوں کا معمول تھا اس لیے میں نے اسے قبضہ میں لے لیا ہے۔ جب دونوں میرے پاس آتے جاتے رہے میرے لیے یہی مناسب ہے کہ میں یہ مال تم دونوں خے سپرد کردوں اور میں تم سے یہ عہد و پیمان لے لوں کہ تم اس میں وہی عمل کرو گے۔ جو رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے اس میں عمل کیا اور میں بھی یہی عمل کروں گا یہاں تک کہ ان دونوں کو وہ مال دے دیا۔ اے صحابہ کی جماعت میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں۔ کیا میں یہ مال اس شرط کے ساتھ ان دونوں کے حوالے کردوں ؟ انہوں نے کہا جی ہاں پھر ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور فرمایا میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ مذکورہ شرط کے ساتھ۔ میں یہ مال تمہارے سپرد کردوں ؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا۔ اس کے سوا کسی اور فیصلے کے لیے تم دونوں مجھ سے درخواست کرسکتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! میں اس بارے میں اس کے علاوہ کوئی فیصلہ نہیں کروں گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے۔ اگر تم دونوں اس سے عاجز ہوجاؤ تو میری طرف تو پھر اسے میرے حوالے کردینا۔ پھر عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت وما افاء اللہ علی رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللہ علی کل شیء قدیر۔ تو یہ مال رسول اللہ ﷺ کے لیے تھے۔ آیت واتقوا اللہ، ان اللہ شدید العقاب۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو بلاشبہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ پھر فرمایا اللہ کی قسم ! ان لوگوں میں سے کسی اکیلے کو عطا نہیں فرمایا یہاں تک کہ فرمایا آیت للفقراء المہجرین الذین اخرجوا من دیارہم واموالہم یبتغون فضلا من اللہ ورضوانا وینصرون اللہ ورسولہ۔ اولئک ہم الصدقون۔ ان فقراء مہاجرین کے لیے جو اپنے گھروں اور اپنے مالوں سے نکالے گئے۔ اور وہ اللہ سے فضل اور رضا مندی تلاش کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی سچے لوگ ہیں۔ پھر اللہ کی قسم ! یہ مال صرف انہیں کے لیے نہیں بنایا۔ بلکہ فرمایا آیت والذین تبوء وا الدار والایمان من قبلہم سے لے کر آیت فاولئک ہم المفلحون۔ تک۔ پھر اللہ کی قسم ! یہ مال صرف ان لوگوں کو بھی عطا نہیں فرمایا یہاں تک کہ فرمایا آیت والذین جاء و من بعدہم یقولون ربنا اغفرلنا۔ سے لے کر آیت انک رء ورحیم تک پس رسول اللہ ﷺ نے اس حصے کو ان تمام پر تقسیم فرمایا جن کا اللہ تعالیٰ نے یہاں ذکر فرمایا۔ عمر ؓ نے فرمایا اگر میں باقی رہا تو صنعاء کے چرواہے بھی اپنا حق لیں گے۔ اس وقت آپ کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔ 53۔ عبدالرزاق وابو عبید وابن زنجویہ معافی الاموال وعبد بن حمید وابوداوٗد فی ناسخہ وابن جریر وابن المنذر وابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی سنن میں مالک بن اوس بن حدثان (رح) سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ نے یہ آیت پڑھی آیت انما الصدقت للفقراء والمسکین (التوبہ : 60) بلاشبہ صدقات فقرا اور مساکین کے لیے ہیں۔ یہاں تک آپ آیت علیم حکیم تک پہنچے پھر فرمایا یہ صدقات ان لوگوں کے لیے ہیں پھر آپ نے یہ آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القری پڑھی یہاں تک پہنچے آیت للفقراء المہجرین۔ آیت کے آخرت تک پھر فرمایا یہ مہاجرین کے لیے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی آیت والذین تبوء و الدار والایمان من قبلہم اور ان لوگوں کا بھی حق ہے جو دار الاسلام یعنی مدینہ اور ایمان میں ان مہاجرین کے آنے سے پہلے ٹھکانہ بنا چکے تھے۔ آیت کے آخر تک۔ پھر فرمایا یہ انصار کے بارے میں ہے پھر یہ آیت والذین جاء وا من بعدہم اور لوگ ان کے بعد آئے آیت کے آخر تک پھر فرمایا یہ آیت تمام مسلمانوں کو محیط ہے اور کوئی بھی نہیں ہے مگر اس کا اس مال میں حق ہے۔ خبردار تم مالک نہیں ہو اپنی وصیت کے پھر فرمایا اگر میں زندہ رہا تو بکریاں چرانے والا بھی اس سے حصہ لے گا اور وہ اپنے گدھوں کو چلا رہا ہوگا اور اس کی پیشانی بھی پسینہ سے شرابور نہیں ہوئی۔ 54۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن مردویہ اور بیہقی سے زید بن اسلم (رح) سے روایت کیا اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے سنا کہ تم اس مال کے لیے جمع ہو اور اسکے بارے میں غور وفکر کرو جس کو تم جانتے ہو۔ اور میں نے اللہ کی کتاب کی یہ آیات پڑھی ہیں۔ وہ مجھ کو کافی ہیں میں نے اللہ تعالیٰ کو یہ فرماتے ہوئے سنا آیت ما افاء اللہ علی رسولہ من اہل القریٰ فللہ وللرسول سے لے کر آیت تاولئک ہم الصدقون تک اللہ کی قسم ! یہ صرف انہیں کے لیے نہیں بلکہ فرمایا آیت والذین تبوءا الدار والایمان سے لے کر آیت المفلحون تک۔ اللہ کی قسم وہ صرف ان لوگوں کے لیے بھی نہیں بلکہ فرمایا آیت والذین جاء و من بعدہم یقولون ربنا اغفرلنا سے لے کر آیت انک رء وف الرحیم تک۔ اللہ کی قسم ! نہیں ہے کوئی مسلمانوں میں سے مگر اس کا حق ہے اس مال میں کہ اسے اس میں سے دیا جائے یا اسے اس سے روک دیا جائے یہاں تک عدن کے چرواہے کا بھی حق ہے۔ 55۔ عبدالرزاق وابن سعد وابن ابی شیبہ وابن زنجویہ فی الموال وعبد بن حمید وابن المنذر نے عمر بن خطاب ؓ سے روایت کیا زمین پر کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اس کے لیے اس مال میں حق نہ ہو سوائے لونڈیوں کے۔ 56۔ عبدبن حمید اور بیہقی نے اپنی سنن میں سعید بن مسیب ؓ سے روایت کیا کہ ایک دن عمر ؓ نے مال میں سے ایک حصہ تقسیم فرمایا تو وہ لوگ اس پر آپ کی تعریف کرنے لگے۔ تو آپ نے فرمایا تم کتنے احمق ہو اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں تم کو اس سے ایک درہم بھی نہ دیتا۔ 57۔ ابو داوٗد نے اپنے ناسخ میں ابن ابی نجیح (رح) سے روایت کیا کہ مال تین قسم کا ہے مغنم یعنی مال غنیمت ( وہ مال جو دشمن سے جنگ کے بعد ہاتھ آئے) اور فئی یعنی ما فے ( وہ مال جو جنگ کے بغیر ہاتھ آئے) اور صدقہ (کا مال) اور اس میں سے کوئی درہم بھی نہیں ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا محل بیان فرمادیا ہے۔ 58۔ احمد وحاکم وصححہ نے سمرۃ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عنقریب اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں کا عجم سے بھردے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو شیرہ بنا دے گا وہ نہیں بھاگیں گے (پھر) وہ تمہارے جنگجوؤں کو قتل کردیں گے۔ اور وہ تمہارے مال غنیمت کو کھاجائیں گے۔ 59۔ ابن سعد نے سائب بن یزید (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں تین قسم کے لوگ ہیں جن میں ہر ایک کے لیے اس مال میں حق ہے اس کو دیا جائے یا اس سے روک لیا جائے۔ عبد مملک کے سوا کوئی بھی کسی سے زیادہ حق نہیں رکھتا۔ اور میں بھی اس میں تمہاری طرح کا (حقدار) ہوں۔ لیکن ہم کتاب اللہ کے مطابق اپنے درجات اور مراتب پر ہیں اور ہم رسول اللہ ﷺ کی طرف سے تقسیم کردیے گئے ہیں پس ہر آدمی کے ساتھ اسلام میں اس کی آزمائش بھی ہے (یعنی وہ کسی نہ کسی آزمائش میں مبتلا ہے) اسلام میں آدمی کے ساتھ اس کا اسلام میں آنا بھی ہے اور اسلام میں آدمی کے ساتھ اس کی مالداری بھی ہے اور اسلام میں آدمی کے ساتھ اس کی حاجت بھی ہے اللہ کی قسم ! اگر میں زندہ رہا تو صنعا کے پہاڑوں کا چرواہا بھی اس مال سے اپنا حصہ لے گا حالانکہ وہ اپنی جگہ پر ہوگا۔ حضرت عمر ضی اللہ عنہ کا مال فئی کو تقسیم کروانا۔ 60۔ ابن سعد نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ عمر ؓ نے حذیفہ کی طرف لکھا کہ لوگوں کو ان کے عطیات اور ان کے ارزاق دے دو ۔ انہوں نے آپ کی طرف جواب لکھا ہم ایسا کرچکے ہیں (یعنی دے چکے ہیں) اور بہت سا مال باقی بچھا ہے۔ عمر ؓ نے ان کی طرف لکھ بھیجا کہ بیشک ان کا وہ فے جو اللہ نے ان کو عطا فرمایا ہے وہ نہ تو عمر کا ہے اور نہ ہی عمر کے خاندان کا۔ اس لیے وہ مال کو ان کے درمیان تقسیم کردو۔ 61۔ ابن ابی شیبہ نے عمر بن عبدالعزیز (رح) سے روایت کیا کہ میں نے مال کو پایا ہے جو ان تین قسموں کے لوگوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا یعنی مہاجرین۔ انصار اور وہ لوگ جو ان کے بعد آئے۔ 62۔ ابن ابی شیبہ نے حسن (رح) سے اسی طرح روایت کیا آیت وما اٰتکم الرسول فخذوہ 63۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن المنذر نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ آیت وما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہو۔ اور جو کچھ تم کو رسول اللہ ﷺ دیں اس کو لے لو اور جس سے تم کو روک دیں اس سے رک جاؤ سے مراد ہے کہ آپ ﷺ ان کو غنائم عطا فرماتے تھے اور ان کو خیانت سے روکتے تھے۔ 64۔ عبدالرزاق وابن المنذر نے حسن ؓ سے آیت وما اتکم الرسول فخذوہ کے بارے میں روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ مال فے میں سے جو کچھ تم کو عطا فرمائیں اس کو لے آیت وما نہکم عنہ فانتہوا اور مال فے میں سے جس سے تم کو روک دیں تو اس سے رک جاؤ۔ 65۔ ابن المنذر نے ابن جریج (رح) سے آیت وما اتکم الرسول کے بارے میں روایت کیا یعنی میری اطاعت اور میرے حکم میں سے (جو کچھ آپ حکم فرمائیں اس پر عمل کرو) آیت فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا۔ یعنی میری نافرمانی سے آپ روکیں تو رک جاؤ۔ 66۔ ابن ابی شیبہ وعبد بن حمید و نسائی وابن المنذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا آیت وما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا لوگوں نے کہا کیوں نہیں پھر آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا آیت وما کان لمومن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لہم الخیرۃ من امرہم (الاحزاب : 36) اور کسی مومن مرد اور مومن کو لائق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کام کا حکم دے تو انہیں اپنے کام میں اختیار باقی ہے۔ پھر فرمایا بلاشبہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے دباء (یعنی کدو سے بنایا ہوا برتن) اور حنتم (لاکھی گھڑا) اور نقیر (یعنی کھجور کی لکڑی کا پیالہ) اور مزفت (یعنی رال یا لاکھی سے پینٹ ہوا برتن) سے منع فرمایا (کیونکہ زمانہ جاہلیت میں یہ برتن شراب بنانے اور پینے میں استعمال ہوئے تھے اس لیے آپ نے ان برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا) رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے 67۔ عبد بن حمید نے سعید بن جبیر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن عمر اور بن عباس ؓ کو سنا کہ وہ دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان برتنوں دبا، حنتم، نقیر اور مزفت کو استعمال کرنے سے منع فرمایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت وما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا۔ 68۔ احمد وعبد بن حمید و بخاری ومسلم وابن المنذر وابن مردویہ نے علقمہ (رح) سے روایت کیا کہ عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والی اور گدوانے والی اور چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور خوبصورتی کے لیے دانتوں میں کشادگی کرانے والی اللہ کی پیدائش کو تبدیل کرنے والی پر یہ بات بنو اسد کی ایک عورت کو پہنچی جس کو ام یعقوب کہا جاتا تھا۔ وہ ان کے پاس آئی اور کہنے لگی مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے ایسا ایسا کرنے والی پر لعنت کی ہے۔ عبداللہ ؓ نے فرمایا کیا ہے مجھے کہ میں اس پر لعنت نہ کروں جس کو رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی۔ اور وہ اللہ کی کتاب میں ہے۔ اس عورت نے کہا کہ تحقیق جو کچھ ان دو تختیوں کے درمیان ہے میں نے اسے پڑھا ہے اور میں نے اس میں ایسی کوئی چیز نہی پائی۔ عبداللہ ؓ نے فرمایا اگر تو اسے پڑھتی تو یقیناً اس کو پالیتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی آیت وما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا۔ اس عورت نے کہا کیوں نہیں پڑھی ہے۔ تو پھر آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ایسا ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم۔
Top