Dure-Mansoor - At-Tawba : 19
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ
اَجَعَلْتُمْ : کیا تم نے بنایا (ٹھہرایا) سِقَايَةَ : پانی پلانا الْحَآجِّ : حاجی (جمع) وَعِمَارَةَ : اور آباد کرنا الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام كَمَنْ : اس کے مانند اٰمَنَ : ایمان لایا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَجٰهَدَ : اور اس نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰه : اللہ کی راہ لَا يَسْتَوٗنَ : وہ برابر نہیں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیا تم نے حج کرنے والوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے آباد کرنے کو اس شخص کے برابر بنا دیا جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آخرت کے دن پر، اور جس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اللہ کے نزدیک یہ لوگ برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا
1:۔ مسلم وابوداود وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابن حبان والطبرانی وابو الشیخ وابن مردویہ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس تھا آپ کے صحابہ کی ایک جماعت میں انمیں سے ایک آدمی نے کہا مجھ کو کوئی پرواہ نہیں کہ میں اسلام قبول کرنے کے بعد حاجیوں کو پانی پلانے کے سوا کوئی عمل نہ کروں اور دوسرے نے کہا بلکہ مسجد حرام کو آباد کرنے کے سوا کوئی عمل کروں تیسرے نے کہا بلکہ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا افضل ہے ان سب کاموں سے جو تم نے کہا حضرت عمر ؓ نے ان کو ڈانٹا اور فرمایا اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس بلند نہ کرو اور یہ جمعہ کا دن تھا لیکن جب تم جمعہ (کی نماز) پڑھ لوگے تو میں آپ ﷺ کے پاس جاکر ان اعمال کے بارے میں پوچھوں گا جس میں اختلاف کررہے ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحآج “ سے لے کر ” واللہ لا یھدی القوم الظلمین “ 2:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحآج “ (الآیہ) کے بارے میں فرمایا کہ مشرکین نے (یوں) کہا بیت اللہ کا آباد کرنا اور پانی پلانے پر قائم رہنا بہتر ہے ان لوگوں سے جو ایمان لایا اور جہاد کیا یہ لوگ حرم میں (ایک دوسرے) پر فخر کرتے تھے اور اس وجہ سے تکبر کرتے تھے کہ بلاشبہ وہ لوگ اس کے رہنے والے اور اس کے آباد کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے تکبر کو اور ان کے اعراض کرنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا حرم کے رہنے والے مشرکین کے بارے میں فرمایا (آیت) ” قدکانت ایتی تتلی علیکم فکنتم علی اعقابکم تنکصون (66) مستکبرین بہ سمرا تھجرون (67) “ (المومنین آیت 7) یعنی کہ وہ لوگ حرم کی وجہ سے تکبر کرتے تھے اور فرمایا یعنی تم حرم کے صحن میں داستان گوئی کیا کرتے تھے اور قرآن کی شان میں اور نبی اکرم ﷺ کی شان میں بکواس کیا کرتے تھے پس اللہ کے ساتھ ایمان لانا اور نبی کریم ﷺ کی معیت میں جہاد کرنا مشرکین کے بیت اللہ کے آباد کرنے اور پانی پلانے کے انتظام کرنے سے بہتر اور افضل ہے اور یہ کام ان کو اللہ کے نزدیک نفع نہ دیں گے شرک کے ساتھ اگرچہ وہ اس کے گھر کو آباد کرتے ہیں اور اس کی خدمت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” لا یستون عند اللہ واللہ لا یھدی القوم الظلمین “ یعنی وہ لوگ جنہوں نے گمان کیا کہ وہ بیت اللہ کو آباد کرنے والے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ظالمین کا نام دیا ان کے شرک کی وجہ سے تو ان کا بیت اللہ کو آباد کرنا ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے گا۔ 3:۔ ابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ عباس ؓ نے فرمایا کہ جب وہ بدر کے دن قید ہوگئے اگر تم اسلام قبول کرنے اور ہجرت اور جہاد کے کرنے میں ہم سے سبقت لے چکے ہو تو ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور قیدیوں کو چھڑاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ یعنی ان کا یہ کام شرک کی حالت میں ہے اور مشرک کی حالت میں ان کا یہ عمل قبول نہیں کرتا۔ 4:۔ ابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج وعمارۃ المسجد الحرام “ (یہ آیت) علی بن ابی طالب ؓ اور عباس ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ 5:۔ عبدالرزاق وابن ابی شیبہ وابن جریر وابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ یہ (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ عباس ؓ اور علی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی اور اس بارے میں دونوں نے آپ میں بات کی۔ 6:۔ ابن مردویہ نے شعبی (رح) سے روایت کیا کہ علی ؓ اور عباس ؓ کے درمیان جھگڑا تھا۔ عباس ؓ نے علی ؓ سے فرمایا میں نبی کریم ﷺ کا چچا ہوں اور تو آپ کے چچا کا بیٹا ہے اور میں ذمہ دار ہوں حاجیوں کو پانی پلانے کا اور مسجد حرام کے آباد کرنے کا تو اللہ تعالیٰ نے (یہ آیت) ” اجعلتم سقایۃ “ (الآیہ) 7:۔ عبدالرزاق نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (یہ آیت) علی ؓ عباس ؓ اور شیبہ کے بارے میں نازل ہوئی ان لوگوں نے ہی اس بارے میں بات کی ہے۔ 8:۔ ابن ابی شیبہ وابوالشیخ وابن مردویہ نے عبداللہ بن عبید اللہ ؓ سے روایت کیا کہ علی ؓ نے عباس ؓ سے فرمایا اگر تم مدینہ کی طرف ہجرت کرلیتا تو اچھا تھا انہوں نے کہا کیا میں ہجرت سے اچھا کام نہیں کررہا ؟ کیا میں حاجیوں کو پانی نہیں پلاتا اور مسجد حرام کو آباد نہیں کرتا ؟ تو یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” اعظم درجۃ عند اللہ “ تو (اس آیت میں) اللہ تعالیٰ نے مکہ پر مدینہ کو ایک درجہ فضیلت عطا فرمائی۔ 9:۔ فریابی نے ابن سرین (رح) سے روایت کیا کہ علی بن ابی طالب ؓ مکہ آئے اور عباس ؓ سے فرمایا اے چچا کیا آپ ہجرت نہیں کریں ؟ کیا آپ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ آکر نہیں رہیں گے انہوں نے کہا کیا میں مسجد حرام کو آباد نہیں کرتا اور بیت اللہ کی دربانی نہیں کرتا۔ تو اللہ تعالیٰ (یہ آیت) اتاری (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج وعمارۃ المسجد الحرام “ آپ نے ایک قوم سے ان کے نام لے کر کہا کیا تم ہجرت کرکے رسول اللہ ﷺ سے نہیں مل جاتے تو انہوں نے کہا ہم اپنے بھائیوں اور اپنے کنبہ اور اپنے گھروں میں مقیم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” قل ان کان ابآء کم “ ساری آیت (البقرۃ آیت 24) 10:۔ ابن جریر نے محمد بن کعب قرظی (رح) سے روایت کیا کہ طلحہ بن شیبہ ؓ عباس ؓ علی بن ابی طالب ؓ نے آپس میں فخر کیا اور طلحہ نے کہا کہ میں بیت اللہ کا مالک ہوں میرے پاس اس کی چابی ہے اور عباس نے فرمایا میں پانی پلانے والا ہوں اور اس پر قائم رہنے والا ہوں۔ علی ؓ نے فرمایا میں نہیں جانتا جو تم کہہ رہے ہو میں نے لوگوں سے پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی اور میں جہاد کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ (الآیہ) بغیر ایمان کے اعمال قابل قبول نہیں : 11:۔ ابن جریر وابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے روایت کیا کہ مسلمان عباس اور اس کے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہوئے جو بدر کے دن قید ہوگئے تھے اور ان کو شرک کے ساتھ عار دلائی عباس نے فرمایا اللہ کی قسم تحقیق ہم مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور ہم قیدیوں کو چھڑاتے تھے اور ہم بیت اللہ کی دربانی کرتے تھے اور ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ 12:۔ ابو نعیم نے فضائل الصحابہ میں اور ابن عساکر نے انس ؓ سے روایت کیا کہ عباس ؓ اور شیبہ صاحب البیت ( بیت اللہ کے مالک) دونوں آپس میں فخر کررہے تھے تو حضرت عباس ؓ نے اس سے فرمایا میں تم سے زیادہ عزت والا ہوں میں رسول اللہ ﷺ کا چچا ہوں اور میں اپنے باپ کا وصی ہوں اور حاجیوں کو پانی پلانے والا ہوں شیبہ نے کہا تجھ سے زیادہ عزت والا ہوں میں اللہ تعالیٰ کا امیر ہوں اس کے گھر پر اور اس کا خزانچی ہوں کیا اس نے تجھے اس طرح امین بنایا ہے جیسے اس نے مجھے امین بنایا ہے۔ حضرت علی ؓ ان کے پاس آپہنچے دونوں نے اس کے بارے میں آپ کو بتایا۔ جو ان دونوں نے کہا تھا علی ؓ نے فرمایا میں تم دونوں سے زیادہ عزت والا ہوں۔ میں پہلا آدمی ہوں جو ایمان لایا اور ہجرت کی یہ تینوں نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو ساری بات بتائی آپ نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا وہ لوگ چلے گئے تو کچھ دنوں کے بعد آپ پر وحی نازل ہوئی آپ نے ان کو بلا بھیجا اور ان پر یہ آیت پڑھی (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ دس آیتوں کے آخر تک۔ 13:۔ ابوالشیخ نے ابو حمزہ سعید (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے اس کو یوں پڑھا (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج وعمارۃ المسجد الحرام “۔ 14:۔ ابوالشیخ نے حسن ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ کے بارے میں فرمایا کہ انہوں نے پانی پلانے والوں اور دربانی کرنے والوں کو بلانے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان کو نہ بلاؤ کہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔ 15:۔ ابن ابی شیبہ وابوالشیخ نے عبداللہ بن سائب (رح) سے روایت کیا کہ عباس ؓ کی سبیل سے پانی پیتا ہوں کیونکہ یہ سنت میں سے ہے اور ابن ابی شیبہ سے الفاظ یوں ہیں کیونکہ یہ حج کے پورا کرنے میں سے ہے۔ 16:۔ بخاری والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ سبیل کے پاس تشریف لائے اور پانی مانگا عباس ؓ نے فرمایا اے فضل اپنی ماں کی طرف جا اور رسول اللہ ﷺ کے لئے اس سے پانی لے آؤ آپ نے فرمایا مجھے پلاؤ عباس ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ اپنے ہاتھ اس میں پاتے رہتے ہیں (اس لئے آپ کو یہاں سے پانی نہیں دے رہا) آپ نے فرمایا مجھ کو (یہاں سے) پلاؤ تو آپ نے اس میں سے پیا پھر آب زمزم کے چشمے کے پاس تشریف لے گئے اور وہ (لوگوں کو) پلاتے رہے تھے اور اس میں کام کررہے تھے آپ نے فرمایا کام کرتے رہو کیونکہ تم نیک کام پر ہو۔ اگر تم غالب نہ آئے تو میں اتروں گا یہاں تک کہ اس پر رسی رکھ دوں گا۔ اور آپ نے اپنے کندھے کی طرف اشارہ فرمایا۔ 17:۔ احمد نے ابو مخذورہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اذان کو ہمارے لئے اور ہمارے موالی کے لئے مقرر کردیا اور پانی پلانے کو بنوہاشم کے لئے مقرر کردیا اور زریانی بنو عبدالدار کے لئے مقرر کردی۔ 18۔ ابن سعد نے علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عباس ؓ سے کہا ہمارے لئے رسول اللہ ﷺ سے سوال کرو کیا ہم آپ کے پاس ایسا پانی لائیں جس کو ہاتھوں نے نہیں چھوا تو انہوں نے کہا کیوں نہیں پس انہوں نے مجھے سیراب کیا تو انہوں نے آپ کو پلایا پھر آب زمزم کے پاس تشریف لائے اور فرمایا میرے لئے اس میں سے ایک ڈول نکالو انہوں نے اس میں سے ایک ڈول نکالا آپ نے اس میں کلی فرمائی پھر وہ پانی اس میں پھینک دیا پھر فرمایا تم دوبارہ نکالو۔ پھر فرمایا بلاشبہ نیک عمل پر ہو پھر فرمایا اگر تم اس پر غالب نہ آگئے تو میں اس پر اتروں گا اور تمہارے ساتھ ڈول نکالوں گا۔ 19:۔ ابن سعد نے جعفر بن تمام (رح) سے روایت کیا کہ (ایک آدمی) عباس ؓ کے پاس آیا اور کہا تم بتاؤ کہ تمہارا اس کشمش کی نبیذ کے بارے میں کیا خیال ہے جو تم لوگوں کو پلاتے ہو آیا تم اس کو سنت سمجھتے ہو یا اس لئے کہ تم اسے دودھ اور شہد کے مقابلے میں آسانی سے پاتے ہو ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ عباس ؓ کے پاس تشریف لائے اور وہ لوگوں کو پانی پلا رہے تھے آپ نے فرمایا مجھ کو پلاؤ عباس ؓ نے ہلکی سی نبیذ منگوائی اور وہ رسول اللہ ﷺ کو دے دی آپ نے اس میں سے تھوڑی سی لے کر پی لی۔ پھر فرمایا تم نے اس طرح بہت اچھا کیا اسے کرتے رہو۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا میرے لئے دودھ اور شہد کی سبیل لگا نا رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد سے بڑھ کر خوشی کا باعث نہیں۔ کہ تم نے بہت اچھا کیا ایسا کرتے رہو۔ 20:۔ ابن سعد نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس کی سبیل سے پیو کہ یہ سنت ہے۔ 21:۔ ابن ابی حاتم وابو الشیخ نے عطاء (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) اجعلتم سقایۃ الحآج “ سے زمزم مراد ہے۔ 22:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں اور ازرقی نے تاریخ مکہ میں اور بیہقی نے دلائل میں زہری (رح) سے روایت کیا کہ سب سے پہلے جو رسول اللہ ﷺ کے دادا عبدالمطلب کے بارے میں یہ ذکر کیا گیا (وہ یہ تھی) کہ قریش حرم سے نکلے ہاتھی والوں سے بھاگتے ہوئے اور وہ ایک جوان لڑکے تھے پھر فرمایا اللہ کی قسم میں اللہ کے حرم سے نہیں نکلوں گا کہ حرم کے علاوہ کسی غیر سے عزت اور قوت کو طلب کروں چناچہ آپ بیت اللہ کے پاس بیٹھ گئے اور قریش مجھ سے ہٹ گئے تو اس وقت آپ نے کہا۔ اللہم ان المری یمتح مرحلۃ فاتنع رحالک لا تعلبتن صلیبتہم وصلالہم عدومحالک ترجمہ : اے اللہ ہر شخص سواری کی حفاظت کرتا ہے تو اپنے گھر سے دشمن کو روک دے ان کی صلیب اور ان کی گمراہی تیرے گھر پر غالب نہ ہونے پائے۔ پس آپ برابر حرم میں بیٹھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھیوں اور ہاتھی والوں کو ہلاک کردیا پھر ترکش لوٹ آئے اور ان میں آپ کے اعلی صبر اور محارم اللہ کی تعظیم و تکریم کے باعث آپ کا مقام اور رتبہ بہت بڑھ گیا۔ آپ اسی حال میں تھے کہ آپ کا بڑا بیٹا پیدا ہوا یعنی حارث بن عبدالمطلب اور آپ نے اس کی جوانی کو پالیا عبدالمطلب نے خواب میں دیکھا کہ اس سے کہا گیا کہ زمزم کو دکھودوشیخ اعظم کا چھپا ہوا وہ بیدار ہوئے تو فرمایا اے اللہ میرے لئے ظاہر کردیجئے پھر دوسری مرتبہ کوئی خواب میں آیا اور آپ سے کہا گیا میں نے تمہارے لئے گڑھا کھوددیا ہے گوبر اور خون کے درمیان کوے کے کریدنے کی جگہ میں چینٹیوں کی بلوں میں گدھوں کے باندھنے کی جگہ میں سامنے عبدالمطلب کھڑے ہوئے اور چل دیئے یہاں تک کہ مسجد حرام میں بیٹھ گئے انتظار کررہے تھے مقررہ کردہ نشانیوں کے ظہور کا (کیا دیکھتے ہیں) (کہ ایک گائے ذبح کرنے کے لئے لائی گئی اور وہ گائے اپنے قصائی کے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور اپنے آپ کو بچانے کے لئے بھاگتی رہی یہاں تک کہ اس پر موت غالب آگئی مسجد میں احرام کی جگہ میں اس گائے کو اس کی جگہ پر ذبح کیا گیا یہاں تک کہ اس کا گوشت اٹھا لیا گیا ایک کوا آیا اور اس کے گوبر کے اوپر آگئی اور اس نے چینٹیوں کی بل کو کھودا یہ دیکھ کر عبدالمطلب کھڑے ہوئے اور وہاں گڑھا کھودنے لگے قریش آئے اور عبدالمطلب سے کہا یہ کیا کام ہے۔ ہم تجھ کو جہالت کے ساتھ تہمت نہیں لگاتے ہمارے مسجد میں گڑھا نہ کھودو عبدالمطلب نے فرمایا میں یہ کنواں کھود رہا ہوں اور کون مجاہد ہے جو اس سے مجھے روکے چناچہ اپنے بیٹے حارث کو لے کر کھودنا شروع ہوگئے ان دنوں ان کے علاوہ (یعنی حارث کے علاوہ) کوئی ان کا لڑکا نہیں تھا تو قریش میں سے کچھ لوگوں نے اس دن ان کو بیوقوف بنایا ان سے جھگڑا کیا اور ان سے لڑائی کی اور قریش میں سے کچھ لوگوں نے روکنے کی کوشش کی جبکہ وہ جانتے تھے آپ کے نسبت کی آزادی اور سچائی اور ان کے دین کے بارے میں آپ کی محنت اور کوشش کو یہاں تک کہ آپ نے کھدائی ممکن بنالی تو ان کو سخت تکلیف پہنچی اور آپ نے نذر مانی کہ اگر میرے دس بچے پورے ہوگئے تو ان میں سے ایک قربان کروں گا پھر انہوں نے گڑھا کھودا تو ان تلواروں کو پایا جو زمزم میں دفن کی گئی تھیں جب قریش نے دیکھا کہ انہوں نے تلوار کو پالیا تو قریش نے کہا اے عبدالمطلب جو کچھ آپ نے پایا اس میں سے ہم کو بھی دیجئے عبدالمطلب نے کہا یہ تلواریں اللہ کے گھر کی ہیں پھر انہوں نے (مزید) کھودا تو مٹی سے پانی نکلنے لگا اور چشمہ ابلنے لگا کہ سارا پانی نہیں نکالا جاسکتا تھا تو اس پر حوض بنادیا وہ اور ان کا بیٹا پانی کھینچتے رہے یہاں تک کہ اس حوض کو بھردیا اور حاجی اس سے پانی پیتے تھے مگر (حوض کو) قریش میں سے کچھ لوگ حسد کرتے ہوئے اسے توڑ دیتے تھے عبدالمطلب اس کو ٹھیک کردیتے تھے صبح کے وقت۔ جب فساد زیادہ ہوا تو عبدالمطلب نے اپنے رب کو پکارا نیند میں دیکھا کہ ان سے کہا گیا یوں کہو اے اللہ میں اس پانی کو غسل کرنے والے کے لئے حلال قرار نہیں دیتا البتہ پینے والوں کے لئے حلال ہے اور شفا ہے میں کافی ہوں عبدالمطلب کھڑے ہوئے جب قریش نے مسجد میں اختلاف کیا آپ نے ان کلمات سے د عا مانگی جو خواب میں دیکھتے تھے واپس لوٹ آئے پھر قریش میں جس کسی نے بھی آپ کا حوض خراب کرنے کی کوشش کی اس کا جسم بیمار ہوجاتا یہاں تک کہ وہ اس کے حوض کو اور اس کے پانی پینے کی جگہ کو چھوڑ گئے پھر عبدالمطلب نے کئی عورتوں سے نکاح کیا (ان میں سے) دس بچے پیدا ہوئے تو انہوں نے فرمایا اے اللہ میں نے تیرے لئے نذر مانی تھی کہ ان میں سے ایک کو قربان کردوں گا اور میں ان کے درمیان قرع ڈالتا ہوں اور تو جس کو چاہے گا اس کو یہ (نذر) پہنچے گی۔ پھر ان کے درمیان قرع ڈالا تو حضرت عبداللہ کے نام پر قرعہ نکلا اور یہ ان کی طرف سب سے محبوب لڑکے تھے تو عبدالمطلب نے عرض کیا اے اللہ تیرے نزدیک عبداللہ زیادہ محبوب ہے یا میں سو اونٹ ذبح کروں ؟ پھر انہوں نے اس لڑکے اور سو اونٹوں کے درمیان قرعہ ڈالا تو قرعہ سواونٹوں کے حق میں نکلا تو عبدالمطلب نے ان کو ذبح کردیا اور اپنی نذر پوری کی۔ زمزم کا کنواں نمودار ہوا : 23:۔ امام ازرقی اور امام بیہقی نے دلائل میں علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ عبدالمطلب نے کہا میں مقام حجر میں سو رہا تھا اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا اور کہا پاکیزہ کو کھودو میں نے کہا وہ پاکیزہ کیا ہے تو وہ مجھ سے چلا گیا کل میں پھر میں اپنے بستر کی طرف لوٹا اور اس میں سوگیا وہ پھر میرے پاس آیا اور کہا زمزم کو کھودو میں نے کہا زمزم کیا ہے ؟ اس نے کہا اس کا سارا پانی نکالا جاسکے گا اور نہ اسے کم کیا جاسکے گا اور قرۃ النمل کے پاس حاجیوں کا بڑا گروہ اس سے سیراب ہوگیا۔ عبدالمطلب نے کہا جب اس کی کنیت آپ پر ظاہر ہوگئی او اس نے اس کی جگہ کی بھی نشان دہی کردی اور آپ نے بھی جان لیا کہ اس نے سچ کہا ہے تو صبح کو کدال لے کر چلے اور ان کے ساتھ ان کا بیٹا حارث بھی تھا اس دن اس کے علاوہ ان کا کوئی اور بیٹا نہ تھا انہوں نے اسے کھودنا شروع کیا جب عبدالمطلب کے لئے کنواں ظاہر ہوا تو انہوں نے اللہ اکبر کہا قریش سمجھ گئے کہ انہوں نے اپنی حاجت کو پالیا تو ان کے طرف گئے اور کہا اے عبدالمطلب یہ اسماعیل (علیہ السلام) کا کنواں ہے اور اس میں ہمارا حق بھی ہے ہم کو اس میں اپنے ساتھ شریک کر۔ عبدالمطلب نے فرمایا میں ایسا نہیں کروں گا بلاشبہ اس کام کے لئے مجھ کو خاص کیا گیا تمہارے علاوہ اور تم میں سے یہ مجھ کو عطا کیا گیا انہوں نے کہا ہم کو آدھا دیدے ورنہ تجھ کو نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ ہم تمہارے ساتھ جھگڑا کریں گے۔ عبدالمطلب نے فرمایا جو تم چاہو میرے اور اپنے درمیان کرلو میں بھی تم کو تمہارے ساتھ محاکمہ کروں گا انہوں نے کہا سعد بذیل میں ایک کاہن ہے کہا ہاں ٹھیک ہے اور وہ شام کے اسراف اور معززین میں سے تھی عبدالمطلب سوار ہوگئے اور ان کے ساتھ بنو عبدمناف کی ایک جماعت بھی تھی اور قریش میں سے بھی ایک جماعت سوار ہوئی راستے کی زمین پانی پانی بھی نہ تھا۔ یہ لوگ نکلے یہاں تک کہ جب حجاز اور شام کے درمیان ایک صحرا تھا عبدالمطلب اور اس کے ساتھیوں کا پانی ختم ہوگیا وہ پیاسے ہوگئے یہاں تک کہ انہوں نے ہلاکت کا یقین کرلیا انہوں نے قریش قبائل سے پانی مانگا جو ان کے ساتھ تھے انہوں نے انکار کردیا اور کہا کہ ہم صحرا میں ہیں ہم اپنی جانوں پر ڈرتے ہیں اس تکلیف سے جو تم کو پہنچی۔ عبدالمطلب نے جب یہ معاملہ دیکھا جو قوم نے کیا اور وہ ڈر رکھتے تھے اپنی ذات اور اپنے ساتھیوں پر تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تمہاری کیا رائے ہے انہوں نے کہا ہماری کوئی رائے نہیں مگر ہم تیری رائے کے تابع ہے ہم کو حکم کر جو تو چاہے عبدالمطلب نے کہا میری رائے یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک گھڑا کھودے کیونکہ ابھی تم میں طاقت موجود ہے کہ کوئی آدمی مرے گا تو اس کے ساتھ اس کو اس کے گڑھے میں دفن کردیں گے پھر اس کو چھپا دیں گے یہاں تک کہ جب تم میں سے آخری آدمی ہوگا۔ تو ایک آدمی کا ضائع ہونا پوری جماعت کو ضائع کرنے سے آسان ہے انہوں نے کہا ہم نے سن لیا جو تو نے ارادہ کیا ان میں سے ہر آدمی کھڑا ہوا تو اپنا گڑھا کھودنے لگا پھر وہ بیٹھ گئے اور پیاس کی وجہ سے موت کا انتظار کرنے لگے پھر عبدالمطلب نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا اللہ کی قسم اس طرح اپنے ہاتھوں سے ہی اپنے آپ کو گڑھوں میں پھینک دینا اپنے لئے کوئی حیلہ تلاش کرنے سے عجز کا اظہار ہے۔ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم کو پانی عطا فرما دیں گے بعض شہروں میں یہاں سے چلو وہ لوگ سواریوں پر سوار ہو کر چلے اور اس کے ساتھ جو قریش تھے وہ ان کے سب اعمال بغور دیکھ رہے تھے عبدالمطلب اپنی سواری کی طرف کھڑے ہوئے اور اس پر سوار ہوگئے جب سواری اٹھی تو اس کے کھر کے نیچے سے میٹھے پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ عبدالمطلب اور اس کے ساتھیوں نے اللہ اکبر کہا پھر عبدالمطلب نیچے اترے اور پانی پیا ان کے ساتھیوں نے بھی اور جانوروں کو پلایا یہاں تک کہ اپنے مشکیزوں کو بھی بھر لیا پھر انہوں نے قریش کے قبائل کو بلایا جو ان کے ساتھ تھے اور کہا آجاؤ پانی کی طرف ہم کو اللہ تعالیٰ نے پلایا ہے لہذا تم بھی پیو اور اپنے مشکیزے بھرو قبائل نے کہا جو ان سے جھگڑا کررہے تھے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے تیرے حق میں فیصلہ فرما دیا ہے ہمارے خلاف اللہ کی قسم ہم تجھ سے زمزم کے بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے تو لوٹ جا اپنے حوض کی طرف ہدایت کا ارادہ کرتے ہوئے عبدالمطلب لوٹ آئے اور جو لوگ ان کے ساتھ تھے وہ بھی لوٹ آئے اور کاہنہ کی طرف نہ پہنچے اور وہ زمزم اور آپ کے درمیان سے ایک طرف ہوگئے۔ 24:۔ ابن ابی شیبہ واحمد وابن ماجہ وعمر بن شیبہ والفاکہانی نے تاریخ مکہ میں اور طبرانی نے الاوسط میں وابن عدی اور بیہقی نے اپنی سند میں ابو الزبیر کے راستے پر جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ زمزم کا پانی ہر اس چیز کے لئے مفید ہے جس کے لئے وہ پایا جائے۔ زمزم کا پانی ہر بیماری کے لئے شفا ہے : 25:۔ مستغفری نے طب میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمزم کا پانی اس سے حاصل ہوگا جس نے کسی بیماری کے لئے پیا تو اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا فرمادیں گے۔ 26:۔ دینوری نے المجالسۃ میں حمیدی (رح) سے روایت کیا اور وہ بخاری (رح) کے شیخ تھے کہ ہم ابن عیینہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ہم کو ایک حدیث بیان فرمائی کہ زمزم کا پانی اسی مقصد کے لئے ہے جس کے لئے پیا جائے ایک آدمی مجلس میں سے اٹھا پھر لوٹآیا اور کہا اے ابو محمد یہ حدیث جو آپ نے ہم کو بیان کی ہے زمزم کے بارے میں صحیح نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کیوں نہیں تو اس آدمی نے کہا کہ میں نے زمزم میں سے ایک ڈول ابھی پیا ہے اس نیت سے تاکہ آپ سو حدیثیں مجھے بیان کرو گے سفیان نے فرمایا بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا تو انہوں نے اس کو سو حدیثیں سنا دیں۔ 27:۔ فاکہانی نے تاریخ مکہ میں عباد ؓ بن عبداللہ ؓ بن زبیر ؓ سے روایت کیا کہ معاویہ ؓ نے حج کیا اور ہم نے بھی ان کے ساتھ حج کیا جب انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا تو مقام ابراہیم پر دو کعت پڑھیں پھر زمزم کے پاس سے گزرے اور آپ صفا کی جانب باہر جا رہے تھے فرمایا اے لڑکے ! میرے لئے اس میں ایک ڈول کھینچو تو اس نے ان کے لئے ایک ڈول کھینچا انہوں نے پیا اور اپنے چہرہ پر بھی ڈالا اور وہ یہ فرماتے ہوئے باہر چلے گئے کہ زمزم کا پانی اس مقصد کے لئے مفید ہے جس کے لئے وہ پیا جائے۔ 28:۔ بیہقی نے شعب الایمان میں عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمزم کا پانی اس مقصد کے لئے مفید ہے جس کے لئے پیا جائے۔ 29:۔ حافظ ابو الولید بن الدباغ نے اپنی فوائد میں اور البیہقی اور خطیب نے اپنی تاریخ میں سوید بن سعید (رح) سے روایت کیا کہ میں نے ابن مبارک (رح) کو دیکھا وہ زمزم پر تشریف لائے ایک برتن کو بھرا پھر قبلہ رخ ہوگئے اور فرمایا اے اللہ میں ابو الموالی کا بیٹا ہوں ابن المنکدر نے حضرت جابر ؓ سے ہم کو بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زمزم کا پانی اسی مقصد کے لئے ہے جس کے لئے پیا جائے اور میں اس کو قیامت کے دن کی پیاس (بجھانے) کے لئے پی رہا ہوں پھر آپ نے اس کو پی لیا۔ 30:۔ حکیم ترمذی نے ابو الزبیر کے راستے سے جابر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمزم کا پانی اسی مقصد کے لئے ہے جس کے لئے پیاجائے حکیم نے کہا کہ مجھے میرے رب نے بیان فرمایا کہ میں اندھیری راتوں میں طواف میں داخل ہوا مجھے پیشاب کی شدید حاجت ہوئی میں سکڑنے لگا یہاں تک کہ اس نے مجھے تنگ کردیا اور میں ڈرا اگر میں مسجد سے نکلا تو میں کسی گندگی میں جاگروں گا کیونکہ وہ حج کے ایام تھے میں نے اس حدیث کو یاد کیا اور زمزم میں داخل ہوگیا اور خوب سیر ہو کر پانی پیا (اس کی برکت سے) مجھ سے صبح تک (یہ تکلیف) جاتی رہی۔ زمزم بہترین پانی ہے : 31:۔ طبرانی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمین کی سطح پر بہترین پانی زمزم ہے۔ اس میں کھانا ہے کھانے میں سے اور شفا ہے بیماری سے۔ 32:۔ ابن ابی شیبہ والفاکہانی اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمزم بہترین پانی ہے جس کا علم ہوتا ہے اور ( بہترین) کھانا ہے جس کو کھایا جاتا ہے (اور) شفا ہے بیماری سے ) 33:۔ ترمذی اور حاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے شعب میں عائشہ ؓ سے روایت کیا کہ آپ بوتلوں میں زمزم کا پانی اٹھائے رکھتی تھیں اور یہ فرماتیں کہ رسول اللہ ﷺ بھی اس طرح کرتے (یعنی برتن میں پانی اٹھایا) اور آپ مریضوں پر انڈیلتے اور ان کو پلاتے تھے۔ 34:۔ دیلمی نے مسند الفردوس میں صفیہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ زمزم کا پانی ہر بیماری سے شفا ہے۔ 35:۔ دارقطنی اور حاکم نے اور آپ نے اسکو صحیح کہا مجاہد کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ زمزم کا پانی اسی مقصد کے لئے مفید ہے جس کے لئے پیاجائے۔ اگر تو نے اس کو پیا کہ اس سے شفا حاصل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو شفا دیں گے اور اگر تو نے اس کو پیا پناہ کو طلب کرتے ہوئے تو اللہ تعالیٰ تجھ کو پناہ دیں گے اور اگر تو نے اس کو پیا کہ تیری پیاس ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کو ختم کردیں گے اور اگر تو نے اس کو پیا کہ تیرا پیٹ بھر جائے تو اللہ تعالیٰ تیرے پیٹ کو بھر دیں گے یہ جبرئیل (علیہ السلام) کی عزیمیت ہے اور اسماعیل (علیہ السلام) کی سبیل ہے۔ راوی نے کہا کہ ابن عباس ؓ جب زمزم کا پانی پیتے تھے تو یہ دعا کرتے تھے اے اللہ میں آپ سے علم نافع اور رزق واسع اور ہر بیماری سے شفا کا سوال کرتا ہوں۔ 36:۔ عبدالرزاق وابن ماجد والطبرانی والدارقبطی والحاکم اور آپ نے اس کو صحیح کہا اور بیہقی نے اپنی سنن میں عثمان بن اسود (رح) سے روایت کیا کہ ایک آدمی ابن عباس ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے پوچھا تو کہاں سے آیا ہے۔ اس نے کہا مجھے زمزم پینا ہے۔ فرمایا اس میں سے اس طرح پی جس طرح اسے پینا چاہئے۔ اس نے پوچھا اے ابن عباس ؓ یہ کس طرح ہے ؟ فرمایا جب تو اس میں سے پیئے تو قبلہ رخ ہوجا اور اللہ کا نام لے ( یعنی بسم اللہ پڑھے) اور تین سانس میں پی اور اس میں سے خوب سیر ہو کر پی جب تو فارغ ہو تو اللہ کی حمد بیان کر کیونکر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ منافقین اور ہمارے درمیانیہ نشانی ہے کہ وہ زمزم سے سیر نہیں ہوتے۔ 37:۔ ازرقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ زمزم کے چبوترہ پر تھے آپ نے ایک ڈول کا حکم فرمایا پھر آپ کے لئے کنویں میں ایک ڈول نکالا اور اس کنویں کے کنارہ پر رکھ دیا پھر آپ نے اپنے ہاتھ مبارک کو ڈول کے نیچے کی جانب رکھا پھر فرمایا بسم اللہ پھر اس میں سے ایک گھونٹ پیا اور وہ دوسرے کی نسبت تھوڑا کم تھا۔ پھر اس نے سرمبارک اٹھایا اور فرمایا الحمد اللہ پھر رسول اللہ نے فرمایا ہمارے اور منافقین کے درمیان یہ نشانی ہے کہ انہوں نے اس میں سے کبھی بھی خوب سیر ہو کر نہیں پیا۔ 38:۔ ازرقی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا زمزم کے پانی سے اپنی پسلیوں کو بھرنا نفاق سے بری ہونا ہے۔ 39:۔ ازرقی نے انصار میں سے ایک آدمی سے روایت کیا کہ وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہماری اور منافقین کے درمیان یہ نشانی ہے کہ ہم زمزم کے پانی سے ڈول بھرتے ہیں اور اس میں سے خوب سیر ہو کر پیتے تھے منافق کبھی اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اس میں سے سیر ہو کر پیئے۔ 40:۔ ازرقی نے ضحاک بن مزاھم (رح) سے روایت کیا کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ زمزم کے پانی سے پسلیوں کو بھرنا نفاق سے بری اور عنقریب اس پر ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ نیل اور فرات سے زیادہ میٹھا ہوگا۔ 41:۔ ابن ابی شیبہ والا زرقی والفاکہانی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ میں نے اللہ کی نازل کردہ کتاب میں پایا ہے کہ زمزم کھایا گیا خوش ذائقہ کھانا ہے اور بیماری کے لئے شفا ہے۔ 42:۔ عبدالرزاق و سعید بن منصور والا زرقی نے عبداللہ بن عثمان بن خیثم (رح) سے روایت کیا کہ ہمارے پاس وھب بن منبہ مکہ سے تشریف لائے ان کو تکلیف ہوگئی ہم ان کو مزاج پرسی کے لئے آئے تو ان کے پاس زمزم کا پانی تھا۔ ہم نے کہا آپ اس کو میٹھا بنا لیتے کیونکہ اس پانی میں گاڑھا پن ہے فرمایا میں اس کو پینے کا ارادہ نہیں رکھتا یہاں تک کہ میں غیر کو اس سے نکال دوں اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں وہب کی جان ہے بلاشبہ یہ اللہ کی کتاب میں ہے (کہ یہ وہ پانی ہے) کہ اس سے بخل کیا گیا۔ اور بلاشبہ یہ اللہ کی کتاب میں ہے کہ یہ خوش ذائقہ کھانا ہے اور شفا ہے بیماری کے لئے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ جو کوئی اس کی طرف ارادہ کرتا ہے اور اس میں سے اتنا پیتا ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں بھر جاتی ہیں مگر یہ کہ بیماری نکال دیتا ہے اور اسے بیماری کے لئے شفابنایا جاتا ہے۔ 43:۔ ازرقی نے کعب ؓ سے روایت کیا کہ البتہ ہم زمزم کو قضونہ پاتے ہیں کیونکہ اسکے ذریعہ تمہارے لئے نجیلی کی گئی سب سے پہلے اس کا پانی اسماعیل نے پیا یہ خوش ذائقہ کھانا ہے اور شفا ہے بیماری سے۔ 44:۔ عبدالرزاق نے مصنف میں و سعید بن منصور والا زرقی والحکیم الترمذی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ زمزم کا پانی ہر مقصد کے لئے ہے جس کے لئے پیا جائے اگر تو نے اس کو شفا کے ارادہ سے پیا تو اللہ تعالیٰ تجھ کو شفا دیں گے اور اگر تو نے اس کو پیاس کے لئے پیا تو اللہ تعالیٰ تیری پیاس کو دور کردیں گے اور اگر تو نے اس کو بھوک کے لئے پیا تو اللہ تعالیٰ تیرا پیٹ بھردیں گے یہ گڑھا ہے جبرئیل (علیہ السلام) کی ایڑی کے سبب سے اور ایک سبیل ہے اللہ کی طرف سے اسماعیل (علیہ السلام) کے لئے۔ 45:۔ بیہقی نے علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ لوگوں میں بہترین وادی ہے وادی مکہ اور وادی ہند ہے جس میں آدم اترے اور اس میں سے یہ خوشبو لائی جاتی ہے جس سے تم خوشبو لگاتے ہو اور لوگوں کی سب سے بڑی وادی وادی احقاف ہے اور وادی حضرموت ہے جس کو برہوت کہا جاتا ہے اور لوگوں میں سب سے بہترین کنواں زمزم کا کنواں ہے۔ اور لوگوں میں سب سے براکنواں برھوت کا کنواں ہے اور اسی کی طرف کافروں کی روحیں جمع کی جاتی ہیں۔ 46:۔ ازرقی نے عطاء کے راستے سے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اخیار کی نماز پڑھنے کی جگہ میں نماز پڑھو اور نیک لوگوں کی شراب میں سے پیؤ۔ ابن عباس سے پوچھا گیا اخیار کا مصلی کون سی جگہ ہے۔ فرمایا (بیت اللہ کے) پرنالے کے نیچے پوچھا گیا نیک لوگوں کی شراب کیا ہے ؟ فرمایا زمزم کا پانی۔ 47:۔ ازرقی نے ابن جریح (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے سنا کہ یہ کہا جاتا ہے زمین میں بہترین پانی زمزم کا پانی ہے اور زمین میں برا پانی برھوت کا پانی ہے جو حضرموت کی گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی میں ہے۔ 48:۔ ازرقی نے کعب احبار ؓ سے روایت کیا کہ ایلیا اور زمزم البتہ دونوں متعارف ہیں۔ 49:۔ ازرقی نے عکرمہ بن خالد (رح) سے روایت کیا کہ اس درمیان آدھی رات کو زمزم کے پاس میں بیٹھا ہوا تھا اچانک ایک جماعت طواف کررہی تھی سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے ان کے کپڑوں کی سفیدی میں نے کبھی نہیں دیکھی جب وہ فارغ ہوئے تو انہوں نے ہمارے قریب نماز پڑھی ان کے بعض نے اپنے ساتھیوں کی طرف متوجہ ہو کر کہا ہمارے ساتھ چلو ہم نیک لوگوں کی شراب میں سے پئیں گے وہ کھڑے گے اور وہ کھڑے ہوئے اور زمزم میں داخل ہوگئے میں نے کہا اللہ کی قسم کاش میں قوم میں داخل ہوجاتا اور ان سے پوچھتا پھر میں کھڑا ہوا اور داخل ہوگیا تو ان میں ایک بھی بشر نہیں تھا۔ 50:۔ ازرقی نے عباس بن عبد المطلب ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ زمزم کے بارے میں بہت زیادہ رغبت رکھتے تھے یہاں تک کہ ایک کنبہ والا آدمی صبح کے وقت اپنے اہل و عیال کے ساتھآتا اور وہ لوگ پانی پیتے تو یہ ان کے لئے صبح کا کھانا ہوتا تھا اور ہم زمزم کو بچوں کے لئے مدد شمار کرتے تھے۔ 51:۔ ابن ابی شیبہ (رح) والا زرقی (رح) نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ زمانہ جاہلیت میں زمزم کو شبا عہ کہتے ہیں اور یہ گمان کیا جاتا کہ یہ عیال اور لوگوں کے لئے بہترین مدد ہے۔ 52:۔ طیالسی وبن ابی شیبہ واحمد و اسلم والا زرقی ولبزار وابوعدا نے اور بیہقی نے اپنی سنن میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں مکہ آیا تو مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تو کب سے یہاں ہے ؟ میں نے عرض کیا چودہ دونوں سے اور دوسرے الفاظ میں یوں ہے میں نے عرض کیا تیس رات سے فرمایا تجھ کو کون کھلاتا تھا میں نے عرض کیا سوائے زمزم کے میرے لئے نہ کھانا نہ پیتا تھا۔ میں نے اپنے جگر پر بھوک کی شدت کو نہیں پایا (میں نے اتنا زمزم پیا) کہ میرے پیٹ کی سلوٹیں ٹوننے لگیں آپ نے فرمایا بلاشبہ یہ متبرک ہے خوش ذائقہ کھانا ہے طیالسی نے زیادہ کیا اور وہ بیماری کے لئے شفا بھی ہے۔ 53:۔ ازرقی نے رباح بن اسود (رح) سے روایت کیا کہ میں اپنے گھروالوں کے ساتھ جنگل میں تھا (پھر) مجھے مکہ میں بیچ دیا گیا۔ پھر مجھے آزاد کردیا گیا میں نے تین دن ٹھہرا کھانے کی کسی چیز کو نہ پایا تو میں زمزم کا پانی پی لیتا تھا ایک دن میں نے پیا تو اچانک میں اپنے دانتوں کے درمیان سے دودھ گزرنے کا ذائقہ پایا۔ میں نے کہا شاید کہ میں سو رہا ہوں پھر میں چلا تو میں نے دودھ کی قوت کو پایا اور اس سے پیٹ کے بھرنے کو پایا۔ 54:۔ ازرقی نے عبد العزیز ابی روادرحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ وہ بکریاں چرایا کرتے تھے اور عبادت گزار بھی تھے جب اس کو پیاس لگتی تو وہ زمزم کے برتن میں دودھ کو پاتے اور جب وضو کرنے کا ارادہ کرتے تو اس میں پانی کو پاتے۔ 55:۔ ازرقی نے ضحاک بن مزاحم (رح) سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلے پانی کو اٹھالیں گے سوائے زمزم کے زمزم کے علاوہ (سب) پانی زمین میں اتر جائیں گے اور زمین باہر ڈال دے گی۔ اپنے اندر چھپائے ہوئے سونے اور چاندی اور ایک چمڑے کا تھیلا لے کر آئے گا جس میں سونا اور چاندی ہوگا اور کہے گا یہ مجھ سے کون قبول کرے گا وہ کہیں گے اگر تم ہمارے پاس کل آتا تو ہم اس کو قبول کرلیتے۔ زمزم وضو اور پینے کے لئے : 56ـ:۔ ازرقی نے زربن حبیش (رح) سے روایت کیا کہ میں نے عباس بن عبدالمطلب کو مسجد حرام میں دیکھا اور زمزم کے گرد چکر لگاتے ہوئے فرما رہے تھے میں اس کو کسی غسل کرنے والے کے لئے حلال نہیں کردوں گا اور یہ وضو کرنے والے اور پینے والے کے لئے حلال ہے اور شفا بھی ہے۔ 57ـ:۔ ازرقی نے ابن ابی حسین (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو کی طرف (ایک آدمی) کو بھیجا اور اس سے زمزم کے پانی کا ہدیہ طلب فرمایا تو انہوں نے آپ کی طرف دو مشکیزے بھیجے۔ 58:۔ عبدالرزاق والازرقی نے ابن ابی حسین سے جن کا نام عبداللہ بن ابی عبدالرحمن (رح) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمر و کی طرف لکھا اگر میرا خط تیرے پاس رات کو پہنچے تو ہرگز صبح نہ کرنا اور اگر تیرے پاس دن کو پہنچے تو ہزگز شام نہ کرنا یہاں تک کہ میرے پاس زمزم کا پانی بھیج دو تو انہوں نے آپ کے لئے دو مشکیزے بھر لئے اور ان دونوں کو اونٹ پر بھیج دیا۔ 59:۔ طبرانی نے الاوسط میں ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے سہیل بن عمرو سے زمزم کا پانی طلب فرمایا۔ 60:۔ ابن سعد نے ام ایمن ؓ سے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کبھی شکایت کرتے نہیں دیکھا یا بھوک اور پیاس کی شدت کی آپ زمزم کا پانی پی لیتے تھے جو آپ کو صبح کے وقت پیش کیا جاتا تھا آپ فرماتے میں اس کا ارادہ نہیں رکھتا کہ اس سے سیر شکم ہوجاوں۔ 61:۔ دارقطنی (رح) نے روایت بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا پانچ چیزیں عبادت میں سے ہیں۔ قرآن مجید کو دیکھنا اور کعبہ کی طرف نظر کرنا اور والدین کی طرف نظر کرنا۔ اور زمزم میں نظر کرنا تو یہ خطاوں کو گرا دیتا ہے اور عالم کے چہرے کی طرف دیکھنا۔ 62:۔ عبدالرزاق نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ جب زمزم پیتے تھے تو کہتے تھے یہ اسی مقصد کے لئے ہے جس کے لئے میں نے پیا ہے۔ 63:۔ سعید بن منصور نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ جو آدمی زمزم کا پانی پیتا ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں بھر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پیٹ سے بیماری کو دور کردیتے ہیں اور جو شخص اس کو پیاس کے لئے پیتا ہے تو وہ سیراب ہوجائے گا۔ اور جو شخص اس کو بھوک کے لئے پیتا ہے تو اس کا پیٹ بھر جائے گا۔ 64:۔ عبدالرزاق نے طاوس (رح) سے روایت کیا کہ زمزم کا پانی خوش ذائقہ کھانا ہے اور وہ بیماری کے لئے شفا بھی ہے۔ 65:۔ فاکہانی نے سعید بن ابی حلال ؓ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے انکو جاسوسی کے لئے مکہ بھیجا وہ وہاں کئی راتیں ٹھہرے اور زمزم کا پانی پیتے رہے جب وہ لوٹ کر آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھا تمہاری گذران کیسے رہی ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ زمزم کے پاس آتے تھے اور اس کے پانی سے پیتے تھے رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا کہ یہ بیماری سے شفا ہے اور کھانا ہے خوش ذائقہ۔ 66ـ:۔ ابو نعیم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ جب کسی آدمی کو تحفہ دینے کا ارادہ فرماتے تو اس کو زمزم کا پانی پلاتے۔ 67ـ:۔ فاکہانی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ ابن عباس ؓ کے پاس جب کوئی مہمان آتا تو اس کو زمزم کے پانی کا تحفہ دیتے اور آپ نے کسی قوم کو کھانا نہیں کھایا مگر اس کو زمزم کے پانی سے پلایا۔ 68:۔ ابوذر الہروی نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ مکہ والوں سے اگر کوئی آگے بڑھنے میں مقابلہ کرتا تو یہ لوگ اس سے آگے بڑھ جاتے اگر کوئی ان کو پچھاڑنے کی کوشش کرتا تو وہ اس کو پچھاڑ دیتے یہاں تک کہ وہ زمزم کے پانی سے بےرغبت ہوگئے۔ 69:۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ وہ لوگ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ جب وہ بیت اللہ کو الوداع کہیں تو زمزم کے پاس آئیں اور اس میں سے خوب پیئیں۔ 70:۔ سلفی نے طیور یات میں ابن حبیب (رح) سے روایت کیا کہ زمزم نیک لوگوں کا مشروب ہے اور حجر اسود اخیار کا مصلی (یعنی نماز کی جگہ ہے )
Top