Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 19
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ
اَجَعَلْتُمْ : کیا تم نے بنایا (ٹھہرایا) سِقَايَةَ : پانی پلانا الْحَآجِّ : حاجی (جمع) وَعِمَارَةَ : اور آباد کرنا الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام كَمَنْ : اس کے مانند اٰمَنَ : ایمان لایا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَجٰهَدَ : اور اس نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰه : اللہ کی راہ لَا يَسْتَوٗنَ : وہ برابر نہیں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے ؟ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
(19) یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی جسے بدر کے دن قید کرلیا گیا تھا اس نے حضرت علی ؓ یا بدرین میں سے کسی پر فخریہ یہ اظہار کیا کہ ہم حاجیوں کو پانی پلاتے ہیں اور مسجد حرام کو آباد کرتے ہیں اور فلاں فلاں کام کرتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم نے حجاج کو پانی پلانے کو اس شخص یعنی بدری کے عمل کے برابر قرار دے لیا جو کہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لایا ہو اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہو، یہ اعمال ثواب اور (وہ حضرات) اطاعت خداوندی میں برابر نہیں ہوسکتے اور اللہ تعالیٰ مشرکوں کو جو کہ بذات خود اس کے اہل نہیں ہوتے اپنے دین کی سمجھ نہیں دیتا۔ شان نزول : (آیت) ”اجعلتم سقایۃ الحاج“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے علی بن ابی طلحہ ؓ کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت عباس ؓ غزوہ بدر کے دن جب قید کرلیے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تم لوگ ہم سے اسلام ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنا پر سبقت لے گئے ہو تو ہم بھی مسجد حرام کی خدمت کرتے ہیں اور حجاج کو پانی پلاتے اور غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حضرت امام مسلم ؒ ابن حبان ؒ اور ابوداؤد ؒ نے نعمان بن بشیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں صحابہ کرام ؓ کی کچھ جماعت میں رسول اکرم ﷺ کے منبر کے پاس تھا تو ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اسلام کے بعد اگر صرف میں حاجیوں کو پانی پلاتا رہوں اور کوئی بڑی نیکی نہ کروں تو میرے لیے یہی کافی ہے، دوسرا کہنے لگا نہیں بلکہ مسجد حرام کی خدمت بڑی نیکی ہے اور تیسرے صاحب کہنے لگے کہ جن نیکیوں کا تم نے ذکر کیا ہے ان سب سے بڑھ کر نیکی جہاد فی سبیل اللہ ہے، حضرت عمر ؓ نے ان سب کو ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اکرم ﷺ کے منبر کے قریب آوازیں مت اونچی کرو اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ہے۔ لیکن جب میں جمعۃ المبارک کی نماز پڑھ چکا تو میں رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جن باتوں میں ہمارے درمیان اختلاف ہورہا تھا ان کے متعلق آپ ﷺ سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی ؓ سے دریافت کیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور فریابی نے علامہ ابن سیرین سے روایت کیا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ مکہ مکرمہ آئے تو حضرت عباس ؓ سے فرمایا اے چچا آپ ہجرت کیوں نہیں کرتے اور رسول اکرم ﷺ کے پاس کیوں نہیں آجاتے، اس پر حضرت عباس ؓ نے فرمایا کیا آپ مسجد آباد کرتے ہیں اور بیت اللہ کی نگرانی کرتے ہیں چناچہ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور ایک قوم سے کہا کہ تم لوگ ہجرت کیوں نہیں کرلیتے اور رسول اکرم ﷺ کے پاس کیوں نہیں آجاتے وہ کہنے لگے ہم اپنے بھائیوں قبیلوں اور گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اخیر تک یہ آیات نازل فرمائیں ، (آیت) ”قل ان کان ابآؤکم“۔ (الخ) اور عبدالرزاق نے شعبی سے اسی طرح روایت کیا ہے اور ابن جریر ؒ نے محمد بن کعب قرظی سے روایت کیا ہے کہ طلحہ بن شیبہ اور حضرت عباس ؓ اور علی بن ابی طالب نے آپس میں فخر کیا طلحہ کہنے لگا میں بیت اللہ والا ہوں، میرے پاس بیت اللہ کی چابی ہے، حضرت عباس ؓ بولے میں صاحب سقایہ اور اس کا نگران ہوں، حضرت علی ؓ نے فرمایا میں نے لوگوں سے پہلے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہوں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ تمام آیات نازل فرمائیں۔
Top