Tafseer-e-Baghwi - At-Tawba : 19
اَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰهَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ؕ لَا یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۘ
اَجَعَلْتُمْ : کیا تم نے بنایا (ٹھہرایا) سِقَايَةَ : پانی پلانا الْحَآجِّ : حاجی (جمع) وَعِمَارَةَ : اور آباد کرنا الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام كَمَنْ : اس کے مانند اٰمَنَ : ایمان لایا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَجٰهَدَ : اور اس نے جہاد کیا فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰه : اللہ کی راہ لَا يَسْتَوٗنَ : وہ برابر نہیں عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ : لوگ الظّٰلِمِيْنَ : ظالم (جمع)
کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد محترم (یعنی خانہ کعبہ) کو آباد کرنا اس شخص کے اعمال جیسا خیال کیا ہے جو خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔ اور خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے ؟ یہ لوگ خدا کے نزدیک برابر نہیں ہیں۔ اور خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
(آیت 19) آیت کا شان نزول تفسیر 19” اجعلتم سقایۃ الحاج “ نعمان بن بشیر ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس تھا کہ ایک شخص نے کہا کہ حاجیوں کو پانی پلانے کے بعد مجھے یہ پرواہ نہیں کہ میں کوئی عمل نہ کروں اور دوسرے نے کہا کہ مجھے پرواہ نہیں کہ کوئی عمل نہ کروں مسجد حرام کی تعمیر کے بعد اور تیسرے نے کہا کہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنا ان دونوں عملوں سے افضل ہے جو تم نے کہے تو حضرت عمر ؓ نے ان کو ڈانٹا اور فرمایا کہ تم اپنی آوازیں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے پاس بلند نہ کرو وہ جمعہ کا دن تھا لیکن جب میں نما زپڑھ کر حضور ﷺ کی مجلس میں جائوں گا تو اس بارے میں پوچھوں گا جس میں تمہارا اختلاف ہے تو حضرت عمر ؓ نے آپ (علیہ السلام) سے پوچھا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عباس ؓ بدر کے دن قید کئے گئے تو کہنے لگے کہ اگر تم اسلام ہجرت اور جہاد میں ہم سے آگے بڑھ گئے ہو تو ہم مسجد حرام کی تعمیر کرتے ہیں اور حاجیوں کو پلانی پلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور بتایا کہ ان کا مسجد حرام کو تعمیر کرنا اور حاجیوں کو پانی پلانا ان کو رشک کے ساتھ نفع نہ دے گا اور اللہ پر ایمان لانا اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ جہاد کرنا ان اعمال سے بہتر ہے جو وہ کر رہے ہیں۔ اور حسن، شعبی اور محمد بن کعب قرظی رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت علی بن ابی طالب ، عباس بن عبدالمطلب اور طلحہ بن شبیہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے آپ س میں فخر کیا تو طلحہ ؓ کہنے لگے میں بیت اللہ کا نگران ہوں میرے ہاتھ میں اس کی چابیاں ہیں اور عباس ؓ کہنے لگے میں حاجیوں کو پانی پلاتا ہوں اور حضرت علی ؓ نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو، میں نے چھ مہینے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، لوگوں سے پہلے اور میں نے جہاد کیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” اجعلتم سقایۃ الحاج “ سقایۃ مصدر ہے رعایۃ اور حمایۃ کی طرح ” وعمارۃ المسجد الحرام کمن امن باللہ وا لیوم الاخر “ اس میں اختصار ہے اصل عبارت یہ ہے کہ کیا تم حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی تعمیر کو اس شخص کے ایمان کی طرح سمجھتے ہو۔ الخ۔ اور بعض نے کہا سقایۃ اور عمارۃ بمعنی ساقی اور عامر ہے یعنی تم پانی پلانے والے اور مسجد حرام کی تعمیر کرنے والے کو اس شخص کی طرح سمجھتے ہو۔ جو شخص ایمان لائے اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور اللہ کے راستے میں جہاد کرے اور یہ اللہ تعالیٰ کے قول (والعاقبۃ للتقوی) یعنی منتقین کی طرح ہے اس پر عبد اللہ بن زبیر ؓ اور ابی بن کعب ؓ کی قرات دلالت کرتی ہے (اجعلتم سقاۃ الحاج و عمرۃ المسجد الحرام) ساقی اور عامر کی جمع کی بنا پر۔ الخ ” وجھد فی سبیل اللہ ط لایستون عند اللہ ط واللہ لایھدی القوم الظلمین “ ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمزم کے پلانے والے کے پاس آئے اور پانی طلب کیا تو عباس ؓ نے کہا اے فضل تو اپنی ماں کے پاس جا اور اس کے پاس سے پانی لے آ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا تو مجھے پلا تو عباس ؓ نے کہا اے اللہ کے رسول ! لوگوں نے اس مشکیزہ میں اپنے ہاتھ ڈالے ہیں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے پلا پھر اسی سے پیا اور زمزم پر تشریف لائے تو لوگ پانی کھینچ کر پلا رہے تھے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ تم کام کرو کیونکہ تم ایک نیک کام پر ہو۔ پھر فرمایا اگر اس پر رسی نہ ہوتی اور اپنے کندھے کی طرف اشارہ کیا۔ بکر بن عبداللہ مزنی (رح) کہتے ہیں کہ میں ابن عباسی ؓ کے ساتھ بیٹھا تھا تو ان کے پاس ایک بدو آیا اور پوچھا کیا ہے کہ میں تمہارے چچا کے بیٹوں کو دیھتا ہوں کہ وہ شہد اور دودھ لوگوں کو پلاتے ہیں اور تم نیند پلاتے ہو ؟ کیا یہ تمہارے بخل کی وجہ سے ہے ؟ تو ابن عباس ؓ نے فرمایا الحمد للہ ہمیں کوئی حاجت اور بخل نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اپنی سواری پر تشریف لائے اور آپ (علیہ السلام) کے پیچھے اسامہ بن زیاد تھے تو آپ (علیہ السلام) نے پانی مانگا ہم نے نبیذ کا برتن پیش کیا تو آپ (علیہ السلام) نے نوش فرمایا اور باقی اسامہ کو دے دیا اور فرمایا تم نے اچھا کام کیا ۔ اسی طرح کرتے رہو تو ہم نہیں چاہتے کہ جس چیز کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اس کو تبدیل کردیں۔
Top