Fahm-ul-Quran - Al-Anfaal : 32
وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْهِبُوْنَ بِهٖ عَدُوَّ اللّٰهِ وَ عَدُوَّكُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِهِمْ١ۚ لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ١ۚ اَللّٰهُ یَعْلَمُهُمْ١ؕ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْءٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ یُوَفَّ اِلَیْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ
وَاَعِدُّوْا : اور تیار رکھو لَهُمْ : ان کے لیے مَّا : جو اسْتَطَعْتُمْ : تم سے ہو سکے مِّنْ : سے قُوَّةٍ : قوت وَّ : اور مِنْ : سے رِّبَاطِ الْخَيْلِ : پلے ہوئے گھوڑے تُرْهِبُوْنَ : دھاک بٹھاؤ تم بِهٖ : اس سے عَدُوَّ اللّٰهِ : اللہ کے دشمن وَعَدُوَّكُمْ : اور تمہارے (اپنے) دشمن وَاٰخَرِيْنَ : اور دوسرے مِنْ : سے دُوْنِهِمْ : ان کے سوا لَا تَعْلَمُوْنَهُمْ : تم انہیں نہیں جانتے اَللّٰهُ : اللہ يَعْلَمُهُمْ : جانتا ہے انہیں وَمَا : اور جو تُنْفِقُوْا : تم خرچ کروگے مِنْ شَيْءٍ : کچھ فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ يُوَفَّ : پورا پورا دیا جائے گا اِلَيْكُمْ : تمہیں وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تُظْلَمُوْنَ : تمہارا نقصان نہ کیا جائے گا
اے (مومنو ! ) تم اپنی ہمت کے مطابق جو کچھ ہوسکے (دشمنوں کے خلاف) اپنی طاقت اور پلے ہوئے گھوڑون کو (مقابلے کے لئے) تیار رکھو تاکہ تم ان کے ذریعہ سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے نامعلوم دشمنوں پر جنہیں تم نہیں جانتے صرف اللہ جانتا ہے ” اپنی دھاک بٹھا دو “۔ اور (یاد رکھو) اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کرتے ہو بغیر کسی کمی اور نقصان کے تمہیں پورا پورا لوٹا دیا جائے گا۔
آیات : 60 تا 62 لغات القرآن۔ اعدوا۔ تیاری رکھو۔ تیاری کرو۔ استطعتم۔ جتنی تمہاری طاقت ہے۔ قوۃ۔ طاقت۔ ہیبت۔ رباط الخیل۔ پلے ہوئے گھوڑے۔ ترھبون۔ تم ہیبت طاری کرتے ہو۔ عدواللہ ۔ اللہ کے دشمن۔ اخرین۔ دوسرے۔ یوف۔ پورا کرد یا جائے گا۔ جنحوا۔ وہ جھکیں۔ مائل ہوں۔ السلم۔ صلح۔ اجنح۔ تو جھک جا۔ توکل۔ بھروسہ کر۔ یخدعوک۔ وہ آپ کو دھوکہ دیں گے۔ حسبک اللہ۔ اللہ آپ کا کافی ہے۔ ایدک۔ اس نے تجھے طاقت دی۔ تیری مدد کی۔ بنصرہ۔ اپنی مدد سے ۔ تشریح : غزوہ بدر کے پس منظر میں اہل ایمان کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اے اہل ایمان تم دشمن کی چالوں سے ہوشیار رہو۔ غزوہ بدر کی کامیابی پر تکیہ کرکے نہ بیٹھ جائو جب تم نے دشمن کو ایسی چوٹ دیدی ہے جس سے اس کے اوسطان خطا ہوگئے ہیں تو وہ چوت کھائے ہوئے سانپ کی طرف تم پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے۔ لہٰذا تم ہر طرح کے ہتھیاروں سے تیاری کرلو اس میں غزوہ بدر کے بعد سے غزوہ تبوک تک کی پیشن گوئی فرما دی گئی ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ (1) کہ جہاں تک ہوسکے تمام جنگی قوتوں کے ساتھ ایک لشکر قائمہ تیار رکھو تاکہ جیسے ہی دشمن سے کوئی خطرہ ہو تو تم اس خطرے سے نبٹنے کے لئے تیار رہو۔ تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے اور تمہارے معلوم اور نامعلوم دشمنوں پر ایسی ہیبت اور رعب طاری رہے کہ وہ فوری طور پر کوئی کاروائی کرتے ہوئے دس مرتبہ غور کریں۔ ان دنوں عربوں میں باقاعدہ فوج رکھنے کا رواج نہ تھا۔ جب ضرورت ہوئی لوگوں کو آواز دی گئی۔ رضا کار دوڑے دوڑے اس آواز پر جمع ہوگئے جلدی جلدی جو سامان مہیا کرنا تھا وہ کردیا گیا اور چند گھنٹوں یا چند دنوں میں فوج کو دشمن کے مقابلے میں اتار دیا گیا۔ پھر جب لڑائی ختم ہوجاتی تو پھر سارے سپاہی اپنے اپنے کام کی طرف لوٹ جاتے۔ یہ اسلام ہے جس نے پہلی مرتبہ دنیا میں لشکر قائم یعنی باضابطہ اور مستقل فوج کی ضرورت کا احساس کیا اور وہ بھی اس طرح کہ وہ فوج ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو۔ تاک اس کا رعب دشمنوں پر اس طرح پڑجائے کہ وہ پھر پلٹ نہ سکیں۔ چناچہ جنگ احد میں جب کفار مکہ کو شدید جانی و نقصان اٹھا کر احد کے درمیان سے بھاگنا پڑا تو نبی کریم ﷺ کے حکم سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سرکردگی میں دشمنوں کے پیچھے مجاہدین کا ایک دستہ دوڑا دیا گیا جس کے رعب سے دشمن واپس مکہ جانے پر مجبور ہوگیا اور اس کو پلٹ کر حملہ کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اسی طرح جنگ موتہ کے بعد شہنشاہ روم تبوک کے مقام پر لاکھوں فوجیوں اور ہتھیاروں کے باوجود مقابلہ کی جرأت نہ کرسکا اور اس کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ دشمن پر رعب اور ہیبت سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کی بدولت غزوات میں بہت کم جانی نقصان ہوا اور نتیجہ زیادہ بہتر سامنے آیا۔ ان آیات میں ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا کہ جنگ کی تیاری ہو یا عمل کا میدان ہر جگہ ہر طرح کی مالی قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے اگر ملت کے افراد اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہ کریں تو اس سے بڑی رکاوٹوں کا اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے اس لئے فرمایا کہ اے مومنو ! تم اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی خرچ کرو گے وہ نہ صرف تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا بلکہ اس میں تمہاری آخرت کا اس طرح سامان کردیا جائے گا کہ تمہارا کوئی نقصان نہ ہوگا۔ تیسرا اصول یہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو صلح کرنے میں دیر نہ کی جائے کیونکہ دین اسلام جو امن و سلامتی کا دین ہے۔ ایک نظریہ حیات ہے اس کے آگے بڑھنے میں وہی مومس زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے جب امن و سلامتی ہو۔ لہٰذا جب بھی کفار ور دشمنان اسلام کی طرف سے صلح کی بات کی جائے تو اس میں اہل ایمان کے قدم سب سے آگے ہونے چاہیں۔ اگر وہ اس صلح سے کوئی جنگی چال یا انے دام فریب میں پھنسانے کیلئے مکر کر رہے ہوں گے تو فرمایا گیا کہ اللہ پر بھروسہ کر کے صلح مندی کی طرف آجائو۔ اس جگہ پر اللہ تعالیٰ نے قوت و طاقت اور پلے ہوئے گھوڑوں کا ذکر فرمایا ہے کہ جس قدر ممکن ہو اس جنگی طاقت کو حاصل کرلو تاکہ اللہ کا اور تمہارا دشمن تمہاری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے قابل نہ رہے۔ چونکہ نزول قرآن کے وقت فوجی طاقت و قوت اور پلے ہوئے گھوڑے جو جنگ کے مقصد کے لئے پالے جاتے تھے یہی اسلحہ تھا۔ لیکن آج دنیا میں اسلحہ کا انداز بہت مختلف ہوگیا ہے تو اس آیت کا مفہوم آج بھی یہی ہے کہ اس زمانہ کے مطابق جو بھی جنگ میں طاقت اور اسلحہ تیار کیا جاتا ہے اس کو اختیار کیا جائے۔ کیونکہ اس آیت میں صرف قوت جمع کرنے کا ہی ذکر موجود نہیں ہے بلکہ اصل چیز ہے ” ترھبون بہ “ یعنی جس سے تم دشمن پر رعب جما سکو۔ اگر ہم آج تلواریں گھوڑے لیکر میدان جنگ میں پہنچ جائیں گے تو رعب تو دور کی بات ہے اپنی جان بچانا ہی مشکل ہوجائے گا۔ اگر ایٹمی جنگ ہے تو ہمیں ایٹمی جنگ کے ہی وہ ہتھیار تیار کرنے ہوں گے جن کے ذریعہ ہم دشمن کے ہتھیاروں کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔ اور مقابلہ میں دشمن کو تہس نہس کرنے کا موقع ہاتھ آسکے۔
Top