Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 17
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ١ۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَفَمَنْ : پس کیا جو كَانَ : ہو عَلٰي : پر بَيِّنَةٍ : کھلا راستہ مِّنْ رَّبِّهٖ : اپنے رب کے وَيَتْلُوْهُ : اور اس کے ساتھ ہو شَاهِدٌ : گواہ مِّنْهُ : اس سے وَمِنْ قَبْلِهٖ : اور اس سے پہلے كِتٰبُ مُوْسٰٓى : موسیٰ کی کتاب اِمَامًا : امام وَّرَحْمَةً : اور رحمت اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ يُؤْمِنُوْنَ : ایمان لاتے ہیں بِهٖ : اس پر وَمَنْ : اور جو يَّكْفُرْ بِهٖ : منکر ہو اس کا مِنَ الْاَحْزَابِ : گروہوں میں فَالنَّارُ : تو آگ (دوزخ) مَوْعِدُهٗ : اس کا ٹھکانہ فَلَا تَكُ : پس تو نہ ہو فِيْ مِرْيَةٍ : شک میں مِّنْهُ : اس سے اِنَّهُ الْحَقُّ : بیشک وہ حق مِنْ رَّبِّكَ : تیرے رب وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ النَّاسِ : اکثر لوگ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا ، اور پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے ؟ ) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے
یہ (آیات 17 تا 24) ایک طویل تنقیدی جملہ ہے ، اس کے اندر پائے جانے والے اشارات و ہدایات ، متنوع یاد دہانیوں اور تنبیہا اور موثر ضربات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور دعوت اسلامی کو کن مشکلات کا سامنا تھا اور یہ کہ اس اشاراتی تقریر کی اس دور میں کیوں ضرور پیش آئی۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنے اندر ایک تحریکی مزاج رکھتا ہے۔ اور وہ ایک واقع حالات میں ان تھک جدوجہد کی ہدایات دیتا ہے اور قیامت تک کے لیے ایسی تحریکات کے لیے ایک گائیڈ بک ہے۔ اس قرآن کا مزہ وہی شخص چکھ سکتا ہے جو عملاً احیائے اسلام کے معرکے میں کود چکا ہوتا ہے اور اسے انہی حالات سے سابقہ پیش ہوتا ہے جن حالات میں یہ قرآن سب سے پہلے نازل ہوا تھا اور پھر یہ شخص حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور ان حالات کو اپنے راستے پر موڑتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوں اور قرآن کریم کو سمجھنا چاہیں اور اس کا مطالعہ فنی اور محض علمی انداز میں کریں تو اس قسم کے آرام طلب ، سرد مزاج اور زمن پسند لوگ اس کتاب کو نہیں سمجھ سکتے ، جو زندگی کے عملی معرکے سے دور ہوں اور کسی اسلامی تحریک میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے ہوں غرض اس قسم کے آرام طلب مسند نشینوں پر قرآن کے اسرار کبھی بھی نہیں کھلتے ، جو لوگ اللہ کے سوا دوسری قوتوں کے غلام ہوں ، امن پسند ہوں اور آرام طلب ہوں اور کسی بھی طاغوتی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔ ان کے لیے اسرار قرآن اسی طرح ہیں جس طرح کور مادر زاد و نور آفتاب۔ اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔ پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا ، اور پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے ؟ ) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ اس آیت کے بارے میں بیشمار روایات وارد ہیں کہ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ کا مطلب کیا ہے اور وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ سے مراد کیا ہے۔ نیز ربہ اور یتلوہ کی ضمیروں کا مرجع کیا ہے ؟ منہ کے ضمیر کا مرجع کون ہے ؟ میرے خیال میں اس عبارت کا سب سے راجح اور موزوں مفہوم یہ ہے کہ جو شخص (یعنی رسول اللہ) اپنے رب کی طرف سے صاف صاف شہادت اور ثبوت رکھتا ہے اور رسول اللہ کے بعد اس سے مراد تمام مسلمان ہوں گے اور اللہ کی طرف سے مزید گواہ جو آیا جو اس کی نبوت کے لیے ایک ناقابل انکار ثبوت ہے۔ وہ قرآن کریم ہے ، جو بذات خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ وحی الہی ہے اور اس قسم کا کلام پیش کرنے سے لوگ عاجز آگئے ہیں اور اس گواہ سے قبل یعنی قرآن سے قبل حضرت موسیٰ کی کتاب بھی موجود ہے جو حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں رسول اللہ کے بارے میں واضح خوشخبری موجود ہے اور اس کتاب کی تعلیمات اور اس کی تعلیمات بالکل ایک جیسی ہیں۔ اس آیت کی جو تاویل و تفسیر میں نے بیان کی ہے اس پر اس پوری سورت کا انداز کلام بھی دلالت کرتا ہے۔ اس سورت میں تمام رسولوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ خود اپنی ذات کے اندر باری تعالیٰ کی طرف سے دلائل پاتے ہیں اور ان کو اس بات پر بھرپور یقین اور مشاہدہ حاصل ہے کہ ان کی طرف اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے۔ وہ ذات باری کو اپنی ذات میں نہایت ہی واضح ، نہایت ہی یقینی اور نہایت ہی قریب پاتے ہیں اور ان کو ذات باری اور وحی الہی کے بارے میں مشاہداتی یقین حاصل ہے۔ ذارا ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت نوح نے فرمایا : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ (28) " اے برادران قوم ، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اس رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہماری پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں " اور حضرت صالح نے بھی فرمایا : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (63) " اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھ کو کون بچائے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا ، تم میرے کس کام آسکتے ہو ، سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو " اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی ایسی ہی بات کہی : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا " اے بھائیو ، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا ، اور پھر اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق بھی عطا کیا " یہ تمام تعبیرات بتاتی ہیں کہ ان میں رسولوں کا خا کے ساتھ ایک مخصوص تعلق بتایا گیا۔ اور اس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ایسی بصیرت پاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حقیت الوہیت کو اپنے اندر واضح شہادت کی طرح پاتے ہیں کیونکہ وحی کے ذریعے ان کے ساتھ رب کا ایسا تعلق ہوتا ہے جس طرح کسی نظر کا مشاہدات کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ انداز تعبیر اور وحدت تعبیر یہ بتاتی ہے کہ ان آیات میں اللہ اور رسول کے ذاتی تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب کہ ہم نے کہا کہ اس بینۃ سے مراد ہے رسول کی اندرونی شہادت جس کی طرف دوسرے رسولوں کے کلام میں بھی شارہ موجود ہے۔ اور یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ کے مشاہدات وہی ہے جو سابقہ رسل کے تھے۔ لہذا مشرکین مکہ کے تمام دعوے باطل ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ آپ اور آپ کے مٹھی بھر ماننے والوں کو یہ تسلی ہوجائے کہ وہ سابقہ رسل کی طرح حق پر ہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے جس تعلیم کو قبول کیا ہے وہ تمام نبیوں کی تعلیم ہے۔ اب اس آیت کا اصولی مفہوم یہ ہوگا کہ یہ نبی جس کی صداقت پر بیشمار دلائل و براہیں قائم ہوگئے ہیں اس یقین و ایمان اور اس کے نظریات حق ہیں ، کیونکہ ایک طرف وہ خود اپنے نفس میں اس ایمان کو مشاہداتی طور پر دیکھ رہا ہے اور اسے یقین ہے۔ اور اس کے اس یقین کے اوپر خدا کی طرف سے بھی ہر وقت قرآن کی صورت میں شواہد چلے آ رہے ہیں اور جو اس بات پر بین دلیل ہیں کہ یہ قرآن بھی اسی ربانی سرچشمے سے آ رہا ہے اور ایک دوسرا بیرونی گواہ کتاب موسیٰ ہے۔ جو بنی اسرائیل کی قیادت کے لیے امام اور راہنما کتاب تھی اور ایک رحمت تھی جس کا نزول بنی اسرائیل پر ان کے رب کی طرف سے ہوا اور وہ کتاب بھی رسول اللہ کی تصدیق کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ کے بارے میں اس کے اندر واضح بشارتیں ہیں اور ان بشارتوں کے علاوہ یہ کتاب اپنے بنیدادی تصورات اور اصولوں کے اندر بھی قرآن سے مطابقت رکھتی ہے۔ تو کیا ایسا شخص اس لائق ہے کہ اس کی تکذیب کی جائے جس طرح تم لوگ کر رہے ہو اور جس طرح مشرکین کے مختلف طبقات اسے لے رہے ہیں۔ یہ گویا نہایت ہی ناپسندیدہ امر ہے اور ایسے ہمہ جہت شواہد و دلائل کے مقابلے میں ایسا طرز عمل نہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا موقف بھی بیان کردیا جاتا ہے جن لوگوں نے قرآنی تعلیمات پر ایمان لا کر اسے تسلیم کیا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کا انکار کیا اور پھر ان دونوں کے انجام سے بھی خبردار کردیا گیا۔ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ " ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے " بعض مفسرین کے ذہن میں آیت اولئک یومنون بہ کے مفہوم میں اشکال پیدا ہوا ہے خصوصا اس صورت میں جبکہ أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ سے مراد رسول اللہ کی ذات ہو جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ کیونکہ اس صورت میں اولئک سے مراد مومنین کی وہ جامعت ہوگی جو حضور پر آنے والی وحی پر ایمان لاتی ہو اور اس وحی سے وہی دلائل مراد ہوں گے جو حضور پر نازل ہوتے ہیں لیکن اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ میں ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی۔ معنی یہ ہوگا کہ لوگ اس گواہ یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور رسول اللہ تو اول مسلمان ہیں اول مومن ہیں ان باتوں پر جو ان کی طرف نازل ہوتی ہیں اور مومنین حضور کے ایمان کا اتباع کرتے ہیں۔ دوسری جگہ سورت بقرہ میں ہے : امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ کل امن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسولہ۔ " رسول اس پر ایمان لایا ہے جو اس کی طرف اتارا گیا اور مومنین بھی۔ سب اللہ پر ایمان لائے اور اس کے ملائکہ پر ایمان لائے۔ اس کی کتابوں پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے " یہاں رسول اللہ اور ان لوگوں کے ایمان کو یکجا کر کے بیان کیا گیا اور قرآنی تعبیرا میں یہ انداز کلام بالکل مالوف ہے لہذا اس آیت کے مفہوم میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الأحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ " اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے " اور یہ ایسا وعدہ ہے جس کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوگی کیونکہ اس کی تقدیر اور تدبیر اللہ نے فرمائی ہے۔ فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يُؤْمِنُونَ " پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے " یہ تو حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جو وحی آرہی تھی اس میں حضور نے شک نہیں فرمایا ، نہ اس میں کبھی ان کو شبہ لاحق ہوا ہے۔ وہ تو اپنے رب کی طرف سے ایک خاص شہادت رکھتے تھے ، لیکن ان دلائل وبراہین کے بعد حضور کو یہ ہدایت اس لیے دی کہ حضور اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے تھے اور تبلیغ کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔ اور معاندین کی کثرت اور شدید مخالفتوں کی وجہ سے آپ ڈرتے تھے کہ دعوت پر جمود کی حالت طاری نہ ہوجائے اس لیے آپ کو یہ ہدایات محض تسلی کے لیے دی گئیں تاکہ آپ نہایت ہی ثابت قدمی سے اپنے کام کو جاری رکھیں۔ نیز امت مسلمہ بھی ان دونوں نہایت ہی قلق ، کرب اور تنگ دلی میں مبتلا تھی اور اسی طرح ان کے دلوں پر بھی باد یقین کے جھونکے آگئے۔ ہمارے دور میں اسلامی تحریکات کو ہر جگہ اسی قسم کے حالات درپیش ہیں۔ ہر جگہ ان کو ایسے ہی مشکل حالات سے سابقہ درپیش ہے اور وہ پریشانی اور تنگ دلی کی کیفیات سے دوچار ہیں۔ ان کے خلاف ہر طرف سے استہزاء اور مذاق ہوتا ہے اور لوگ ان کی دعوت سے منہ موڑتے ہیں ، ان کو سخت سے سخت ایذائیں دی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف تمام فکری اور نفسیاتی اور مادی وسائل اختیار کیے جا رہے ہیں ، ہر طرف سے جاہلیت کی قوتیں ان کے خلاف ٹوٹ پڑی ہیں۔ مقامی غیر اسلامی قوتیں اور عالمی قوتیں ان کے خلاف رات دن سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور ان کے خلاف ہمہ گیر جنگ شروع ہے اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو لوگ کام کرتے ہیں ان کی ہر طرف سے حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ایسے حالات میں اسلامی تحریکات کو ایسی ربانی تسلیوں کی بےحد ضرورت ہے۔ تمام اسلامی تحریکات کا فرض ہے کہ وہ ان آیات پر اچھی طرح غور کریں۔ ان کے ہر ہر فقرے کو سمجھیں ، ان کے اندر پائی جانے والی ہدایات سے اشارات اخذ کریں اور ان کے خطوط پر آگے گامزن رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں جس تاکید ، یقین دہانی اور جس سچائی کو بیان کر رہا ہے۔ وہ تحریک اسلامی کی پہلی ضرورت ہے۔ ذرا پھر غور کریں :۔ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ " پس اے پیغمبر ، تم سا چیز کی طرف سے شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے "۔ اسلامی تحریک کے ہر کارکن پر آج ایسے سایہ عاطفت کی ضرورت ہے جو تمام رسولوں پر ہر وقت سایہ فگن رہتا تھا اور جو خداوند قدوس کی طرف سے ایک گواہ کا مقام رکھتا تھا۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک سایہ رحمت ہوا کرتا تھا۔ وہ اس سایہ میں اپنی منزل کی طرف بڑھتے تھے اور اس راہ میں وہ اپنی کامیابی اور اس راہ کی سچائی میں انہیں کوئی شک نہ ہوتا تھا۔ اور اس راہ میں ان کو جو جو مشکلات پیش آتیں وہ ان کو برداشت کرتے ، جیسا کہ حضرت صالح نے فرمایا : یقوم ارئیتم ان کنت علی بینۃ من ربی واتانی منہ رحمۃ فمن ینصرنی من اللہ ان عصیتہ فما تزیدونن غیر تخسیر " اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھ کو کون بچائے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا ، تم میرے کس کام آسکتے ہو ، سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو ۔ اس وقت عالم اسلام میں احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکوں کے مقاصد وہی ہیں جن کے لیے پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا یعنی احیائے اسلام اور جن جاہلیتوں اور مشکلات کا واسطہ ان پیغمبروں کو پڑا تھا ، آج وہی جاہلیتیں ان تحریکی دستوں کو در پیش ہیں۔ جس طرح رسول اللہ نے پوری انسانیت کے سامنے مکمل دین پیش کیا تھا ، آج وہی دین انسانیت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ گویا وہی زمانہ لوٹ کر آگیا ہے۔ آج اسلامی تحریکات کا مقابلہ اسی جاہلیت سے ہے جس سے حضرت ابراہیم کو واسطہ پڑا تھا ، جس سے اسماعیل ، اسھاق ، یعقوب ، اسباط ، یوسف ، موسیٰ ، ہارون ، داود ، سلیمان ، یحییٰ اور عیسیٰ اور تمام دوسرے نبیوں کو پڑا تھا۔ بعض جاہلیتیں تو وجود باری ہی کی منکر ہوتی ہیں اور بوض وجود باری کو تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن وجود باری کو مانتے ہوئے بھی انہوں نے اس کرہ ارض پر ایسے لوگوں کو رب اور حاکم بنا رکھا ہوتا ہے جو لوگوں پر ان قوانین کو نافذ کرتے ہیں جو اللہ نے نازل نہیں کیے۔ اس طرح لوگ ان ارباب کے دین پر ہوتے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکات کی دعوت یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے تمام حالات میں ، اپنے پورے معاشرے سے اپنی اقدار اور قوانین میں سے ان ارباب من دون اللہ کی حکومت اور اقتدار کو ختم کردیں اور اللہ وحدہ کی ربوبیت میں داخل ہوجائیں اور اس طرح مکمل طور پر داخل ہوجائیں کہ ان کی زندگی میں اللہ کی ربوبیت کے ساتھ کوئی دوسرا رب نہ ہو۔ وہ صرف اللہ کی شریعت کی تابع داری کریں۔ صرف اللہ کے اوامرو نواہی کی پابندی کریں۔ اس نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں اس وقت اسلام اور جاہلیت کے درمیان ایک ہمہ گیر کشمکش برپا ہے اور اس معرکے میں اسلامی تحریکات کے مقابلے میں دنیا کے تمام طاغوت ایک صف میں کھڑے ہیں۔ لہذا اسلامی تحریکات کے ان ہر اول دستوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے تمام نظریات اور تمام موقف اور تمام پالیسیاں قرآن سے اخذ کریں۔ اور یہی ہے مطلب اس بات کا جو ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس قرآن کا مزہ وہی شخص چکھ سکتا ہے جو اس قسم کے معرکے میں کود پڑے۔ جس میں حضور اکرم کے ساتھی کودے تھے اور وہ ویسا ہی موقف اختیار کرے اور ویسے ہی حالات سے دوچار ہو جس سے وہ لوگ دو چار تھے اور حالات کے دھارے کو اسی طرح بدلنا شروع کردے جس طرح ان حضرات نے بدلا تھا۔ وہ لوگ جو حجروں میں بیٹھ کر قرآن کے معانی تلاش کرتے ہیں اور احیائے اسلام کے لیے عملاً جدوجہد نہیں کرتے اور قرآن کی محض فنی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور محض بیان کی حد تک اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ وہ قرآن کی حقیقت تک رسائی نہیں پا سکتے۔ ایسے لوگوں کا فہم قرآن محض جامد اور عملی زندگی سے بہت دور ہوتا ہے۔
Top