Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Hud : 17
اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَ یَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ اُولٰٓئِكَ یُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ؕ وَ مَنْ یَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ فَلَا تَكُ فِیْ مِرْیَةٍ مِّنْهُ١ۗ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ
اَفَمَنْ
: پس کیا جو
كَانَ
: ہو
عَلٰي
: پر
بَيِّنَةٍ
: کھلا راستہ
مِّنْ رَّبِّهٖ
: اپنے رب کے
وَيَتْلُوْهُ
: اور اس کے ساتھ ہو
شَاهِدٌ
: گواہ
مِّنْهُ
: اس سے
وَمِنْ قَبْلِهٖ
: اور اس سے پہلے
كِتٰبُ مُوْسٰٓى
: موسیٰ کی کتاب
اِمَامًا
: امام
وَّرَحْمَةً
: اور رحمت
اُولٰٓئِكَ
: یہی لوگ
يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان لاتے ہیں
بِهٖ
: اس پر
وَمَنْ
: اور جو
يَّكْفُرْ بِهٖ
: منکر ہو اس کا
مِنَ الْاَحْزَابِ
: گروہوں میں
فَالنَّارُ
: تو آگ (دوزخ)
مَوْعِدُهٗ
: اس کا ٹھکانہ
فَلَا تَكُ
: پس تو نہ ہو
فِيْ مِرْيَةٍ
: شک میں
مِّنْهُ
: اس سے
اِنَّهُ الْحَقُّ
: بیشک وہ حق
مِنْ رَّبِّكَ
: تیرے رب
وَلٰكِنَّ
: اور لیکن
اَكْثَرَ النَّاسِ
: اکثر لوگ
لَا يُؤْمِنُوْنَ
: ایمان نہیں لاتے
پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا ، اور پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے ؟ ) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے
یہ (آیات 17 تا 24) ایک طویل تنقیدی جملہ ہے ، اس کے اندر پائے جانے والے اشارات و ہدایات ، متنوع یاد دہانیوں اور تنبیہا اور موثر ضربات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے اس دور میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور دعوت اسلامی کو کن مشکلات کا سامنا تھا اور یہ کہ اس اشاراتی تقریر کی اس دور میں کیوں ضرور پیش آئی۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم اپنے اندر ایک تحریکی مزاج رکھتا ہے۔ اور وہ ایک واقع حالات میں ان تھک جدوجہد کی ہدایات دیتا ہے اور قیامت تک کے لیے ایسی تحریکات کے لیے ایک گائیڈ بک ہے۔ اس قرآن کا مزہ وہی شخص چکھ سکتا ہے جو عملاً احیائے اسلام کے معرکے میں کود چکا ہوتا ہے اور اسے انہی حالات سے سابقہ پیش ہوتا ہے جن حالات میں یہ قرآن سب سے پہلے نازل ہوا تھا اور پھر یہ شخص حالات کا مقابلہ کرتا ہے اور ان حالات کو اپنے راستے پر موڑتا ہے۔ رہے وہ لوگ جو آرام سے گھروں میں بیٹھے ہوں اور قرآن کریم کو سمجھنا چاہیں اور اس کا مطالعہ فنی اور محض علمی انداز میں کریں تو اس قسم کے آرام طلب ، سرد مزاج اور زمن پسند لوگ اس کتاب کو نہیں سمجھ سکتے ، جو زندگی کے عملی معرکے سے دور ہوں اور کسی اسلامی تحریک میں کوئی دلچسپی نہ رکھتے ہوں غرض اس قسم کے آرام طلب مسند نشینوں پر قرآن کے اسرار کبھی بھی نہیں کھلتے ، جو لوگ اللہ کے سوا دوسری قوتوں کے غلام ہوں ، امن پسند ہوں اور آرام طلب ہوں اور کسی بھی طاغوتی نظام کے تحت زندگی بسر کرنے پر راضی ہوں۔ ان کے لیے اسرار قرآن اسی طرح ہیں جس طرح کور مادر زاد و نور آفتاب۔ اَفَمَنْ كَانَ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْمَةً ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۔ پھر بھلا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا ، اس کے بعد ایک گواہ بھی پروردگار کی طرف سے (اس شہادت کی تائید میں) آگیا ، اور پہلے موسیٰ کی کتاب رہنما اور رحمت کے طور پر آئی ہوئی بھی موجود تھی (کیا وہ بھی دنیا پرستوں کی طرح اس سے انکار کرسکتا ہے ؟ ) ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے۔ اس آیت کے بارے میں بیشمار روایات وارد ہیں کہ عَلٰي بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ کا مطلب کیا ہے اور وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ سے مراد کیا ہے۔ نیز ربہ اور یتلوہ کی ضمیروں کا مرجع کیا ہے ؟ منہ کے ضمیر کا مرجع کون ہے ؟ میرے خیال میں اس عبارت کا سب سے راجح اور موزوں مفہوم یہ ہے کہ جو شخص (یعنی رسول اللہ) اپنے رب کی طرف سے صاف صاف شہادت اور ثبوت رکھتا ہے اور رسول اللہ کے بعد اس سے مراد تمام مسلمان ہوں گے اور اللہ کی طرف سے مزید گواہ جو آیا جو اس کی نبوت کے لیے ایک ناقابل انکار ثبوت ہے۔ وہ قرآن کریم ہے ، جو بذات خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ وحی الہی ہے اور اس قسم کا کلام پیش کرنے سے لوگ عاجز آگئے ہیں اور اس گواہ سے قبل یعنی قرآن سے قبل حضرت موسیٰ کی کتاب بھی موجود ہے جو حضرت محمد ﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتی ہے کیونکہ اس کتاب میں رسول اللہ کے بارے میں واضح خوشخبری موجود ہے اور اس کتاب کی تعلیمات اور اس کی تعلیمات بالکل ایک جیسی ہیں۔ اس آیت کی جو تاویل و تفسیر میں نے بیان کی ہے اس پر اس پوری سورت کا انداز کلام بھی دلالت کرتا ہے۔ اس سورت میں تمام رسولوں نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ خود اپنی ذات کے اندر باری تعالیٰ کی طرف سے دلائل پاتے ہیں اور ان کو اس بات پر بھرپور یقین اور مشاہدہ حاصل ہے کہ ان کی طرف اللہ کی جانب سے وحی آتی ہے۔ وہ ذات باری کو اپنی ذات میں نہایت ہی واضح ، نہایت ہی یقینی اور نہایت ہی قریب پاتے ہیں اور ان کو ذات باری اور وحی الہی کے بارے میں مشاہداتی یقین حاصل ہے۔ ذارا ملاحظہ فرمائیں کہ حضرت نوح نے فرمایا : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ أَنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَارِهُونَ (28) " اے برادران قوم ، ذرا سوچو تو سہی کہ اگر میں اس رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر قائم تھا اور پھر اس نے مجھ پر اپنی خاص رحمت سے بھی نواز دیا مگر تم کو نظر نہ آئی تو آخر ہماری پاس کیا ذریعہ ہے کہ تم ماننا نہ چاہو اور ہم زبردستی اس کو تمہارے سر چپک دیں " اور حضرت صالح نے بھی فرمایا : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَآتَانِي مِنْهُ رَحْمَةً فَمَنْ يَنْصُرُنِي مِنَ اللَّهِ إِنْ عَصَيْتُهُ فَمَا تَزِيدُونَنِي غَيْرَ تَخْسِيرٍ (63) " اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھ کو کون بچائے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا ، تم میرے کس کام آسکتے ہو ، سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو " اور حضرت شعیب (علیہ السلام) نے بھی ایسی ہی بات کہی : قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا " اے بھائیو ، تم خود ہی سوچو کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک کھلی شہادت پر تھا ، اور پھر اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق بھی عطا کیا " یہ تمام تعبیرات بتاتی ہیں کہ ان میں رسولوں کا خا کے ساتھ ایک مخصوص تعلق بتایا گیا۔ اور اس کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ وہ اپنے اندر ایک ایسی بصیرت پاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ حقیت الوہیت کو اپنے اندر واضح شہادت کی طرح پاتے ہیں کیونکہ وحی کے ذریعے ان کے ساتھ رب کا ایسا تعلق ہوتا ہے جس طرح کسی نظر کا مشاہدات کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ انداز تعبیر اور وحدت تعبیر یہ بتاتی ہے کہ ان آیات میں اللہ اور رسول کے ذاتی تعلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جب کہ ہم نے کہا کہ اس بینۃ سے مراد ہے رسول کی اندرونی شہادت جس کی طرف دوسرے رسولوں کے کلام میں بھی شارہ موجود ہے۔ اور یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ آپ کے مشاہدات وہی ہے جو سابقہ رسل کے تھے۔ لہذا مشرکین مکہ کے تمام دعوے باطل ہیں۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ آپ اور آپ کے مٹھی بھر ماننے والوں کو یہ تسلی ہوجائے کہ وہ سابقہ رسل کی طرح حق پر ہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے جس تعلیم کو قبول کیا ہے وہ تمام نبیوں کی تعلیم ہے۔ اب اس آیت کا اصولی مفہوم یہ ہوگا کہ یہ نبی جس کی صداقت پر بیشمار دلائل و براہیں قائم ہوگئے ہیں اس یقین و ایمان اور اس کے نظریات حق ہیں ، کیونکہ ایک طرف وہ خود اپنے نفس میں اس ایمان کو مشاہداتی طور پر دیکھ رہا ہے اور اسے یقین ہے۔ اور اس کے اس یقین کے اوپر خدا کی طرف سے بھی ہر وقت قرآن کی صورت میں شواہد چلے آ رہے ہیں اور جو اس بات پر بین دلیل ہیں کہ یہ قرآن بھی اسی ربانی سرچشمے سے آ رہا ہے اور ایک دوسرا بیرونی گواہ کتاب موسیٰ ہے۔ جو بنی اسرائیل کی قیادت کے لیے امام اور راہنما کتاب تھی اور ایک رحمت تھی جس کا نزول بنی اسرائیل پر ان کے رب کی طرف سے ہوا اور وہ کتاب بھی رسول اللہ کی تصدیق کر رہی ہے۔ کیونکہ آپ کے بارے میں اس کے اندر واضح بشارتیں ہیں اور ان بشارتوں کے علاوہ یہ کتاب اپنے بنیدادی تصورات اور اصولوں کے اندر بھی قرآن سے مطابقت رکھتی ہے۔ تو کیا ایسا شخص اس لائق ہے کہ اس کی تکذیب کی جائے جس طرح تم لوگ کر رہے ہو اور جس طرح مشرکین کے مختلف طبقات اسے لے رہے ہیں۔ یہ گویا نہایت ہی ناپسندیدہ امر ہے اور ایسے ہمہ جہت شواہد و دلائل کے مقابلے میں ایسا طرز عمل نہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس کے بعد ان لوگوں کا موقف بھی بیان کردیا جاتا ہے جن لوگوں نے قرآنی تعلیمات پر ایمان لا کر اسے تسلیم کیا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کا انکار کیا اور پھر ان دونوں کے انجام سے بھی خبردار کردیا گیا۔ اُولٰۗىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ ۭ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ۚ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ " ایسے لوگ تو اس پر ایمان ہی لائیں گے اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کو وعدہ ہے وہ دوزخ ہے۔ پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے کسی شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے " بعض مفسرین کے ذہن میں آیت اولئک یومنون بہ کے مفہوم میں اشکال پیدا ہوا ہے خصوصا اس صورت میں جبکہ أَفَمَنْ كَانَ عَلَى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ سے مراد رسول اللہ کی ذات ہو جیسا کہ پہلے بیان ہوا۔ کیونکہ اس صورت میں اولئک سے مراد مومنین کی وہ جامعت ہوگی جو حضور پر آنے والی وحی پر ایمان لاتی ہو اور اس وحی سے وہی دلائل مراد ہوں گے جو حضور پر نازل ہوتے ہیں لیکن اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کیونکہ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ میں ضمیر قرآن کی طرف راجع ہوگی۔ معنی یہ ہوگا کہ لوگ اس گواہ یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور رسول اللہ تو اول مسلمان ہیں اول مومن ہیں ان باتوں پر جو ان کی طرف نازل ہوتی ہیں اور مومنین حضور کے ایمان کا اتباع کرتے ہیں۔ دوسری جگہ سورت بقرہ میں ہے : امن الرسول بما انزل الیہ من ربہ والمومنون۔ کل امن باللہ و ملائکتہ و کتبہ و رسولہ۔ " رسول اس پر ایمان لایا ہے جو اس کی طرف اتارا گیا اور مومنین بھی۔ سب اللہ پر ایمان لائے اور اس کے ملائکہ پر ایمان لائے۔ اس کی کتابوں پر ایمان لائے اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے " یہاں رسول اللہ اور ان لوگوں کے ایمان کو یکجا کر کے بیان کیا گیا اور قرآنی تعبیرا میں یہ انداز کلام بالکل مالوف ہے لہذا اس آیت کے مفہوم میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الأحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ " اور انسانی گروہوں میں سے جو کوئی اس کا انکار کرے تو اس کے لیے جس جگہ کا وعدہ ہے وہ دوزخ ہے " اور یہ ایسا وعدہ ہے جس کی کوئی خلاف ورزی نہ ہوگی کیونکہ اس کی تقدیر اور تدبیر اللہ نے فرمائی ہے۔ فَلا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يُؤْمِنُونَ " پس اے پیغمبر تم اس چیز کی طرف سے شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے " یہ تو حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف جو وحی آرہی تھی اس میں حضور نے شک نہیں فرمایا ، نہ اس میں کبھی ان کو شبہ لاحق ہوا ہے۔ وہ تو اپنے رب کی طرف سے ایک خاص شہادت رکھتے تھے ، لیکن ان دلائل وبراہین کے بعد حضور کو یہ ہدایت اس لیے دی کہ حضور اپنے دل میں تنگی محسوس کرتے تھے اور تبلیغ کرتے کرتے تھک جاتے تھے۔ اور معاندین کی کثرت اور شدید مخالفتوں کی وجہ سے آپ ڈرتے تھے کہ دعوت پر جمود کی حالت طاری نہ ہوجائے اس لیے آپ کو یہ ہدایات محض تسلی کے لیے دی گئیں تاکہ آپ نہایت ہی ثابت قدمی سے اپنے کام کو جاری رکھیں۔ نیز امت مسلمہ بھی ان دونوں نہایت ہی قلق ، کرب اور تنگ دلی میں مبتلا تھی اور اسی طرح ان کے دلوں پر بھی باد یقین کے جھونکے آگئے۔ ہمارے دور میں اسلامی تحریکات کو ہر جگہ اسی قسم کے حالات درپیش ہیں۔ ہر جگہ ان کو ایسے ہی مشکل حالات سے سابقہ درپیش ہے اور وہ پریشانی اور تنگ دلی کی کیفیات سے دوچار ہیں۔ ان کے خلاف ہر طرف سے استہزاء اور مذاق ہوتا ہے اور لوگ ان کی دعوت سے منہ موڑتے ہیں ، ان کو سخت سے سخت ایذائیں دی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف تمام فکری اور نفسیاتی اور مادی وسائل اختیار کیے جا رہے ہیں ، ہر طرف سے جاہلیت کی قوتیں ان کے خلاف ٹوٹ پڑی ہیں۔ مقامی غیر اسلامی قوتیں اور عالمی قوتیں ان کے خلاف رات دن سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور ان کے خلاف ہمہ گیر جنگ شروع ہے اور اسلامی تحریکات کے خلاف جو لوگ کام کرتے ہیں ان کی ہر طرف سے حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ایسے حالات میں اسلامی تحریکات کو ایسی ربانی تسلیوں کی بےحد ضرورت ہے۔ تمام اسلامی تحریکات کا فرض ہے کہ وہ ان آیات پر اچھی طرح غور کریں۔ ان کے ہر ہر فقرے کو سمجھیں ، ان کے اندر پائی جانے والی ہدایات سے اشارات اخذ کریں اور ان کے خطوط پر آگے گامزن رہیں۔ اللہ تعالیٰ ان آیات میں جس تاکید ، یقین دہانی اور جس سچائی کو بیان کر رہا ہے۔ وہ تحریک اسلامی کی پہلی ضرورت ہے۔ ذرا پھر غور کریں :۔ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ " پس اے پیغمبر ، تم سا چیز کی طرف سے شک میں نہ پڑنا ، یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے مگر اکثر لوگ نہیں مانتے "۔ اسلامی تحریک کے ہر کارکن پر آج ایسے سایہ عاطفت کی ضرورت ہے جو تمام رسولوں پر ہر وقت سایہ فگن رہتا تھا اور جو خداوند قدوس کی طرف سے ایک گواہ کا مقام رکھتا تھا۔ یہ خداوند کریم کی طرف سے ایک سایہ رحمت ہوا کرتا تھا۔ وہ اس سایہ میں اپنی منزل کی طرف بڑھتے تھے اور اس راہ میں وہ اپنی کامیابی اور اس راہ کی سچائی میں انہیں کوئی شک نہ ہوتا تھا۔ اور اس راہ میں ان کو جو جو مشکلات پیش آتیں وہ ان کو برداشت کرتے ، جیسا کہ حضرت صالح نے فرمایا : یقوم ارئیتم ان کنت علی بینۃ من ربی واتانی منہ رحمۃ فمن ینصرنی من اللہ ان عصیتہ فما تزیدونن غیر تخسیر " اے برادران قوم ، تم نے کچھ اس بات پر غور کیا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک صاف شہادت رکھتا تھا اور پھر اس نے اپنی رحمت سے بھی مجھ کو نواز دیا تو اس کے بعد اللہ کی پکڑ سے مجھ کو کون بچائے گا۔ اگر میں اس کی نافرمانی کروں گا ، تم میرے کس کام آسکتے ہو ، سوائے اس کے کہ مجھے اور خسارے میں ڈال دو ۔ اس وقت عالم اسلام میں احیائے اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکوں کے مقاصد وہی ہیں جن کے لیے پیغمبروں کو بھیجا گیا تھا یعنی احیائے اسلام اور جن جاہلیتوں اور مشکلات کا واسطہ ان پیغمبروں کو پڑا تھا ، آج وہی جاہلیتیں ان تحریکی دستوں کو در پیش ہیں۔ جس طرح رسول اللہ نے پوری انسانیت کے سامنے مکمل دین پیش کیا تھا ، آج وہی دین انسانیت کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ گویا وہی زمانہ لوٹ کر آگیا ہے۔ آج اسلامی تحریکات کا مقابلہ اسی جاہلیت سے ہے جس سے حضرت ابراہیم کو واسطہ پڑا تھا ، جس سے اسماعیل ، اسھاق ، یعقوب ، اسباط ، یوسف ، موسیٰ ، ہارون ، داود ، سلیمان ، یحییٰ اور عیسیٰ اور تمام دوسرے نبیوں کو پڑا تھا۔ بعض جاہلیتیں تو وجود باری ہی کی منکر ہوتی ہیں اور بوض وجود باری کو تسلیم کرتی ہیں۔ لیکن وجود باری کو مانتے ہوئے بھی انہوں نے اس کرہ ارض پر ایسے لوگوں کو رب اور حاکم بنا رکھا ہوتا ہے جو لوگوں پر ان قوانین کو نافذ کرتے ہیں جو اللہ نے نازل نہیں کیے۔ اس طرح لوگ ان ارباب کے دین پر ہوتے ہیں۔ آج پورے عالم اسلام میں اسلامی تحریکات کی دعوت یہ ہے کہ لوگ اپنی زندگی کے تمام حالات میں ، اپنے پورے معاشرے سے اپنی اقدار اور قوانین میں سے ان ارباب من دون اللہ کی حکومت اور اقتدار کو ختم کردیں اور اللہ وحدہ کی ربوبیت میں داخل ہوجائیں اور اس طرح مکمل طور پر داخل ہوجائیں کہ ان کی زندگی میں اللہ کی ربوبیت کے ساتھ کوئی دوسرا رب نہ ہو۔ وہ صرف اللہ کی شریعت کی تابع داری کریں۔ صرف اللہ کے اوامرو نواہی کی پابندی کریں۔ اس نظریاتی جدوجہد کے نتیجے میں اس وقت اسلام اور جاہلیت کے درمیان ایک ہمہ گیر کشمکش برپا ہے اور اس معرکے میں اسلامی تحریکات کے مقابلے میں دنیا کے تمام طاغوت ایک صف میں کھڑے ہیں۔ لہذا اسلامی تحریکات کے ان ہر اول دستوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اپنے تمام نظریات اور تمام موقف اور تمام پالیسیاں قرآن سے اخذ کریں۔ اور یہی ہے مطلب اس بات کا جو ہم بار بار کہتے ہیں کہ اس قرآن کا مزہ وہی شخص چکھ سکتا ہے جو اس قسم کے معرکے میں کود پڑے۔ جس میں حضور اکرم کے ساتھی کودے تھے اور وہ ویسا ہی موقف اختیار کرے اور ویسے ہی حالات سے دوچار ہو جس سے وہ لوگ دو چار تھے اور حالات کے دھارے کو اسی طرح بدلنا شروع کردے جس طرح ان حضرات نے بدلا تھا۔ وہ لوگ جو حجروں میں بیٹھ کر قرآن کے معانی تلاش کرتے ہیں اور احیائے اسلام کے لیے عملاً جدوجہد نہیں کرتے اور قرآن کی محض فنی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور محض بیان کی حد تک اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ وہ قرآن کی حقیقت تک رسائی نہیں پا سکتے۔ ایسے لوگوں کا فہم قرآن محض جامد اور عملی زندگی سے بہت دور ہوتا ہے۔
Top