Fi-Zilal-al-Quran - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
(ان سب کا فیصلہ اس دن ہوگا) جب کہ ہر متنفس اپنے ہی بچائو کی فکر میں لگا ہوا ہوگا اور ہر ایک کو اس کے کیے کا بدلہ پورا پورا دیا جائے گا اور کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہونے پائے گا
یوم تاتی کل نفس تحادل عن نفسھا (61 : 111) ” ہر متنفس اپنے ہی بچائو کی فکر میں لگا ہوا ہوگا “۔ انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دن ہر شخص سخت ہولناک حالت میں ہوگا ، ہر شخص اپنے ہی بارے میں فکر کر رہا ہوگا ، اپنا ہی کیس لڑ رہا ہوگا۔ لیکن کسی کا جھگڑا اسے کچھ فائدے نہ دے گا۔ وہاں تو ہر کسی کو اپنی ہی کمائی ملے گی۔ وھم لا یظلمون (61 : 111) ” کسی پر کوئی ظلم نہ ہوگا “۔ درس نمبر 421 ایک نظر میں اس سے پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ اللہ نے اس سورة میں دو مثالوں کے ذریعے اسلامی عقیدہ توحید کو سمجھایا ہے۔ یہاں اباہل مکہ اور مشرکین قریش اور مکہ کے حالات پر ایک مثال دی جاتی ہے۔ اہل مکہ پر اللہ نے اپنے انعامات کی بارش کردی تھی لیکن انہوں نے اپنی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا۔ اس مثال کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اہل مکہ کو اس انجام سے خبردار کرنا چاہتے ہیں جو مستقبل کے پردوں میں ان کا منتظر ہے۔ اس مثال میں جن نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ وافر رزق اور امن و اطمینان کی نعمت ہے جو مکہ میں موجود تھی ، اس حوالے سے پھر ان کے سامنے یہ بات بھی رکھی جاتی ہے کہ انہوں نے بت پرستی کی وجہ سے اپنے اوپر بعض طیبات اور حلال چیزوں کو خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے حالانکہ اللہ نے چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ اللہ نے حرام چیزوں کو بیان کردیا ہے اور یہ چیزیں ان میں سے نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک طرح سے انعامات الہیہ کی ناشکری ہے۔ اس طرح کی ناشکری کے نتیجہ میں بھی تم پر عذاب الیم نازل ہوسکتا ہے اور یہ اللہ پر بہت ہی بڑا افتراء ہے اور اللہ نے ان اشیاء کی حرمت کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ پھر مسلمانوں پر جو ناپاک چیزیں حرام کی گئیں اس کے حوالے سے ان اشیاء کا بھی ذکر کیا جاتا ہے جو یہودیوں پر حرام کی گئیں۔ یہ چیزیں ان پر بطور سزائوں کے بعض جرائم کی وجہ سے حرام کی گئی تھیں۔ نیز یہ ان کے بعض مظالم کی وجہ سے بطور سزا حرام ہوئی تھیں۔ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد سے حرام نہ تھیں جو اپنی ذات میں ایک امت تھے اور اللہ کی طرف یکسو اور حنیف تھے۔ شرک نہ کرتے تھے اور اللہ نے ان کو ہدایت دی تھی۔ وہ برگزیدہ تھے اور صراط مستقیم پر تھے۔ یہ طیبات ان پر بھی حلال تھیں اور ان کی اولاد پر بھی۔ یہاں تک کہ بعد کے ادوار میں بنی اسرائیل پر بطور سزا حرام ہوئیں اور ان جہالتوں سے کوئی تائب نہ ہوجائے تو اللہ غفور ورحیم ہے۔ اس کے بعد دین ابراہیم کے تسلسل کے طور پر حضرت محمد ﷺ کا دین آیا ، اس میں وہ تمام طیبات از سر نو حلال کردی گئیں جو دین ابراہیم میں حلال تھیں ۔ اسی طرح یوم سبت میں یہودیوں کو شکار سے منع کیا گیا تھا ، اسے بھی حلال کردیا گیا تھا کیونکہ یہودیوں نے سبت کی پابندی کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔ بعض لوگ رک گئے اور بعض نے سبت کی پابندی کو توڑ دیا۔ اس لئے اللہ نے ان لوگوں کو بھی مشکوک بنا دیا تھا۔ بعض لوگ رک گئے اور بعض نے سبت کی پابندی کو توڑ دیا ۔ اس لئے اللہ نے ان لوگوں کے چہرے مسخ کردئیے اور ان کو انسانیت کے درجہ سے گرا دیا۔ اس مناسبت سے رسول اللہ ﷺ کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ اللہ کی راہ کی طرف نہایت ہی حکمت سے اور بہترین نصیحت سے دعوت دیتے ہیں اور ان کے ساتھ نہایت ہی بھلے انداز میں مکالمہ کریں۔ اگر آپ پر زیادتی ہو توق صاص اس کی سنتب سے عادلانہ ہو ، کسی صورت میں بھی حد سے تجاوز نہ کیا جائے۔ اگر مخالف کو معاف کردیا جائے اور صبر سے کام لیا جائے تو یہ سب سے بہتر ہے۔ اس کے بعد یاد رکھو کہ اچھا انجام متقین اور محسنین ہی کا ہے کیونکہ اللہ اہل تقویٰ اور اہل احسان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ ان کی امداد کرتا ہے ، ان کی نگرانی کرتا ہے اور صلاح و فلاح کی راہ کی طرف ان کو راہنمائی کرتا رہتا ہے۔
Top