Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) اپنی ذات سے ایک پوری امت تھا ، اللہ کا مطیع فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھا۔
قرآن کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بطور نمونہ ہدایت ، مجسمہ انابت اور صبرو شکر کا پیکر اور مطیع اور عبادت گزار بنا کر پیش کرتا ہے۔ یہاں کہا جاتا ہے کہ وہ امت تھے ، یعنی ان کے اندر جو اطاعت ، انابت اور شکر و برکت تھی وہ پوری امت کے برابر تھی۔ یا اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ امام ہدایت تھے…مفسرین سے دونوں مفہوم مروی ہیں۔ اور دونوں مفہوم ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ کیونکہ جو امام ہدایت کی راہ دکھائے وہی امت کا قائد ہوتا ہے اور ایسے امام کو ان تمام لوگوں کے اعمال کا ثواب بھی ملے گا جن کو اس نے ہدایت کا راستہ دکھایا۔ اس طرح یہ راہنما بذات خود ایک امت بن جاتا ہے۔ وہ فرد واحد نہیں رہتا۔ قائنا للہ (61 : 021) کا مفہوم ہے اطاعت گزار ، خشوع کرنے والا اور عبادت کرنے والا۔ حنیفا (61 : 021) کا مفہوم ہے حق کی طرف متوجہ ہونے والا۔ سچائی کا قلبی میلان رکھنے والا۔ ولم یک من المشرکین (61 : 021) ” وہ مشرکین میں سے نہ تھے “۔ لہٰذا مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنا تعلق ان سے ظاہر کریں۔ نہ اپنے آپ کو ان کے ذریعے متبرک بنائیں۔
Top