Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 22
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۠   ۧ
لَا تَجْعَلْ : تو نہ ٹھہرا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی دوسرا معبود فَتَقْعُدَ : پس تو بیٹھ رہے گا مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّخْذُوْلًا : بےبس ہو کر
تو اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بےیارومددگار بیٹھا رہ جائے گا
اس سورت کے پہلے سبق میں عمل و مکافات عمل کے اصولوں اور ہدایت و ضلالت کے قوانین اور کسب اور حساب کی ذمہ داریوں کو کائناتی اصولوں اور طبعی قوانین اور گردش لیل و نہار سے مربوط کیا گیا تھا۔ اس سبق میں انسانی طرز عمل ، اخلاق وآداب اور انفرادی اخلاق اور اجتماعی طرز عمل اور قوانین کو اسلامی نظریہ حیات کے اساسی اصول و عقائد یعنی توحید الٰہی کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔ چناچہ تمام انفرادی اور اجتماعی روابط کی اساس یہی عقیدہ توحید ہے ، جو ایک مضبوط رسی ہے۔ اور یہی ایک خاندان اور ایک سو سائٹی کی اجتماعی زندگی کی اساس اور رابطہ ہے۔ درس سابق میں کہا گیا تھا کہ یہ قرآن بالکل ایک سیدھی راہ کی طرف ہدایت اور رہنمائی کرتا ہے۔ اور اس کے اندر اس راہنمائی کی تمام تفصیلات درج ہیں۔ ان ھذا القران………تفصیلا (21) (71 : 9۔ 21) ” جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لئے ہم نے درد ناک عذاب مہیا کر رکھا ہے “۔ ” انسان شر اس طرح مانگتا ہے جس طرح خیر مانگنی چاہیے۔ انسان بڑا ہی جلد باز واقع ہوا ہے “۔ ” دیکھو ‘ ہم نے رات اور دن و دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانی کو ہم نے بےنور بنایا اور دن کی نشانی کو روشن کردیا تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرسکو اور ماہ و سال کا حساب معلوم کرسکو۔ اسی طرح ہم نے ہر چیز کو الگ الگ ممیز کرکے رکھا ہے “۔ جبکہ اس سبق میں قرآن کریم کے احکامات میں سے بعض احکام ، منہیات میں سے بعض مناھی کی تفصیلات دی گئی ہیں اور یہ انسانی زندگی کے عملی معاملات سے متعلق ہیں۔ چناچہ درس کا آغاز شرک کی ممانعت سے ہوتا ہے ، اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ صرف اللہ وحدہ لا شریک مستحق عبادت ہے۔ اس کے بعد احکام شروع ہوتے ہیں۔ پہلا حکم والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں ہے۔ پھر رشتہ داروں ، مساکین اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک ، پھر اعطاء اور خرچ میں اعتدال اور حفاظت ، وفائے عہد ، ناپ تول برابر رکھنے کا حکم ، سچائی پر قائم رہنے کا حکم ، تکبر سے اجتناب اور آخر میں پھر شرک سے اجتناب۔ چناچہ تمام اخلاقی اور قانونی احکام کو عقیدہ توحید کے اندر باندھ دیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام پورے کا پورا اسلامی نظریہ حیات پر قائم ہے اور اسلا می نظریہ حیات کلمہ طیبہ پر قائم ہے۔ اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس کے انجام بد سے ڈرایا گیا ہے۔ امر تو عام ہے لیکن اسے صیغہ مفرد کی شکل میں لا کر ایک فرد کو مخاطب کیا گیا تاکہ ہر فرد یہ سمجھے کہ یہ حکم اسی کے لئے ہے اور مخصوص طور پر ہر فرد کے لئے صادر ہوا ہے۔ کیونکہ عقیدہ ایک شخصی معاملہ ہے اور اس کے بارے میں ایک شخص ہی انفرادی طور پر مسئول ہے اور انجام یہ ہے کہ جو شخص بھی شرک کا ارتکاب کرے گا ، وہ مذموم ہوگا ، کیونکہ اس نے قابل مذمت فعل کا ارتکاب کیا ہے اور پھر دوسرا انجام یہ ہے کہ وہ شرمندہ اور بےیارو مددگار رہ جائے گا ، اگرچہ اس کے خیال میں اس کے مددگار بہت ہوں اور جو شخص مذموم ہوجائے اور اس کی امداد کے لئے کوئی نہ آئے تو وہ بھی علیحدہ ہو کر شرمندگی کے ساتھ بیٹھ جاتا ہے۔ کیونکہ انسان ضعیفی کی حالت میں اکثر بیٹھ جاتا ہے۔ کوئی حرکت نہیں کرسکتا اس لئے لفظ قعود (بیٹھنا) ایسے شخص کے لئے اس جگہ نہایت ہی بامعنی ہے۔
Top