Tadabbur-e-Quran - Al-Israa : 22
لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا۠   ۧ
لَا تَجْعَلْ : تو نہ ٹھہرا مَعَ اللّٰهِ : اللہ کے ساتھ اِلٰهًا اٰخَرَ : کوئی دوسرا معبود فَتَقْعُدَ : پس تو بیٹھ رہے گا مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّخْذُوْلًا : بےبس ہو کر
اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو شریک نہ کرو کہ تو سزاوار مذمت اور دھتکارا ہوا کر رہ جائے۔
آگے کا مضمون۔ آیات 22 تا 39:۔ وپر آپ نے دیکھا کہ آیت 9 میں یہ فرما کر کہ اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ۔۔۔ الایۃ (یہ قرآن اس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سیدھا ہے) کلام کا رخ بعض دوسری متعلق باتوں کی طرف مڑ گیا تھا۔ اب پھر کلام اپنے اصل سلسلہ سے مربوط ہوگیا اور قرآن خدا تک پہنچنے کے جس راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اس کی وضاحت شروع ہوگئی۔ یہی راستہ فطرت اور عقل کا سیدھا راستہ ہے اور یہی اس عدل و احسان کی زندگی کو جود میں لاتا ہے جو خدا کو پسند ہے اور جس پر صالح معاشرہ اور صالح تمدن کی بنیاد ہے۔ یہاں سورة نحل کی آیت 90 ذہن میں پھر تازہ کرلیجیے جس میں قرآن کے اوامر اور منہیات کے کی اساسات واضح کی گئی ہیں۔ اس لیے کہ آگے کی آیات اسی اجمال کی شرح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتائ ذی القربی وینہی عند الفحشاء والمنکر والبغی۔۔۔ الایۃ۔۔ آگے آیات کی تلاوت کیجیے۔ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰهِ اِلٰـهًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا واحد کا خطاب جمع کے لیے : ہم متعدد مقامات میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ واحد کا خطاب بسا اوقات جمع کے لیے بھی آتا ہے۔ اس صورت میں گویا جماعت کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مخاطب ہوتا ہے۔ یہاں بھی یہی صورت ہے۔ چناچہ بیچ بیچ میں خطاب کے لیے جمع کا صیغہ بھی استعمال ہوگیا ہے جس سے خطاب کی اصل نوعیت پر روشنی پڑتی ہے۔ اس بیچ میں اگر کہیں خطاب آنحضرت ﷺ سے بھی ہوا ہے تو وہ جماعت کے امام کی حیثیت سے ہوا ہے اس کی حیثیت شخصی خطاب کی نہیں ہے۔ " فتقعد " کا مفہوم : فَتَقْعُدَ یہاں اس مفہوم میں آیا ہے جس مفہوم میں افعال ناقصہ مثلا فتکون، فتصیر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔ اردو میں بھی " بیٹھ رہو، " بیٹھ رہے " اس مفہوم میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس صورت میں بیٹھنے کے معروف مفہوم سے یہ لفظ مجرد ہوجاتا ہے۔ قرآن کے طریق اقوم کی بنیادی دفعہ : قرآن جس عدل یا طریق اقوم کی تعلیم دیتا ہے یہ اس کی بنیادی دفعہ ہے کہ خدا کے ساتھ کسی اور معبود کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ خالق، مالک، رازق صرف خدا ہے تو اس کے حقوق اور اس کی خدائی میں کسی اور کو ساجھی بنانا عدل کے منافی اور بہت بڑا ظلم ہے۔ چناچہ اسی بنیاد پر قرآن میں شرک کو ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ خدا کا شریک بنانے کا انجام : فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا، یہ خدا کے ساتھ کسی اور کو شریک بنانے کا انجام بیان ہوا ہے اور تقعد کا ظرف یوم القیامۃ یہاں محذوف ہے۔ یعنی اگر خدا کے ساتھ اس کے حقوق میں کسی اور کو شریک بناؤگے تو قیامت کے روز سزاوار مذمت اور مخذول ہو کر رہ جاؤگے۔ تم خود اپنی بدبختی کے ذمہ دار ہوگے اور تمہارے مزعومہ شرکاء و شفعاء میں سے نہ صرف یہ کہ کوئی تمہارا ساتھ نہ دے گا بلکہ وہ بھی تم پر لعنت اور نفرت کریں گے۔
Top