Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 13
وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِیًّاۙ
وَّحَنَانًا : اور شفقت مِّنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے وَزَكٰوةً : اور پاکیزگی وَكَانَ : اور وہ تھا تَقِيًّا : پرہیزگار
اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیز گار
” ہم نے اسے بچپن ہی میں حکم سے نوازا اور اپنی طرف سے اسے نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی اور وہ بڑا پرہیز گار تھا۔ “ یہ تھی وہ قابلیت جس سے اللہ نے ان کو نوازا تھا اور اس طرح منصب خلافت زکریا کی ذمہ داریاں نبھانے میں ان کی مدد کی گئی۔ اسے بچپن ہی میں حکم اور حکمت عطا کردی گئی تھی ، لہٰذا وہ اہلیت میں بھی یکتا کردیئے گئے جس طرح وہ اپنے نام اور اپنی ولادت میں ممتاز تھے۔ حکمت جو کسی بھی شخص میں بڑے تجربے کے بعد آتی ہے حضرت یحییٰ کو زمانہ طفولیت ہی میں عطا کردی گئی تھی۔ نیز آپ کو پیدائشی طور پر نرم دلی عطا کردی گئی تھی ، اس لئے ان کو اس کے اظہار کے لئے کوئی تکلیف نہ کرنا پڑی اور نہ اس کی ٹریننگ کر کے ، اس رویہ کو عادت ثانیہ بنانے کی ضرورت تھی۔ بلکہ وقت پیداش وہ ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ نرم دلی ہر ذمہ دار کے لئے خصوصاً نبی کے لئے ایک بنیادی صفت ہے تاکہ وہ مختلف لوگوں کو اپنے اردگرد جمع کرسکے اور لوگوں کے دلوں میں ان کی گہری محبت پیدا ہوجائے اور وہ کچے چلے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو طہارت ، عفت اور قلبی صفائی عطا کردی تھی۔ اس کے ذریعہ وہ دلوں کی کدورت ، اور دلوں کی میل کو صاف کرتے تھے اور عوام کے اندر پاکیزگی اور اخلاقی تطہیر کا کام کرتے تھے۔ وکان تقیاً (31) ” وہ بڑے پرہیز گار تھے۔ “ موصول باللہ تھے ، اللہ سے ڈرنے والے تھے ، اللہ کو ہر وقت پیش نظر رکھنے والے تھے ، اس سے ڈرنے والے تھے اور اللہ کی نگرانی کا خیال رکھنے والے تھے۔ وہ یہ جانتے تھے کہ اللہ ظاہر و باطن کو دیکھ رہا ہے۔ یہ تھا وہ زاد راہ جو اللہ نے بچپن ہی میں حضرت یحییٰ کو دے دیا تھا ، تاکہ وہ اپنے باپ کا خلیفہ ہو ، جس کے لئے زکریا نے اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اور گڑا گڑا کر دعا کی تھی اور رب نے اس دعا کو قبول کرلیا تھا اور یہ پاکیزہ بچہ ان کو عطا کیا تھا۔ یہاں آ کر یحییٰ بھی منظر سے اچانو اوجھل ہوجاتے ہیں ، پردہ گرتا ہے ، جس طرح اس سے قبل زکریا (علیہ السلام) اچانک پس منظر میں چلے گئے تھے ، لیکن چند جھلکیوں میں ان کی زنگدی کے خطوط کھینچ دیئے گئے ، ان کے رجحانات اور طرز زندگی کی جھلکیاں دکھا دی گئیں۔ پوری کہانی کا مقصد دو مناظر تھے ، حضرت زکریا کی دعا اور خدا کی جانب سے اعلان قبولیت اور یہ مقصد چند الفاظ میں عالم بالا سے حضرت یحییٰ کو آواز دے کر پکارنے اور ان کی اہلیت اور قابلیت کے ذکر کے اندر پورا کردیا گیا۔ لہٰذا تفصیلات دینے اور ایک ایک واقعہ قلم بند کرنے یک ضرورت ہی نہ رہی۔ اگر ان مناظر کے بعد کوئی حضرت یحییٰ کی زندگی کے بہت سے واقعات بھی دے دے تو مقصد قصہ میں کوئی اضافہ نہ کرسکے گا۔ اب قرآن کریم حضرت یحییٰ کی پیدائش سے بھی زیادہ عیجب ولادت کی طرف آتا ہے۔ یہ قصہ ولادت عیسیٰ (علیہ السلام) ہے۔ سیاق کلام بڑھاپے میں ایک بانجھ عورت اور ایک کھوسٹ بوڑھے سے بچہ کی ولادت کا عجیب منظر پیش کر کے اب بتدریج قارئین کو ایک نہایت ہی مختلف فیہ عجیب تر واقعہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اس دوسرے واقعہ میں زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ ایک کنواری سے بن باپ بچہ پیدا ہوگیا۔ اگر ہم خود حضرت انسان اور آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کو نظر انداز کردیں تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت تاریخ انسانیت میں ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اس کی کوئی مثال نہیں ہے ، نہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے ماقبل تاریخ میں اور نہ آپ کے بعد کی تاریخ میں۔ حضرت عیسیٰ کی ولادت سے بھی بڑا عجوبہ خود آدم کی تخلیق ہے ، لیکن اس وقت انسانیت موجود ہی نہ تھی کہ اللہ نے انسان اول کو کس طرح بغیر باپ اور ماں کے پیدا کیا۔ انسان بعد میں پیدا ہوئے اور انہوں نے تخلیق آدم کا مشاہدہ نہ کیا تھا۔ مشیت خداوندی نے یہ چاہا کہ یہ دوسرا عجوبہ خود لوگوں کے سامنے واقع ہو۔ حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوجائیں اور جب سے انسان کو اس کرئہ ارض پر آباد کیا گیا ہے اور جس سنت کے مطابق انسان کا سل سلہ توالدو تناسل جاری ہے اس سے ہٹ کر ایک واقعہ ایسا ہوجائے کہ لوگ بچشم سرا سے دیکھ لیں اور یہ واقعہ اس قدر مشہور ممتاز اور ناقابل فراموش ہو کر صدیوں تک آنے والی نسلیں اس سے عبرت لیں کیونکہ پہلا معجزہ اور اعجوبہ وجود انسان سے قبل ہوا تھا۔ اللہ نے اپنی تمام مخلوقات کے لئے ایک سنت جاری فرما دی ہے کہ تمام انواع و اقسام کے جاندار ایک مخصوص سنت توالد و تناسل کے مطباق چلتے رہیں اور یہ سلسلہ مرد و عورت سے جاری ہوگا۔ یہاں تک کہ جن چیزوں میں مرد اور عورت نہیں ہے ، ان میں بھی فرد واحد میں مذکر و مونث کے خلیے رکھ دیئے گئے ہیں۔ یہ سنت قرون سے چلتی آرہی ہے اور ذہن انساین میں یہ پوری طرح بیٹھ گئی ہے۔ انسان یہ سوچنے لگا ہے کہ شاید تخلیق کا یہی واحد طریقہ ممکن ہے۔ تخلیق آدم کو وہ بھلا بیٹھا کہ کس طرح پہلا انسان وجود میں آیا۔ انسانی سوچ اور مشاہدے سے یہ بات ذرا باہر بھی ہے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کی بن باپ تخلیق کر کے یہ بتایا کہ اللہ اپنی جاری کی ہوئی سنت کا خود پابند نہیں ہے۔ اللہ کا ارادہ آزاد ہے اس کی قدرت بےقید ہے اور اس کا ارادہ کسی شکل اور طریقہ کا پابند نہیں ہے۔ تالہ پابند نے نہیں ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰ جیسا واقعہ جاری نہ رہا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے لئے جو سنت جاری کر رکھی تھی اسے جاری رکھنا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے واقعہ سے توالدو تناسل انسانیت کی سنت جاریہ کو بدلنا مقصود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت ، مشیت اور ارادے کی آزادی کے ثبوت کے لئے بس یہ ایک مثال ہی کافی تھی کہ اللہ خود اپنے جاری کردہ قوانین کا پابند نہیں ہے۔ ولنجعلہ ایۃ للناس ” تاکہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشانی بنائیں۔ “ یہ واقعہ چونکہ سنت الہیہ سے ہٹ کر عجیب و غریب تھا اس لئے بعض فرقے اسے صحیح طرح نہ سمجھ سکے اور اس واقعہ کو ظاہر کرنے کی حکمت بھی وہ نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کی طرف الوہیت کی صفات کی نسبت شروع کردی اور آپ کی ولادت کے بارے میں اوہام و خرافات کا تانا بانا بننا شروع کردیا۔ انہوں نے ان کی اس تخلیق سے اللہ کا جو اصل مقصد تھا اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ ہدایت کے بجائے الٹا گمراہی کی طرف چلے گئے۔ یعنی بجائے اس کے کہ وہ کہتے کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت الہیہ بےقید ہے انہوں نے خود حضرت عیسیٰ کو الہ بنا لیا اور ان کے عقائد خراب ہوگئے۔ اس سورة میں قرآن کریم اس واقعہ کو ذرا تفصیل سے نقل کرتا ہے ، اس واقعہ کا حقیقی مقصد بتاتا ہے اور خرافات اور قصے کہانیوں کی تردید کرتا ہے۔ انداز بیان نہیات ہی پر تاثیر مناظر کی شکل میں ہے ، جو جذباتی مناظر اور انساین تاثرات سے بھرپور ہیں۔ جو شخص ان مناظر کی غور سے پڑھتا ہے اور چشم تصور سے دیکھتا ہے تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ کانپ اٹھتا ہے ، ذرا غور سے پڑھیں۔
Top