Fi-Zilal-al-Quran - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ کتاب الٰہی کو مضبوط تھام لے۔ ہم نے بچپن ہی میں ” حکم “ سے نوازا
یبحی خذ الکتب بقوۃ (91 : 21) ” اے یحییٰ کتاب الٰہی کو مضبوط سے تھام لے۔ “ حضرت یحییٰ پیدا بھی ہوئے ، بچپنا گزرا ، جوان ہوئے اور یہ سب کچھ ان دو مناظر کے درمیان گیپ میں ہوگیا۔ یہ قرآن کریم کا مخصوص فنی انداز بیان ہے۔ وہ صے کے اہم حلقوں کو پیش کردیتا ہے جن میں بھرپور زندگی اور ہماہمی ہوتی ہے۔ غیر اہم حلقے ذہن انسانی کے لئے چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ حضرت یحییٰ کو کلمہ ندا کے ساتھ پکارا جاتا ہے اور بعد میں ان سے بات ہوتی ہے کیونکہ آواز دے کر کسی کو پکارنے کا منظر نہایت ہی دلکش منظر ہوتا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا میں حضرت یحییٰ کا مقام کیا ہے ، پھر یہ کہ حضرت زکریا کی دعا کی قبولیت کس قدر اہم واقعہ تھا۔ ان کی دعا ہی یہ تھی کہ ان کا ولی وارث ہونا چاہئے ، جو ان کے بعد ان کا خلیفہ ہو اور منصب خلافت کو اچھی طرح چلائے ، نظریاتی حوالے سے بھی اور خاندانی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی۔ چناچہ حضرت یحییٰ کو یہ چارج دیا جارہا ہے تاکہ وہ حسب دعا اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ یبحی خذ الکتب بقوۃ (91 : 21) ” اے یحییٰ کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھام لے۔ “ اس کتاب سے مراد تورات ہے ، جو مسویٰ (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی کتاب تھی۔ اور انبیاء بنی اسرائیل اسی کتاب کو لے کر چلتے تھے ، اسی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلے کرتے تھے ۔ حضرت یحییٰ اپنے والد زکریا کے وارث تھے ، اس لئے ان کو آواز دی گیء کہ وہ اب اس بوجھ کو اٹھائیں اور قوت اور عزم سے اس امانت کو لے کر اٹھیں اور اس کام میں سستی نہ کریں اور نہ کوئی کمزوری دکھائیں اور اس وراثت کی ذمہ داریوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔ اس پکار کے بعد بتایا جاتا ہے کہ اللہ نے یحییٰ کو کیسی شخصیت عطا کی تھی تاکہ وہ منصب خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرے۔
Top