Tafseer-e-Madani - Maryam : 13
وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةً١ؕ وَ كَانَ تَقِیًّاۙ
وَّحَنَانًا : اور شفقت مِّنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے وَزَكٰوةً : اور پاکیزگی وَكَانَ : اور وہ تھا تَقِيًّا : پرہیزگار
اور نہیں ہم نے اپنی طرف سے ایک عظیم رحمدلی بھی عطا کی تھی اور پاکیزگی بھی اور وہ بڑے پرہیزگار تھے
16 حضرت یحیٰی کے لیے رحمدلی کی خاص عنایت و نوازش : سو یہ حضرت یحییٰ کیلئے ایک اور خاص نوازش تھی جس سے آپ جناب کو نواز گیا تھا۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے ان کو اپنی طرف سے اس عنایت سے بطور خاص نوازا تھا "۔ اور یہی شان ہوتی ہے حضرات انبیائے کرام کی کہ ان کو اللہ تعالیٰ اپنی خاص عنایات سے نوازتا اور سرفراز فرماتا ہے جس کی بناء پر وہ بچپن ہی سے باقی سب دنیا سے الگ اور ان کیلئے ایک نمونہ اور قدوہ بن جاتے ہیں۔ { من لدنا } کے الفاظ سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ اس صفت سے آنجناب کو بطور خاص اور وافر مقدار میں نوازا گیا تھا اور یہ رحمت وشفقت محبت و الفت اور سوز و گداز ہی انسان کے قلب و روح کی حرارت اور اس کی زندگی کی اصل علامت ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو انسان انسان نہیں بلکہ پتھر کی ایک مورت ہے۔ اور حضرات انبیاء و رسل نبوت و رسالت کے جس منصب جلیل پر فائز ہوتے ہیں اس کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ وہ شفقت و عنایت کے خاص درجہ و مرتبہ پر فائز ہوں۔ اور حضرت یحییٰ کو اس ضمن میں خاص امتیازی شان سے نوازا گیا تھا۔ سو ان کے اس سوز و گداز اور محبت الہی کے جوش کا اندازہ آپ کے ان ارشادات سے ہوسکتا ہے جو انجیلوں کے اندر موجود ہیں اور جن کی حرارت آج بھی دلوں کو گرما اور روحوں کو تڑپا دیتی ہے ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ۔ اللہ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے ۔ آمین۔ 17 لفظ { حنان } کا معنیٰ و مطلب ؟ : سو اس سے واضح فرمایا دیا گیا کہ حضرت یحییٰ کو حق تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص رحمت و شفقت عطا فرمائی گئی تھی جس سے آپ خلق خدا کے ساتھ شفقت اور رحم دلی سے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔ { حنان } اصل میں اس محبت کو کہا جاتا ہے جس میں خاص شفقت اور میلان شامل ہو۔ چناچہ عرب کہتے ہیں " حنت الناقۃ علی ولدہا " یعنی " اونٹنی نے اپنے بچے پر ترس کھایا اور اس سے پیار کیا "۔ اور اس معنیٰ میں وہ کہتے ہیں " حنت المرءۃ علی زوجہا "۔ اسی لیے عورت کو " حنہ " کہا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ (ابن کثیر، فتح القدیر اور محاسن التاویل وغیرہ) ۔ سو حضرت یحیٰی کو " حنان " کے اس وصف سے بھی بطور خاص نوازا گیا تھا۔ اور یہ لفظ محبت و شفقت، الفت و عنایت اور سوز و گداز کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ ایک عام اور معروف و متداول لفظ ہے۔ اس لیے تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے حضرت ابن عباس کی طرف یہ بات کس طرح منسوب کردی کہ مجھے اس کے معنیٰ معلوم نہیں۔ جیسا کہ ابن کثیر وغیرہ میں مروی و منقول ہے۔ 18 حضرت یحییٰ کے لیے پاکیزگی کی عنایت کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ کو بڑی پاکیزگی سے نوازا گیا تھا "۔ یعنی ظاہر و باطن اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے۔ سو آپ معاصی وذنوب کی ہر میل کچیل سے پاک صاف تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ نے نہ کبھی کوئی گناہ کیا اور نہ کسی گناہ کا کوئی ارادہ و خیال ہی آپ کے دل میں گزرا۔ سو آپ کے قلب مبارک کو اس طرح کے تمام شوائب سے پاک کردیا گیا تھا۔ (معارف وغیرہ) ۔ اور زکاۃ و پاکیزگی کی یہ صفت دراصل حنان ہی کا پرتو ہے۔ کیونکہ جب کسی کے اندر سوز و گداز کی صفت و کیفیت موجود ہوگی تو وہ اس کے نتیجے میں اخلاق و عقائد اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے پاک و صاف ہوگا اور کسی کدورت و آلائش کا کوئی اثر اس پر باقی نہیں رہے گا۔ نہ اس کے ظاہر میں نہ اس کے باطن میں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید فی کل آن وحین - 19 حضرت یحییٰ کی صفت تقویٰ و پرہیزگاری کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آپ بڑے پرہیزگار انسان تھے "۔ چناچہ آپ نے زندگی بھر کوئی گناہ تو درکنار، کسی گناہ کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا۔ (المراغی، الصفوۃ، فتح القدیر وغیرہ) ۔ اور آپ کی صفت اور شان یہ رہی کہ زندگی بھر اپنے رب کے مطیع و فرمانبردار رہے۔ اس کے اوامرو ارشادات پر ہمیشہ کاربند رہے اور اس کے نواہی سے ہمیشہ بچتے رہے۔ سو صفت حنان و زکاۃ کے بعد صفت تقویٰ کا ذکر آپ کی ان دونوں صفتوں کو مزید اجاگر کر رہا ہے۔ کیونکہ ان دونوں صفتوں کا تعلق انسان کے باطن سے ہوتا ہے اور باطن کی اس خوبی اور روشنی کا اظہار اس کے ظاہری اعمال و اَخلاق اور صفات و کردار سے ہوتا ہے۔ سو حضرت یحییٰ بڑے ہی متقی اور پرہیزگار شخص تھے۔ ان کی ساری زندگی زہد اور ترک دنیا کی زندگی تھی۔ انہوں نے توبہ اور رجوع الی اللہ کی منادی اس زور و شور سے کی کہ اس سے دشت وجبل گونج اٹھے۔ ہیکل میں ان کی تقریر سے دل دہل جایا کرتے تھے۔ دنیا سے ان کا تعلق صرف دینے کے لیے تھا۔ اس سے انہوں نے لیا کچھ نہیں۔ جنگل کے شہد اور ٹڈیوں پر آنجناب کا گزارہ تھا۔ کمبل کی پوشاک سے تن ڈھانکتے اور جس سر کو چھپانے کے لیے انہوں نے اس دنیا میں کوئی چھت نہیں بنائی تھی اس کو خدا کی رضا کے لیے اور اس کی کتاب کی خاطر کٹوا کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام -
Top