Fi-Zilal-al-Quran - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
اللہ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ “
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ............... ” اللہ تعالیٰ سود کا مٹھ ماردیتا ہے اور صدقات کو نشوونما دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی سچا ہے اور اس کی وعید بھی یقینی ہے ۔ ہمارے اس دور میں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ آج کے دورجدید میں جو معاشرے بھی سودی کاروبار کرتے ہیں ان کے افراد کے دلوں میں سکون اور اطمینان نصیب نہیں ہے ان معاشروں سے برکت اٹھ گئی ہے اور خوشحالی اور اطمینان قلب ختم ہے ۔ اللہ تعالیٰ ربا کو محو کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ ایسے معاشرے پر اپنے فیوض وبرکات نازل نہیں فرماتا جس میں ربا کی گندگی پائی جاتی ہو ۔ ایسے معاشروں کو وہ قحط اور بدنصیبی سے دوچار کرتا ہے بظاہر تو یوں نظرآتا ہے کہ معاشرے میں ہر سو خوشحالی ہی خوشحالی ہے ۔ ہر طرف وافر پیداوار نظر آتی ہے ۔ ہر طرف سے وافر مقدار میں آمدن ہورہی ہے لیکن جس قدر زیادہ آمدن ہورہی ہے اس قدر برکت نظر نہیں آتی ۔ اس طرح کہ انسان اس وافر آمدنی سے پاکیزہ طریقے سے امن و اطمینان کے ساتھ فائدہ اٹھائے ۔ اس سے پہلے ہم اس محرومی اور بدنصیبی کی طرف اشارہ کرچکے ہیں جو مغرب کے مالدار اور کثیر آمدنیوں والے ممالک میں لوگوں کے چہروں سے ٹپکی پڑتی ہے اور اس روحانی قلق اور پریشانی کا بیان بھی ہم اس سے قبل بیان کرچکے ہیں ۔ جس میں زیادہ دولت مندی کی وجہ سے اضافہ ہی ہورہا ہے ، کوئی کمی نہیں ہوتی ۔ ان ممالک کی جانب سے یہ قلق و اضطراب اور یہ محرومی اور بدحالی تمام دنیا میں پھیل رہی ہے ۔ اس لئے کہ ان ممالک میں انسانیت ایک دائمی اور مسلسل مہلک جنگ میں مصروف ہے ۔ وہاں کے لوگ صبح وشام سرد جنگ میں اپنی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ یہ شب وروز کے بعد ان اعصاب پر زندگی کا بوجھ بھاری ہوتا جارہا ہے۔ چاہے انہیں اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ اس ذہنی اور اعصابی کشمکش کی وجہ سے نہ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، نہ عمر میں برکت ہوتی ہے ، نہ ان کی صحت قابل رشک ہوتی ہے اور نہ ان کے دل مطمئن ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس جو معاشرہ اجتماعی تعاون اور باہم کفالت پر استوار ہو ، چاہے یہ تعاون بذریعہ سدقات واجبہ ہو یا صدقات نافلہ ہو اور اس معاشرے میں باہم محبت ، باہم احسان ، باہم رضامندی کی روح کارفرما ہو اور جس میں ہر فرد تگ و دو محض اس لئے ہو کہ وہ اللہ کی رضامندی حاصل کرکے اس کے اجر کا مستحق بنے اور جسے ہر وقت اطمینان ہو کہ اللہ اس کا مددگار ہے اور وہ صدقہ اور احسان کا اجر اس سے کئی گنا دے گا تو ایسے تمام معاشروں پر اللہ تعالیٰ اپنی برکت نازل کرتا ہے ، جو معاشرے کے افراد پر بھی برکات نازل ہوتی ہیں اور ایسے معاشرہ کی جماعتوں پر بھی فیوض نازل ہوتے ہیں ۔ ان کے مال میں برکت ہوتی ہے ، ان کے رزق میں فراوانی ہوتی ہے ، ان کی صحت میں برکت ہوتی ہے ، ان کی قوت میں برکت ہوتی ہے اور ان کے دل اطمینان سے سرشار ہوتے ہیں اور دل برقرار ہوتے ہیں ۔ جن لوگوں کو انسان کی موجودہ صورتحال میں یہ حقائق نظر نہیں آتے ، وہ اس قسم کے لوگ ہیں جو ان حقائقب کو درحقیقت دیکھنا ہی نہیں چاہتے ، اس لئے کہ ان کی نفسانی خواہشات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ وہ ان حقائق کو نہ دیکھیں ۔ یہ لوگ ایسے ہیں جن کی آنکھوں پر پردے پڑگئے ہیں اور یہ پردے انہوں نے قصداً ڈالے ہوئے ہیں اور یہ لوگ وہ سود خوار ہیں جن کی ذاتی مصلحت اس میں ہے کہ یہ سودی نظام دائم وقائم رہے ، اس لئے ان حقائق کو نہ دیکھ سکے ۔ وَاللَّهُ لا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ............... ” اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے ، بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا ۔ “ اس تعقیب اور اس نتیجے سے یہ بات قطعی طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ سودی نظام اقتصادیات کی حرمت کے بعد بھی اگر کچھ لوگ اسے جاری رکھنے پر اصرار کرتے ہیں تو وہ گناہ گار اور کفار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے محبت نہیں کرتا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال قراردیتے ہیں ان پر کفر اور گناہ گاری کی صفت کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ وہ اپنی زبان سے ایک ہزار مرتبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُولُ اللّٰہِ............... کہتے رہیں ، اس لئے کہ اسلام صرف زبانی کلمات کا نام نہیں ہے وہ تو ایک مکمل نظام حیات اور طریقہ عمل ہے اور اس کے سوا کسی ایک جزو کا انکار اس بات کو مستلزم ہے کہ وہ سب کا انکار کردے ۔ ربا اور سود خوری کی حرمت میں تو کوئی شبہ نہیں ہے اور اسے حلال تصور کرنے اور اس کی اساس پر اپنی اقتصادیات کو استوار کرنے پر یقیناً ایک شخص گناہ گار ہوتا ہے اور کفر کا ارتکاب کرتا ہے ۔ نعوذ باللہ منہ ۔ اس کفریہ اور غیر صالح نظام زندگی کے بالمقابل اور سودی اقتصادیات کے حاملین اور حامیوں کے لئے اس حقارت آمیز ڈراوے کے مقابلے میں ، قرآن کریم اور عمل صالح کے باب کا آغاز کرتا ہے جو اس معاملے میں جماعت مسلمہ کی اہم خصوصیات ہیں اور اس ظالمانہ سودی نظام کے بالمقابل جو صالح اسلامی نظام ہے ، اس کا مرکزی نکتہ یہاں بیان کیا جاتا ہے ، یعنی نظام ربا کے مقابلے میں نظام زکوٰۃ ۔
Top