Al-Qurtubi - Al-Baqara : 276
یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ
يَمْحَقُ : مٹاتا ہے اللّٰهُ : اللہ الرِّبٰوا : سود وَيُرْبِي : اور بڑھاتا ہے الصَّدَقٰتِ : خیرات وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : پسند نہیں کرتا كُلَّ : ہر ایک كَفَّارٍ : ناشکرا اَثِيْمٍ : گنہگار
خدا سود کو نابود (یعنی بےبرکت) کرتا اور خیرات (کی برکت) کو بڑھاتا ہے اور خدا کسی ناشکرے گنہگار کو دوست نہیں رکھتا
مسئلہ نمبر : (27) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” یمحق اللہ الربوا “۔ یعنی دنیا میں اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دے گا یعنی اس کی نمو ختم ہوجائے گی اگرچہ وہ زیادہ ہی ہو، حضرت ابن مسعود ؓ نے حضور نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ان الربا وان کثر فعاقبتہ الی قل (بلاشبہ سود اگرچہ بہت زیادہ ہو اس کا انجام قلیل ہی ہے) اور یہ بھی کہا گیا ہے : یمحق اللہ الربا “۔ یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ سود کو مٹا دے گا، اللہ تعالیٰ کے ارشاد (آیت) ” یمحق اللہ الربوا “ کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس سے کوئی صدقہ، حج، جہاد، اور صلہ رحمی قبول نہیں کرے گا۔ المحق کا معنی النقص والذھاب، کم ہونا یا گھٹانا اور ختم ہونا ہے اور اسی سے محاق القمر یعنی چاند کا گھٹنا بھی ہے۔ (آیت) ” ویربی الصدقت “ یعنی وہ دنیا میں خیرات کو برکت کے ساتھ بڑھاتا ہے اور آخرت میں ان کا ثواب کئی گنا کرکے بڑھا دے گا اور صحیح مسلم میں ہے : ” بیشک تم میں سے کسی کا صدقہ اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہوتا ہے اور وہ اسے اس کے لئے بتدریج بڑھاتا رہتا ہے جس طرح میں سے کوئی گھوڑی اور گائے کے بچوں کی نشوونما کرتا ہے، یہاں تک کہ قیامت کا دن آجائے گا اور بیشک ایک لقمہ احد پہاڑ کی مثل ہوجائے گا۔ “ (1) (جامع ترمذی، باب ما جاء فی فضل الصدقۃ، حدیث نمبر 598، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، صحیح بخاری، کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر 1321، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابن زبیر نے یمحق یا کے ضمہ کے کسرہ کو مشدد اور یربی کو فتحہ کے ساتھ اور باء کو مشدد پڑھا ہے اور حضور نبی مکرم ﷺ سے اسی طرح مروی ہے۔ مسئلہ نمبر : (28) قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واللہ لا یحب کل کفار اثیم “۔ اس میں کفار کی صفت اثیم مبالغہ کے لئے لگائی گئی ہے، اس حیثیت سے کہ دونوں مختلف ہیں، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کفار میں اشتراک کے معنی کو زائل کرنے کے لئے یہ صفت لگائی گئی ہے کیونکہ کبھی اس کا اطلاق اس کسان پر بھی ہوتا ہے جو زمین میں دانا چھپاتا ہے۔ (یعنی کاشت کرتا ہے) ابن فورک نے کہا ہے۔
Top