Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 111
قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ لَكَ وَ اتَّبَعَكَ الْاَرْذَلُوْنَؕ
قَالُوْٓا : وہ بولے اَنُؤْمِنُ : کیا ہم ایمان لے آئیں لَكَ : تجھ پر وَاتَّبَعَكَ : جبکہ تیری پیروی کی الْاَرْذَلُوْنَ : رذیلوں نے
’ انہوں نے جواب دیا ” کیا ہم تجھے مان لیں حالانکہ تیری پیروی رذیل ترین لوگوں نے اتخیار کی ہے۔ “
قالوا انومن لک و اتبع الارزذلون (111) ’ یہاں ارزلون سے مراد غرباء فقرئا ہیں اور یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو رسولوں کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ یہی لوگ ایمان لاتے اور استقامت بھی کرتے ہیں اور ان غرباء کو راہ ہدایت اختیار کرنے سے یہی بےکار کبرا روکتے ہیں اور یہ اس لئے روکتے ہیں کہ معاشرے میں ان کی پوزیشن اور ان کا مقام و مرتبہ کہیں آگے سے گر نہ جائے۔ غریب لوگ تو ہمیشہ دعوت پر لبیک کہتے ہیں اور کبرا محروم رہتے ہیں ان کا مقام و مرتبہ انہیں حق سے دور رکھتا ہے۔ وہ اپنی مصلحتوں ، جھوٹے حالات اور وہی روایات کے خول سے باہر نہیں آسکتے۔ پھر یہ کبرا اور معتربین عقیدہ توحید اختیار کر کے یہ پسند نہیں کرتے کہ عامتہ الناس اور جمہور کے ساتھ ان کا مقام اور مرتبہ برابر ہوجائے۔ کیونکہ اسلام میں داخل ہو کر نہ وہ خصوصی مراعات کا مطالبہ کرسکتے ہیں اور جھوٹے مرتبے کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ جبکہ اسلامی معاشرے میں ایک ہی قدر ہے ” ایمان اور عمل صالح ‘ یہی کسی کو اٹھانی ہے اور سکی کو گراتی ہے اور اسلامی معاشرے میں ایک ہی میزان ہے ” عقیدہ اور درست عمل “۔ چناچہ حضرت نوح ان کو ایسا جواب دیتے ہیں جو ان ثابت شدہ قدروں کی تصدیق کرتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ رسول کا فریضہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ لوگ جو کچھ کرتے ہیں ان کا ذمہ دار سوال نہیں ہے ۔ حساب و کتاب لینے والا اللہ ہے۔
Top