Fi-Zilal-al-Quran - Ash-Shu'araa : 112
قَالَ وَ مَا عِلْمِیْ بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَۚ
قَالَ : (نوح) نے کہا وَمَا عِلْمِىْ : اور مجھے کیا علم بِمَا : اس کی جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
نوح نے کہا ” میں کیا جانوں کہ ان کے عمل کیسے ہیں
قال وما علمی ……نذیر مبین (115) یہ بڑے لوگ عوام کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ ان کے اخلاق و عادات اعلیٰ معیار کے نہیں ہوتے اور نہ ہی اعلیٰ طبقات میں برداشت کئے جاتے ہیں کیونکہ یہ اعلیٰ طبقات کے لوگ بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں اور ذوق لطیف رکھتے ہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان سے کہتے ہیں کہ میں تو لوگوں سے ایمان لانے کے سوا کچھ مطالبہ نہیں کرتا اور یہ غریب لوگ جب ایمان لے آئے ہیں تو میں ان سے اب اور کیا مطالبہ کروں۔ اس سے قبل ان کے جو اعمال تھے وہ خدا ہی جانتا ہے۔ ان کی قدر و قیمت کا تعین اللہ کرے گا۔ اور اچھائیوں اور برائیوں پر جزا و سزاب ھی اللہ دے گا۔ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور تمہاری حالت ہی ہے کہ وہ مانشعرون ” تم شعور نہیں رکھتے “ کہ اللہ کے ترازو میں کون وزن رکھتا ہے جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرا فریضہ صرف کھلے اندازے ڈرانا ہے۔ جب حضرت نوح (علیہ السلام) نے واضح دلائل اور سیدھی منطق پیش کی اور اب وہ اس بات سے عاجز آگئے کہ حضرت نوح کے ساتھ مزید کوئی مکالمہ کرسکیں تو انہوں نے وہی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی جس کو سرکش اور ظالم اور جابر ہمیشہ اختیار کرتے ہیں۔ یعنی حجت اور برہان کے مقابلے میں ڈنڈا۔ ہر زمان و مکان میں لاجوبا انسان کا یہی دستور ہوتا ہے کہ جب اس کے پاس دلیل کا توشہ ختم ہوتا ہے تو وہ ہتھیار نکالتا ہے۔
Top