Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 33
اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ اصْطَفٰٓي : چن لیا اٰدَمَ : آدم وَنُوْحًا : اور نوح وَّاٰلَ اِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کا گھرانہ وَاٰلَ عِمْرٰنَ : اور عمران کا گھرانہ عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (رسالت کے لئے) منتخب کیا تھا۔
درس 24 ایک نظر میں بعض وہ روایات ‘ جن میں رسول اکرم ﷺ اور وفد نجران کے درمیان مناظرے کیا بیان آیا ہے۔ یہ کہتی ہیں کہ اس سورت میں جن قصوں کا ذکر ہوا ہے ۔ مثلاً حضرت عیسیٰ کی ولادت ‘ ان کی والدہ کی ولادت ‘ حضرت یحییٰ اور دوسرے واقعات ‘ ان شبہات کے رد میں نازل ہوئے ۔ جن کو لے کر یہ وفد آیا تھا ۔ اور ان لوگوں کے شبہات کی عمارت قرآن کریم کی اس آیت پر کھڑی کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ حضرت عیسیٰ کَلِمَۃُ اللّٰہِ …………ہیں جو مریم کی طرف آیا اور وہ ” اس کا روح “ ہیں نیز سورت مریم میں جن امور کا ذکر نہ ہوا تھا انہوں نے اس کے بارے میں رسول ﷺ سے جواب طلب کیا تھا۔ یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس سورت میں جس طرح ان قصوں کو لایا گیا ہے وہ بعینہ اسی طریقہ پر ہے جس طرح قرآن کریم قصوں کو لاتا ہے۔ یعنی کچھ حقائق پیش نظر ہوتے ہیں ۔ اور ان قصوں کے ذریعے قرآن کریم ان حقائق کو ذہن نشین کرتا ہے اور وہ حقائق دراصل پوری سورت کا موضوع سخن ہوتے ہیں ‘ جو اس موضوع کے گرد گھومتے ہیں ۔ اور قصوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ خود بخود ان سے وہ حقائق ظاہر ہوتے ہیں اور ذہن نشین ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور وہ حقائق زندہ حقائق بن جاتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بعض حقائق اور تصورات کے قصوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذہن نشین کردیا جاتا ہے ‘ انسان پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ زندہ صورت میں نظر آتے ہیں ۔ وہ حقائق زندہ حقائق بن جاتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بعض حقائق اور تصورات کے قصوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذہن نشین کردیا جاتا ہے ‘ انسان پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ زندہ صورت میں نظر آتے ہیں ۔ وہ حقائق انسان کی زندگی میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں جس طرح اسکرین پر کردار ہوتے ہیں ۔ محض فلسفیانہ اور تجریدی انداز بیان کے مقابلے میں حکایتی انداز بیان بہت ہی موثر ہوتا ہے ۔ اگر غور کریں تو ان قصوں سے بھی وہ حقائق اچھی طرح کھل کر سامنے آتے ہیں جو اس سورت کا موضوع ہیں اور یہ سورت ان حقائق پر مرکوز ہے ۔ اور جن خطوط پر اس میں بحث ہورہی ہے اسی پر یہ قصے چلتے ہیں ۔ اس لئے ان قصوں میں ‘ ان کے شان نزول کا کوئی مخصوص واقعہ نظر نہیں آتا ۔ بلکہ قصوں سے وہ واقعات لئے گئے ہیں جو اصل واقعات ہیں اور جن سے اسلام کا نظریاتی پہلو اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ اس سورت کا اصل مسئلہ جس طرح کہ ہم اس سے پہلے کہہ آئے ہیں ۔ عقیدہ توحید ہے ۔ یہ کہ اللہ اپنی ذات میں ایک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ موجود نہیں ہے ۔ اور یہ کہ وہ واحد نگہبان ہے اور اس جہاں کو چلانے والا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اور دوسرے وہ قصص جو اس کی تکمیل میں یہاں لائے گئے ہیں وہ اس عقیدہ ٔ توحید کو اچھی طرح ثابت کرتے ہیں ۔ یہ قصص اللہ کے لئے اولاد کے تصور کی نفی کرتے ہیں ‘ اس لئے شرک کے تصور کو رد کرتے ہیں ۔ وہ ان تصورات کو بعید از قیاس اور بعید ازفہم بناتے ہیں ۔ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس قسم کے شبہات غلط ہیں ۔ اور ایسے تصورات کھوٹے تصورات ہیں ۔ اس لئے حضرت مریم کی پیدائش کے واقعات کھول کر بیان کئے جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور متعلقہ واقعات دیئے جاتے ہیں۔ یہ واقعات اس انداز میں لائے جاتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اس کی بشریت کے بارے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا ۔ اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی طرح رسول ہیں جس طرح دوسرے رسول گزرے ہیں ۔ ان کا ہی مقام ہے جو ان رسولوں کا تھا۔ ان کی طبعی حقیقت بھی وہی ہے جو ان رسولوں کی تھی ‘ یہ قصص حضرت عیسیٰ کی اور غیر معمولی پیدائش کے خارق العادت واقعہ کی ایسی تعبیر اور ایسی تشریح کرتے ہیں کہ جس سے اس اعجوبے کی دل لگتی تعبیر سامنے آجاتی ہے ۔ جس میں کوئی پیچیدگی اور کوئی لاینحل عقدہ نہیں رہتا ۔ اور اس تعبیر پر دل و دماغ بالکل مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ معاملہ ایک عام اور عادی معاملہ بن جاتا ہے اس میں کوئی بات خارق العادت نظر نہیں آتی اور قصے کے آخر میں جو اختتامیہ آتا ہے وہ قابل غور ہے۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ” بیشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی پیدائش آدم کی طرح تھی ۔ اس کو اللہ نے مٹی سے بنایا اور پھر اس کو کہا ہوجا ‘ تو ہوگیا “ یوں دل کو یقین اور سکون نصیب ہوگیا ۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس سادہ حقیقت کے بارے میں کیونکر شبہات پیدا ہوئے۔ اس سورت میں جو دوسرا اہم مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ یہ دوسرا مسئلہ بھی پہلے مسئلے یعنی عقیدہ توحید پر مبنی ہے۔ یعنی دین اسلام ہے اور اسلام کا مفہوم اتباع اور انقیاد ہے ۔ یہ بات بھی ان قصص کے اندر بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے کہتے ہیں ” میں اپنے سے پہلے نازل ہونیوالی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور اس لئے کہ میں حلال کروں بعض ان اشیاء کو جو تم پر حرام قرار دی گئی تھیں ۔ “ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ رسول دراصل بھیجا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے نظام زندگی تجویز کرے ۔ ان کے لئے حلال و حرام کا ضابطہ وضع کرے تاکہ اہل ایمان اسے تسلیم کریں اور اطاعت کریں ۔ اس کے بعد حواریوں کی زبانی بھی اسی مفہوم کی تائید کی گئی ۔” جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہہ یہ لوگ کفر پر کمر بستہ ہوگئے ہیں ‘ تو آپ نے کہا کون ہے میری مدد کرنے والا اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے کہا :” ہم ہیں اللہ کے مددگار ہم اللہ پر ایمان لائے ‘ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے اس پر جو تونے اتارا ہے اور ہم رسول کے مطیع فرمان ہوگئے ہیں۔ ہمیں بھی آپ گواہوں میں لکھ دیجئے ۔ “ اس سورت کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ اہل ایمان اور ان کے اللہ کے درمیان تعلق کی کیا نوعیت ہوتی ہے ۔ ان قصص میں تعلق باللہ پر بھی کافی بات ہوئی ہے ۔ ان قصوں میں ان برگزیدہ ہستیوں کے حالات بیان ہوئے ہیں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا تھا ‘ اور ان میں سے بعض دوسروں کی اولاد تھے ۔ ان قصوں میں بیگم عمران کے قصے میں تعلق باللہ کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے ۔ وہ اپنی بچی کے بارے میں اپنے رب سے یوں مخاطب ہوتی ہے جیسے اسے دیکھ رہی ہو ‘ اسی طرح حضرت مریم سے حضرت زکریاعلیہ السلام کا مکالمہ ‘ حضرت زکریا کا اپنے رب کے جناب میں عاجزانہ دعا اور التجاء ‘ پھر حواریوں کا اپنے نبی کو لبیک کہا اور پھر اللہ تعالیٰ سے ملتجی ہونا ‘ یوں ان قصوں میں تعلق باللہ کے زندہ مناظر نظر آتے ہیں ۔ جب یہ قصص ختم ہوتے ہیں تو ان پر ایسا اختتامیہ آتا ہے جس میں یہ تمام حقائق دہرادیئے گئے ہیں جن کے لئے یہ قصص لائے گئے تھے ۔ اور ان حقائق کو خلاصہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس خلاصے میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت بیان ہوتی ہے ۔ مخلوق کا مزاج اور تخلیق میں ارادہ الٰہیہ کے دخل کے بارے میں حقائق بیان ہوئے ہیں ۔ یہ بیان خالص وجدانی بیان ہے ۔ اہل کتاب کو ان حقائق کے تسلیم کرنے کء دعوت دی گئی ہے اور ان کو پھر دعوت مباہلہ دی گئی ۔ اس سبق کے آخر میں پھر ایک جامع اور مانع بیان دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ آپ عام اہل کتاب کو اس حقیقت کی طرف دعوت دیں ‘ چاہے وہ مناظرہ کے لئے آئے ہوں یا نہ آئے ہوں ۔ جو اس وقت موجود تھے یا جو آج کے بعد کے ادوار میں موجود ہیں ۔ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (64) کہو ‘ اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہار درمیان یکساں ہے ۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ‘ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ “ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ‘ ہم تو مسلم ہیں۔ “ یہاں یہ مباحثہ ختم ہوجاتا ہے ‘ اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام لوگوں سے کیا مطالبات کرتا ہے ۔ وہ زندگی کے کیا قواعد وضع کرتا ہے۔ یہاں دین اور اسلام کا مفہوم بتایا جاتا ہے ۔ ہر وہ بھدی صورت صاف ہوجاتی ہے اور وہ تحریف شدہ نظام چھٹ کر رہ جاتا ہے ۔ جس کے بارے میں اس کے ماننے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اسلام ہے ۔ اور وہ دین ہے حالانکہ وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ غرض اس سبق کا یہ اصل موضوع تھا اور یہی موضوع اس سورت کا بھی موضوع تھا۔ جسے ان قصص نے بیان کیا ایک دلکش اور دلچسپ کہانی کی شکل میں ‘ جس میں گہرے اشارے موجود تھے ۔ قرآن میں قصص کے بیان کی غرض وغایت ہی یہ ہے ۔ اس غرض وغایت کے لئے یہ قصے مناسب اسلوب میں آتے ہیں ۔ اور مختلف سورتوں میں ان قصص کو اسی خاص اسلوب میں لایا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سورت مریم میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اور یہاں بھی یہ قصہ بیان ہوا ہے ۔ یہاں اور وہاں دونوں جگہ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کے بعض حصوں کو مختصر بیان کیا گیا اور بعض تفصیلات دی گئی ہیں ۔ مثلاً سورت مریم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے حصے کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت مریم کی ولادت کا ذکر وہاں نہیں تھا ۔ یہاں حواریوں کے ساتھ مفصل کلام ‘ اور ولادت کا حصہ مختصر ہے ۔ جبکہ یہاں اختتامیہ بہت ہی طویل ہے ۔ اس لئے کہ یہاں جن موضوعات پر مباحثہ تھا وہ موضوعات بہت ہی اہم تھے ۔ مثلاً عقیدہ توحید ‘ دین کا صحیح تصور ‘ وحی الٰہی اور رسالت کا تصور جبکہ یہ مسائل سورت مریم میں زیر بحث نہ تھے ۔ ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان قصص میں قرآن کا اسلوب کیا ہے ۔ یہ اسلوب ہمیشہ سورت کے موضوعات کے پیش نظر طے ہوتا ہے ۔ اب ہم آیات پر بحث کریں گے ۔ اس قصے کا آغاز ان لوگوں کی فہرست سے ہوتا ہے جو برگزیدہ تھے اور جنہیں اللہ نے باررسالت کے اٹھانے کے لئے چن لیا تھا۔ ابتدائے آفرینش سے یہ رسالت ایک تھی اور جس دین کو پیش کیا گیا وہ ایک ہی دین تھا۔ ان لوگوں کا انتخاب اس لئے ہوا تھا کہ وہ اقوام اور ازمنہ کی طویل ترین انسانی تاریخ میں قافلہ ایمان کے سالار ہوں ‘ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ ایک ہی سلسلے کے تھے اور جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لوگوں کو نسب نامہ طبعی طور پر ملتا ہو اور وہ ایک دوسرے کی نسبی ذریت ہوں ۔ (اگرچہ ان سب کا نسب نامہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) پر جاکر ملتا ہے) ان کا حقیقی نسب نامہ تو یہ ہے کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے منتخب ومختار بنالیا تھا ‘ اور ان کا نسب نامہ ایک نظریاتی نسب نامہ تھا جس کے مطابق یہ قافلہ ایمانی چل رہا تھا۔ سیاق کلام میں حضرت آدم اور حضرت نوح کو بطور فرد گنوایا ہے ۔ لیکن حضرت ابراہیم اور عمران کے خاندانوں کا ذکر کیا گیا۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت آدم اپنی ذاتی حیثیت اور حضرت نوح اپنی ذاتی حیثیت میں قابل احترام اور برگزیدہ تھے ۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت عمران کی اولاد بھی قابل احترام تھی ۔ اور یہ احترام اور برگزیدگی اس اصول کے مطابق تھا جس کا ذکر سورة بقرہ میں ہوا ہے ۔ اور وہ قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ برکت اور احترام جو خاندان نبوت میں آتا ہے وہ محض خونی وراثت کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ وہ نظریاتی وراثت ہے۔ وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (124) ” اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چندباتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ “ ابراہیم نے عرض کیا :” اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ۔ “ اس نے جواب دیا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ۔ “ بعض روایات میں آتا ہے کہ عمران حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے ۔ تو اس صورت میں حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے اس خاص برانچ کا ذکر ایک مخصوص مقصد کے لئے کیا گیا ہے یعنی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کے قصوں کے لئے بطور تمہید اس کا ذکر ہوا ‘ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ اس لئے کہ یہ حضرات بنی اسرائیل کے پیشوا تھے ‘ یعنی رسول ﷺ کے وقت اہل یہود تھے اور یہاں آئندہ بحث چونکہ نصاریٰ کے بارے میں ہونے والی تھی اس لئے حضرت موسیٰ اور حضرت یعقوب کے ذکر کی ضرورت نہ تھی ۔
Top