Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 61
فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ١۫ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ
فَمَنْ : سو جو حَآجَّكَ : آپ سے جھگڑے فِيْهِ : اس میں مِنْ بَعْدِ : بعد مَا : جب جَآءَكَ : آگیا مِنَ : سے الْعِلْمِ : علم فَقُلْ : تو کہ دیں تَعَالَوْا : تم آؤ نَدْعُ : ہم بلائیں اَبْنَآءَنَا : اپنے بیٹے وَاَبْنَآءَكُمْ : اور تمہارے بیٹے وَنِسَآءَنَا : اور اپنی عورتیں وَنِسَآءَكُمْ : اور تمہاری عورتیں وَاَنْفُسَنَا : اور ہم خود وَاَنْفُسَكُمْ : اور تم خود ثُمَّ : پھر نَبْتَهِلْ : ہم التجا کریں فَنَجْعَلْ : پھر کریں (ڈالیں) لَّعْنَتَ : لعنت اللّٰهِ : اللہ عَلَي : پر الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
یہ علم آجانے کے بعد جو کوئی آپ سے جھگڑا کرے تو اس سے کہو کہ آؤ ہم اور تم خود بھی آجائیں ۔ اور اپنے بال بچوں کو بھی لے کر آئیں اور اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت۔ “
اس کے بعد اس موضوع پر رسول اللہ کے ساتھ جو لوگ مباحثہ کرتے تھے ‘ رسول ﷺ نے بھرے مجمعے میں انہیں دعوت مباہلہ دی ۔ یعنی سب آجائیں اور اللہ سے دست بدعا ہوں کہ اللہ جھوٹوں پر لعنت کرے ۔ اس چیلنج کے انجام سے وہ لوگ ڈر گئے اور انہوں نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا۔ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ رسول اللہ ﷺ کا موقف سچا ہے ۔ لیکن جس طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ اسلام اس لئے قبول نہ کیا کہ ان لوگوں کو اپنے معاشرے میں ایک بلند مقام حاصل تھا ۔ نیز یہ لوگ ان کے مذہبی پیشواؤں میں سے تھے اور اس دور میں اہل کنیسہ کو اپنی سوسائٹی میں مکمل اقتدار حاصل تھا اور اس کے ساتھ ان کے بڑے مفادات وابستہ تھے ۔ اس سوسائٹی میں وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ یہ بات نہ تھی کہ جو لوگ دین اسلام سے اعراض کررہے تھے ان کے سامنے کوئی دلیل نہ پیش کی گئی تھی بلکہ ان کے بعض مفادات ایسے تھے جنہیں وہ نہ چھوڑ سکتے تھے ‘ کچھ ایسی نفسیاتی خواہشات میں وہ گھرے ہوئے تھے جن پر وہ یہ نہ کرسکتے تھے ۔ حالانکہ سچائی واضح ہوگئی تھی اور اس میں کوئی شک وشبہ نہ رہا تھا۔ دعوت مباہلہ کے بعد اب اس اختتامیہ میں حقیقت وحی ‘ حکمت قصص فی القرآن ‘ اور حقیقت توحید کا بیان کیا جاتا ہے۔ شاید یہ آیات دعوت مباہلہ سے مجادلین کے انکار کے بعد اتری ہوں ۔ اور ان لوگوں کو سخت دہمکی دی جاتی ہے جو اللہ کی اس زمین پر محض برائے فی سبیل اللہ فسادیہ مجادلے کرتے ہیں ۔
Top