Fi-Zilal-al-Quran - Al-Hadid : 8
وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ۚ وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَ قَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَمَا لَكُمْ : اور کیا ہے تمہارے لیے لَا تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۚ : نہیں تم ایمان لاتے ہو اللہ پر وَالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : بلاتا ہے تم کو لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ : تاکہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر وَقَدْ اَخَذَ : حالانکہ تحقیق اس نے لیا ہے مِيْثَاقَكُمْ : پختہ عہد تم سے اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اگر ہو تم ایمان لانے والے
تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے۔ اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔
ومالکم ............ رحیم (9) (75 : 8۔ 9) ” تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ رسول تمہیں اپنے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے عہد لے چکا ہے۔ اگر تم واقعی ماننے والے ہو۔ وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کررہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے ، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے۔ “ آخر ایمان کی راہ میں رکاوٹ کیا ہے ؟ ایمان تو وہ لا چکے ہیں ایمان لانے کا حق یہاں مطلوب ہے۔ پھر دعوت ذات رسول کی طرف سے ہے ، جن کے ہاتھ پر تم بیعت کرچکے ہو ، پختہ وعدہ کرچکے ہو۔ اور پھر آسمانوں سے آیات بینات کی پے درپے موسلا دھار بارش ہورہی ہے۔ یہ آیات تمہیں اندھیروں ، شک اور یحرانی سے نکال رہی ہیں۔ ہدایت ویقین اور اطمینان کی روشنی تمہیں دی جارہی ہے ۔ ایسے حالات میں جن میں تم پر رحمتوں کی بارشیں ہورہی ہیں۔ نبی آخر الزمان کا کسی قوم میں موجود ہونا ، ان کا اللہ کی زبان و کلام میں گفتگو فرمانا کلام اللہ پڑھ پڑھ کردیتا ہے۔ اور یہ اس قدر عظیم نعمت ہے جس کا تصور نہ پہلے کسی نے کیا اور نہ بعد میں ہوسکے گا۔ آج ہم چودہ سو سال کی دوری سے جب اسے سوچتے ہیں ، تو یہ دور ، وحی کا دور ، حیات رسول کا دور فی الواقع عظیم نعمتوں کا دور تھا ، خوشیوں کا دور تھا ، نیک بختیوں کا دور تھا ، کیا ہی دور تھا ، اللہ جل جلالہ ، بذات خود رسول اللہ کی زبانی اپنے بندوں کو بتارہا ہے۔ نہایت رحمت ، محبت اور کرم کے ساتھ ، لو یہ کام کرو ، دیکھو اس سے بچو ، یہ ہے راہ اس پر چلو ، یہ دیکھو تم غلط ہوگئے ہو ، یہ ہے میری رسی اسے پکڑو اور نکل آؤ گڑھوں سے ، کنوؤں سے ، توبہ کرو ، توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ ایں درگہ ما درگہ ناامید نیست صدبار اگر توبہ شکستی باز آ آؤ دور تک نہ چلے جاؤ غلط راہوں پر ، میری رحمت سے مایوس نہ ہو ، وہ تو اس قدر وسیع ہے کہ سب کائنات اس میں ڈوب جاتی ہے۔ اسے فلاں نے یہ کہا ہے ، یہ غلط ہے۔ اسے فلاں تونے یہ سوچا ہے ، یہ غلط ہے۔ یہ تو گناہ ہے۔ فلاں فلاں کاموں کا تونے ارتکاب کیا ہے یہ غلط ہے۔ آؤ، توبہ کرو اور میری رحمت میں داخل ہوجاؤ۔ اے فلاں وہ فلاں فلاں چیزیں تمہیں روک رہی ہیں ان کو اتار پھینکو ، فلاں تونے یہ سوال کیا ہے یہ ہے جواب اس کا۔ اور یہ کام جو تونے کیا ہے اس کا یہ وزن ہے۔ یہ لوگ جو اللہ کے ساتھ رہتے ہیں ، جو اس کی مخلوق ہیں ، جن کو اللہ تلقین فرماتا ہے جن کے ساتھ یوں ہم کلام ہوتا ہے۔ یہ اپنے اندر تیز احساس رکھتے ہیں کہ اللہ ان کے ساتھ ہے اور وہ اللہ کے ساتھ ہیں۔ یہ حقیقت ہے اور یہ واقعہ ہے رات کی تاریکیوں میں بھی اللہ کی فریاد سن رہا ہے۔ اور ان کو قبول کرتا ہے۔ قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرتا ہے اور ان کی طرف متوجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اس شخص کی سوچ سے بھی بلند ہے جو اس کے اندر نہ رہا ہو۔ اس لئے آج ہم بھی کہہ سکتے کہ وہ یوں تھے۔ لیکن ان آیات میں سب سے پہلے جن لوگوں کو خطاب کیا گیا وہ ایسے ہی حالات میں زندہ رہے تھے۔ اور ان لوگوں کو اس قسم کی تربیت یاد دہانی اور اکساہٹ کی ضرورت تھی۔ لیکن اب اگر کوئی اس قسم کے تصور کو اپنے ذہنوں میں جمائے اور بسائے ہوئے ہے ہمارے اس گئے گزرے دور میں تو یہ اس فضل سے بھی بڑا فضل ہے۔ یہ بات زیادہ قابل قدر ہے کہ دور صحابہ سے دور پندرہویں صدی میں یہ تصور کرتا ہو۔ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ سے کہا کہ تمہارے نزدیک کون سا مومن قابل تعجب اور صاحب فضل وکرم ہے ، تو صحابہ کرام نے فرمایا فرشتے ؟ تو حضور نے فرمایا ” وہ کیونکر ایمان نہ لائیں گے وہ ہیں ہی اپنے رب کے پاس۔ “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” انبیائ “۔ تو آپ نے فرمایا۔” وہ کس طرح ایمان نہ لائیں جبکہ وحی ان پر نازل ہورہی ہے “ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پھر ” ہم لوگ “۔ تو حضور نے فرمایا : ” تم کیوں ایمان نہ لاؤ، جبکہ میں تمہارے درمیان ہوں ؟ بلکہ ایمان کے لحاظ سے افضل ترین لوگ وہ ہیں جو تمہارے بعد ہوں گے ، ان کے پاس صحیفے ہوں گے اور وہ ان کے اندر پائی جانے والی تعلیمات پر ایمان لائیں گے۔ “ رسول اللہ ﷺ نے سچ فرمایا کہ صورت حال میں بہت فرق ہے۔ ان لوگوں کے ہاں ایمان کے اشارات ، اسباب اور دلائل بہت زیادہ تھے۔ عجیب و غریب تھے ۔ بلکہ اگر وہ ایمان نہ لاتے تو قابل تعجب بات ہوتی۔ اس کے باوجود ان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایمان کو اپنے نفوس کے اندر حقیقت بناؤ، اگر مومن ہو تو۔ اب موجبات ایمان اور دلائل ایمان سے آگے ، دلائل انفاق اور موجبات انفاق کی طرف ، مگر قدرے تاکید کے ساتھ اور تکرار کے ساتھ۔
Top