Tadabbur-e-Quran - Al-Hadid : 8
وَ مَا لَكُمْ لَا تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ۚ وَ الرَّسُوْلُ یَدْعُوْكُمْ لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ وَ قَدْ اَخَذَ مِیْثَاقَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
وَمَا لَكُمْ : اور کیا ہے تمہارے لیے لَا تُؤْمِنُوْنَ باللّٰهِ ۚ : نہیں تم ایمان لاتے ہو اللہ پر وَالرَّسُوْلُ : اور رسول يَدْعُوْكُمْ : بلاتا ہے تم کو لِتُؤْمِنُوْا بِرَبِّكُمْ : تاکہ تم ایمان لاؤ اپنے رب پر وَقَدْ اَخَذَ : حالانکہ تحقیق اس نے لیا ہے مِيْثَاقَكُمْ : پختہ عہد تم سے اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ : اگر ہو تم ایمان لانے والے
اور تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ پر ایمان نہیں لا رہے ہو درآنحالیکہ رسول تم کو تمہارے رب پر ایمان لانے کی دعوت دے رہا ہے اور وہ تم سے مضبوط عہد لے چکا ہے اگر تم مومن ہو !
(وما لکم لا تومنون باللہ والرسول یدعوکم لتومنوا بربکم وقد اخذ میثا قکم ان کنتم مومنین) (8) یہ اس طرح کے کمزور مسلمانوں کے لیے نصیحت بانداز ملامت ہے کہ جب تم رسول سے سمعنا واطعنا کا عہد کرچکے ہیں تو اس عہد کا تقاضا تو یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم اترے اور رسول جس بات کی دعوت دیں اس پر (امنا وصدقنا) کہتے ہوئے عمل کرو لیکن تمہارا حال یہ ہے کہ رسول اللہ کی راہ میں انفاق کی دعوت دے رہا ہے اور تم منہ چھپاتے پھر رہے ہو ! تو یہ کس قسم کا عہد اور کس نوع کا ایمان ہے ! اور جب آج تمہارے ایمان اور عہد کا یہ حال ہے جب کہ رسول تمہارے اندر موجود ہے اور بذات خود تمہیں ایمان کے تقاضے پورے کرنے کی دعوت دے رہا ہے تو کل تمہارا کیا حال ہوگا جب رسول تمہارے درمیان موجود نہیں ہوگا۔ اس آیت سے دو باتیں نہایت واضح طور پر سامنے آئیں۔ ایک یہ کہ ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ آدمی ہر اس چیز پر ایمان لائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اور رسول نے جس کی دعوت دی۔ ان میں سے کسی ایک چیز کا انکار بھی سب کے انکار کے ہم معنی ہے۔ دوسری یہ کہ ایمان عمل ہی سے متشکل اور وجود پذیر ہوتا ہے اور انفاق کو اس کے نشوونما اور اس کے تغدیہ وتقویت میں خاص دخل ہے چناچہ اسی بناء پر یہاں انفاق کی دعوت کو ایمان کی دعوت سے تعبیر فرمایا ہے۔ (میثاق سے سمع وطاعت کا عہدیدار ہے)۔ میثاق سے مراد میرے نزدیک یہاں سمع وطاعت کا وہ عہد ہے جو ہر مسلمان کو نبی ﷺ سے بیعت کے وقت کرنا پڑتا۔ استاد امام ؒ کا رجحان اس عہد کی طرف معلوم ہوتا ہے جس کا ذکر سورة آل عمران کی آیت 80 میں ہے۔ میں نے اس پر غور کیا لیکن یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ دوسرے سیاق وسباق کی بات ہے، یہاں اس کا محل نہیں ہے۔ میرے خیال کی تائید سورة مائدہ کی آیت 77 سے بھی ہوتی ہے۔ (واذکرو انعمۃ اللہ علیکم ومیثاقہ الذی واتقاء بہ اذ قلتم سمعنا واطعنا) (پس اپنے اوپر اللہ کے فضل اور میثاق کو یاد رکھو جو اس نے تم سے لیا اور تم نے (سمعناواطعنا) کہہ کر اس کا اقرار کیا۔
Top