Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-Qalam : 8
فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِیْنَ
فَلَا
: پس نہ
تُطِعِ
: تم اطاعت کرو
الْمُكَذِّبِيْنَ
: جھٹلانے والوں کی
لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دباﺅ میں ہرگز نہ آﺅ۔
فلا تطع .................... فیدھنون (86 : 9) ” تم جھٹلانے والوں کے دباﺅ میں ہرگز نہ آﺅ۔ یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں “۔ دراصل اندر سے یہ لوگ سودا بازی کے لئے تیار ہیں۔ چاہتے ہیں کہ نصف نصف سودا طے ہوجائے جس طرح تاجر لوگ مول تول کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کو معلوم ہے کہ نظریات اور تجارت میں فرق ہوتا ہے۔ ایک نظریاتی شخص اپنے عقائد اور نظریات میں کبھی سودا بازی کے لئے تیار نہیں ہوا کرتا۔ کیونکہ نظریات میں چھوٹی بات بھی بڑی بات کی طرح قیمتی ہوتی ہے بلکہ نظریات میں چھوٹی اور بڑی بات ہوتی ہی نہیں ہے۔ نظریہ ایک مکمل اکائی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی کسی کی نہ اطاعت کرتا ہے اور نہ اپنے نظریات کے کسی حصے سے دستبردار ہوتا ہے۔ اس بارے میں بیشمار روایات وارد ہیں کہ وہ کیا معاملات تھے جن پر مشرکین مکہ نبی ﷺ کے ساتھ سودا بازی کے لئے تیار تھے کہ آپ نرمی کریں تو وہ بھی کریں یہ کہہ حضور ﷺ ان کے الہوں کو برا بھلا کہنا ترک کردیں اور یہ بھی نہ کہیں کہ ان بتوں کی عبادت کرنا ایک احمقانہ فعل ہے۔ یا یہ کہ حضور اکرم کچھ باتیں ان کے دین کی مان لیں اور کچھ باتیں وہ مان لیں گے۔ یوں جمہور عرب کے سامنے ان کی لاج رہ جائے گی۔ جس طرح ہمیشہ مصالحت کرنے والوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نصف نصف پر فیصلہ کرلیتے ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ کا رویہ تودو ٹوک تھا۔ آپ اس میں نہ مداہنت کرتے تھے اور نہ نرمی فرماتے تھے لیکن دین اسلام کے اصولوں کے علاوہ آپ تمام معاملات میں ، نہایت ہی نرم رویہ اختیار فرماتے تھے۔ معاملات میں نہایت ہی اچھے تھے ، معاشرت میں نہایت ہی خوش اخلاق تھے اور لوگوں کے ساتھ نہایت ہی اچھا رویہ رکھتے تھے۔ رہا دین کا معاملہ تو وہ خدا سے متعلق تھا۔ اور خدا کی ہدایت یہ تھی۔ فلا تطع المکذبین (86 : 8) ” لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کی کوئی بات نہ مانو “۔ چناچہ حضور اکرم ﷺ نے مکہ میں ایسے حالات میں بھی دین کے معاملے میں کوئی سودا بازی نہیں کی جئ کہ آپ نہایت ہی مشکل حالات میں تھے۔ آپ کی تحریک محاصرے میں تھی۔ آپ کے چند ساتھی تھے۔ ہر طرف سے ان پر مظالم ہورہے تھے۔ اچک لئے جاتے تھے۔ شدید ترین اذیتیں دی جاتی تھیں لیکن وہ صبر کرتے تھے۔ البتہ وہ بڑے سے بڑے جبار کے سامنے کلمہ توحید پڑھنے سے کبھی باز نہ آتے تھے۔ نہ وہ ان کے تالیف قلب کے لئے اور نہ ان کی اذیت سے جان چھڑانے کے لئے۔ نہ وہ کسی ایسی حقیقت کی وضاحت سے چوکتے تھے جس کا ان کے ایمان سے کوئی دور کا بھی تعلق ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے اپنی سیرت میں ابن اسحاق سے روایت کی ہے : ” رسول اللہ ﷺ نے اپنی قوم کے سامنے اسلام کا اظہار اور علانیہ دعوت شروع کردی تو انہوں نے آپ کے دین کا کوئی رد یا جواب نہ دیا۔ یہاں تک کہ آپ نے ان کے الہوں کا ذکر شروع کردیا اور ان کی عبادت کو احمقانہ فعل بنایا۔ جب حضور ﷺ نے یہ کہا تو انہوں نے اسے ایک عظیم جرم سمجھا اور اس پر بہت برا منایا۔ یہ لوگ آپ کے خلاف جمع ہوگئے اور دشمنی شروع کردی۔ ماسوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ اسلام میں لے آیا تھا۔ لیکن یہ بہت ہی قلیل اور کمزور تھے۔ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب نے آپ کی حمایت کی اور آپ کا دفاع کیا ، اور آپ کے محافظ کے طور پر آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ اپنا کام کرتے رہے۔ خوب اظہار خیال کرتے رہے اور کوئی آپ کو اپنی باتوں سے روک نہ سکتا تھا۔ جب قریش کو معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ ﷺ ان باتوں سے باز نہیں آتے جن کو وہ برا سمجھتے ہیں اور یہ کہ ان کی صفوں میں تفرقہ پڑگیا اور وہ بدستور ان کے الہوں پر تنقید کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ ان کے چچا ان کی حمایت پر تلے ہوئے ہیں اور وہ ان کو قریش کے سپرد نہیں کرتے۔ تو قریش کے اشراف کا ایک وفد ابوطالب کے پاس گیا۔ ان میں عتبہ اور شیبہ پسران ربیعہ ، ابوسفیان ابن حرب ابن امیہ ، ابوالیحتری العاص ابن ہشام ، اسود ابن مطلب ابن اسد ، ابوجہل (اس کا نام ابوالحکم عمر ابن ہشام تھا) ، ولید ابن مغیرہ ، نبیہ اور منبہ پسران حجاج ابن عامر اور دوسرے لوگ جو ان کے ساتھ گئے تھے۔ انہوں نے کہا ابوطالب ” یہ کہ تمہارے بھتیجے نے ہمارے الہوں کو گالیاں دیں اور ہمارے دین میں عیب نکالے اور ہمارے خیالات کو احمقانہ کہا۔ ہمارے آباﺅ اجداد کو گمراہ کہا ، اب تمہارے سامنے دوراستے ہیں یا تو اسے ان باتوں سے روک دو یا ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جاﺅ، کیونکہ جس طرح ہم اس کے دین کو نہیں مانتے تم بھی نہیں مانتے۔ ہم اس کا علاج کردیں گے “۔ ابوطالب نے ان کے ساتھ نہایت ہی نرم باتیں کیں اور انہیں اچھے طریقے سے رخصت کردیا۔ یہ لوگ واپس ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا کار جاری رکھا۔ آپ اپنے دین کا اظہار فرماتے اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے۔ لیکن اس کے بعد آپ کے اور قریش کے درمیان اختلافات شدید ہوگئے۔ دشمنی میں دور تک چلے گئے اور لوگوں کی آتش عناد تیز ہوگئی اور جگہ جگہ آپ کے خلاف باتیں ہونے لگیں۔ اور لوگ آپ کے خلاف ایک دوسرے کو اکسانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ اٹھو ، اس شخص کے خلاف۔ یہ لوگ دوبارہ ابوطالب کے پاس گئے اور کہا ابو طالب تم ہم میں سب بےمعمر ہو ، عزت دار ہو ، اور شریف ہو۔ ہم نے تم سے درخواست کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو اس کام سے روکو مگر تم نے اسے نہ روکا۔ خدا کی قسم ! ہم اس صورت حال کو برداشت نہیں کرسکتے کہ وہ ہمارے آباﺅاجداد کو گالیاں دے ، ہمارے عقائد کو احمقانہ بتلائے اور ہمارے الہوں کی عیب جوئی کرے۔ یا تو آپ اسے روکیں یا پھر اس کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں ورنہ ہمارے اور تمہارے درمیان جنگ ہوگی جو فریق بھی ہلاک ہوگیا۔ یا اس طرح کی سخت باتیں انہوں نے کہیں اور چلے گئے۔ ابوطالب پر قوم کے درمیان یہ جھگڑا ذرا گراں گزرا۔ اور انہوں نے پوری قوم کی عداوت کو بھاری سمجھا۔ اور یہ بھی وہ نہ چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کو ان کے حوالے کردیں اور شرمندگی اٹھائیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ مجھے یعقوب ابن عتبہ ابن مغیرہ ابن اخنس نے بتایا کہ جب قریش نے ابوطالب سے یہ باتیں کیں تو انہوں نے حضرت نبی ﷺ کو بلایا۔ ان سے کہا بھتیجے ! تمہاری قوم میرے پاس آئی اور انہوں نے یہ کہا اور یہ کہا۔ اس لئے تم مجھ پر اور اپنے آپ پر ذرا رحم کرو اور مجھ پر اس قدر بوجھ نہ ڈالو جس کے اٹھانے کی مجھے طاقت نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ سمجھا کہ شاید ابوطالب کی رائے اس معاملے میں بدل گئی ہے۔ اور یہ کہ آپ بھی اب ساتھ چھوڑنے والے ہیں اور مجھے قریش کے حوالے کرنے والے ہیں اور یہ کہ ابو طالب بھی اب حمایت اور نصرت سے دسکش ہورہے ہیں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا : ” چچا ! خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی لاکر رکھ دیں اور یہ مطالبہ کریں کہ یہ کام چھوڑ دو تو یہ نہیں ہوسکتا ، میں یہ کام کرتارہوں گا جب تک یہ دین غالب نہیں ہوجاتا یا میں ہلاک نہیں ہوجاتا۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی آواز روندھ گئی اور آپ روپڑے اور اٹھ کر چلے گئے۔ جب آپ چلے گئے تو ابو طالب نے آواز دی : بھتیجے ! ادھر آﺅ، رسول اللہ ﷺ واپس ہوئے تو انہوں نے کہا ” جاﺅ جو چاہو کرو ، خدا کی قسم میں تمہیں کسی قیمت پر ان کے حوالے نہ کروں گا “۔ یہ ہے تصویر حضور اکرم ﷺ کی کہ آپ اس وقت بھی اپنی دعوت پر جمے ہوئے تھے جبکہ آپ کے چچا محترم بھی دستکش ہونے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جو آپ کے حامی اور محافظ تھے اور یہ آخری قلعہ تھے ، جس میں آپ اس کرہارض پر اپنے دشمنوں کے مقابلے میں پناہ لے سکتے تھے۔ یہ تو تھی ایک نہایت ہی روشن اور قوی تصویر۔ یہ اپنی نوعیت اور حقیقت کے اعتبار سے بالکل ایک انوکھی تصویر تھی۔ اس کا رنگ اور پر تو سب ہی انوکھے تھے۔ اس کی عبارت اور مکالمات بھی اپنی نوعیت کے تھے۔ نہایت نئے اور سنجیدہ موقف کی ایک تصویر اس طرح روشن ، جس طرح یہ عقیدہ روشن ہے۔ اور اس میں سرٹیفکیٹ اور شہادت کا مصادق اور مفہوم موجود۔ وانک .................... عظیم (86 : 4) ” اور بیشک آپ عظیم اخلاق کے نہایت ہی بلند مرتبے پر ہیں “۔ اور ان اخلاق عالیہ کی ایک دوسری تصویر بھی خود ابن اسحاق نے نقل کی ہے۔ کہتے ہیں روایت بیان کی یزید ابن اسحاق نے ، محمد ابن کعب قرظی سے ، انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا کہ عتبہ ابن ربیعہ ایک سردار تھا۔ یہ ایک دن قریش کی ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ، اس نے تجویز پیش کی ، جبکہ حضور اکرم ﷺ مسجد حرام میں اکیلے بیٹھے ہوئے تھے ، کیا مناسب نہیں ہے کہ میں محمد ﷺ سے بات کروں اور ان کے سامنے کچھ باتیں رکھوں شاید وہ اسے قبول کرلیں۔ اس طرح کہ ان کے جو مطالبات ہوں ہم انہیں دے دیں اور وہ ہمارے خداﺅں سے باز آجائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت حمزہ اسلام قبول کرچکے تھے اور قریش نے دیکھ لیا تھا کہ حضور ﷺ کے حامیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا : ابو الولید جاﺅ اور ان سے بات کرو ، عتبہ اٹھا اور آیا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے کہا بھتیجے ! ہمارے اندر تمہاری جو حیثیت ہے ، وہ تم جانتے ہو۔ تمہارا بہت اونچا درجہ ہے اور تمہارا نسب بھی بہت اونچا ہے اور تم نے اپنی قوم کو ایک بڑی مصیبت میں ڈال دیا ہے۔ جماعت کے اندر تفریق پیدا ہوگئی ہے۔ تم نے ہمارے نظریات کا مذاق اڑایا ہے ، ہمارے دین اور الہوں پر تنقید کی ہے اور تم نے ہمارے آباﺅ اجداد کو کافر کہا۔ تم میری بات سنو ۔ میں تمہارے سامنے کچھ تجاویز پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ تم ان پر غور کرو گے۔ شاید ان میں سے بعض کو تم منظور کرلو۔ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” ابوالولید کہو۔ میں سنتا ہوں “ اس نے کہا : ” بھتیجے ! تم جو دین پیش کرتے ہو اگر اس سے تمہارا مقصد بہت زیادہ مال جمع کرنا ہے ، تو ہم تمہارے لئے اس قدر مال جمع کرتے ہیں کہ تم ہم میں سب سے زیادہ مالدار ہوجاﺅ گے۔ اور اگر تم اونچا مقام چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا سردار بناتے ہیں ، ہم تمہارے بغیر کوئی فیصلہ نہ کریں گے۔ اگر تم بادشاہت چاہتے ہو تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور اگر تم پر کوئی دورہ پڑتا ہے جس کا دفعیہ تم نہیں کرسکتے تو ہم تمہارے علاج کا انتظام کرتے ہیں۔ اس پر ہم سے جو ہوسکا ، خرچ کریں گے یہاں تک کہ تم تندرست ہوجاﺅ۔ بعض اوقات یوں ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی چیز لگ جاتی ہے اور اس کو اس کا علاج کرنا پڑتا ہے “۔ یہ اور ایسی اور باتیں جو اس نے کیں۔ عتبہ ان باتوں سے فارغ ہوا اور رسول اللہ یہ باتیں سنتے رہے۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا : ابو الولید تم کہہ چکے ؟ اس نے کہا : ” ہاں “۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا اب میری بات سنو۔ اس نے کہا : ہاں ” کہو “۔ اس پر حضور ﷺ نے پڑھنا شروع کیا : حٰم ................................ ویل للمشرکین (6) (14 : 1 تا 6) ” ح م۔ یہ خدائے رحمن ورحیم کی طرف سے نازل کردہ چیز ہے ، ایک ایسی کتاب جس کی آیات خوب کھول کر بیان کی گئی ہیں۔ عربی زبان کا قرآن ، ان لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں ، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا مگر ان لوگوں میں سے اکثر نے اس سے روگردانی کی اور وہ سن کر نہیں دیتے۔ کہتے ہیں ” جس چیز کی طرف تو ہمیں بلارہا ہے اس کے لئے ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، ہمارے کان بہرے ہوگئے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان ایک حجاب حائل ہوگیا ہے تو اپنا کام کر ہم اپنا کام کیے جائیں گے “۔ اے نبی ان سے کہو ، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا۔ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے ، لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو۔ اور اس سے معافی چاہو۔ تباہی ہے مشرکوں کے لئے ....“ حضور ﷺ اس کے بعد بھی سورة حم سجدہ پڑھتے رہے۔ جب عتبہ نے اسے سنا تو خاموش ہوگیا اور اپنے ہاتھ پشت کے پیچھے زمین پر لگا کر ٹیک لی اور سنتا رہا۔ اب رسول اللہ ﷺ سجدہ تک پہنچ گئے اور آپ نے سجدہ کیا۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے فرمایا ابو الولید تم نے سنا جو سنا بس یہ ہے جواب تم جانو اور تمہارا کام “۔ عتبہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا : ” ہم خدا کی قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص جو چہرہ لے کر گیا تھا اس کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ جب یہ جاکر ان کی محفل میں بیٹھا تو انہوں نے پوچھا ابوالولید کیا خبر لائے ہو ؟ تو اس نے کہا خبر یہ ہے کہ میں نے ایک ایسا کلام سنا ہے خدا کی قسم میں نے ایسا کوئی کلام کبھی نہیں سنا۔ یہ نہ تو شعر ہے نہ جادو ہے ، نہ کہانت ہے۔ اے اہل قریش میری بات مانوں اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، یہ شخص جو کچھ کرنا چاہتا ہے اسے کرنے دو اور اس کی راہ نہ روکو۔ اس کو الگ چھوڑ دو ، خدا کی قسم اس کی جو بات میں نے سنی ہے اس کی شہ سرخی لگنے والی ہے۔ اگر اس کو عربوں نے ختم کردیا تو تمہارا کام وہ کردیں گے اور تمہیں اسے مارنے کی ضرورت نہ ہوگی اور اگر یہ عربوں پر غالب آگیا تو اس کی حکومت تمہاری حکومت ہوگی اور اس کی عزت تمہاری عزت ہوگی۔ اور تم اس کی وجہ سے نہایت ہی نیک بخت ہوگئے ، انہوں نے کہا ابوالولید خدا کی قسم اس نے اپنی زبان سے تمہیں مسحور کردیا۔ اس نے کہا : اس کے بارے میں یہ میری حقیقی رائے ہے۔ اب تمہاری مرضی ہے جو چاہو کرتے رہو۔ دوسری روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو کلام الٰہی سناتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے۔ فان ........................ وثمود (14 : 31) ” اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو ان سے کہہ دو کہ میں تم کو اس طرح کے ایک اچانک ٹوٹ پڑنے والے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا کہ عاد وثمود پر نازل ہوا تھا “ تو ابوالولید خوفزدہ ہکر اٹھا اور آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا : ” محمد (ﷺ ) میں تمہیں خدا کا اور رحم کا واسطہ دیتا ہوں “۔ یہ اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں فی الواقع یہ عذاب نازل نہ ہوجائے۔ اس کے بعد وہ قوم کے پاس گیا اور ان سے وہ بات کہی جس کا اوپرتذکرہ ہوا۔ بہرحال یہ قریش کی طرف سے سودے بازی کی دوسری کوشش تھی۔ یہ بھی حضور اکرم ﷺ کی خلق عظیم کی ایک تصویر ہے۔ اس سے آپ کے آداب اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں کہ آپ عتبہ کی بات نہایت تحمل سے سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ فارغ ہوجاتا ہے حالانکہ اس کی باتیں نہایت بےمعنی ہیں۔ ان باتوں کا تعلق صرف اس زمین سے ہے۔ لیکن آپ کے اخلاق کریمانہ تھے کہ آپ نہ اس کی بات کاٹتے ہیں نہ جلدی کرتے ہیں اور نہ غصے میں آتے ہیں اور اس کو جھڑکتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ شخص اپنی بیہودہ باتوں سے فارغ ہوجاتا ہے اور آپ پوری توجہ سے سنتے ہیں۔ اس کے بعد آپ نہایت نرمی سے پوچھتے ہیں۔ ابوالولید آپ کی بات ختم ہوئی ، اور یہ تاکید مزید کے لئے کہ وہ یہ نہ کہے کہ میری بات رہتی ہے۔ یہ ہے سچا اطمینان ، اور حقیقی ادب کہ آپ پوری پوری بات سنتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے خلق عظیم کا ایک پہلو ہے۔ بیہودہ باتیں بھی تحمل سے سنتے ہیں۔ اور ایک تیسری سودا بازی بھی مروی ہے۔ ابن اسحاق روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اسود ابن المطلب ابن اسد ابن عبدالعزی ، ولید ابن مغیرہ ، امیہ ابن خلف اور عاص ابن وائل سہمی نے آپ کو روکا اور یہ لوگ اپنے قبائل میں نہایت معتبر لوگ تھے۔ انہوں نے کہا : ” محمد ﷺ ہم اس کی عبادت کرتے ہیں جس کو تم کرتے ہو ، اور تم ان الہوں کی عبادت کرو جن کی ہم کرتے ہیں۔ ہم اور تم شریک ہوجائیں گے۔ اگر جس خدا کی تم عبادت کرتے ہو وہ اچھا ہوا تو ہمارا بھی اس میں حصہ ہوگا اور ہم جن کی عبادت کرتے ہیں اگر وہ اچھے ہوئے تو تم نے بھی اپنا حصہ اس بھلائی سے لیا ہوگا۔ ان کے بارے میں اللہ نے یہ سورت نازل کی۔ قل یایھا الکفرون ................ تعبدون (901 : 2) ” اے کافرو ! میں ان کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو “۔ اس سودا بازی کو دو ٹوک انداز میں ختم کردیا گیا۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو یہ سورت سنا دی جس طرح اللہ کا حکم تھا۔
Top