Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 66
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا لَنَرٰكَ : البتہ ہم تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں سَفَاهَةٍ : بےوقوفی وَّ : اور اِنَّا لَنَظُنُّكَ : ہم بیشک تجھے گمان کرتے ہیں مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اس کی قوم کے سرداروں نے ‘ جو اس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے ‘ جواب میں کہا ” ہم تو تمہیں بےعقلی میں مبتلا سمجھتے تھے اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو ۔
آیت ” قَالَ الْمَلأُ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ مِن قَوْمِہِ إِنَّا لَنَرَاکَ فِیْ سَفَاہَۃٍ وِإِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکَاذِبِیْنَ (66) ” اس کی قوم کے سرداروں نے ‘ جو اس کی بات ماننے سے انکار کر رہے تھے ‘ جواب میں کہا ” ہم تو تمہیں بےعقلی میں مبتلا سمجھتے تھے اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو ۔ “ یہ تھا ان اکابرین کا جواب جو محض ایک مذاق تھا اور تدبر اور دلیل سے خالی تھا ۔ حضرت کا جواب یہ تھا : آیت ” قَالَ یَا قَوْمِ لَیْْسَ بِیْ سَفَاہَۃٌ وَلَکِنِّیْ رَسُولٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِیْنَ (67) أُبَلِّغُکُمْ رِسَالاتِ رَبِّیْ وَأَنَاْ لَکُمْ نَاصِحٌ أَمِیْنٌ(68) ” اس نے کہا ” اے برادران قوم ‘ میں بےعقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں ‘ تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں ‘ اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ۔ “ آپ نے بڑی سچائی اور سنجیدگی سے اس بات کی نفی کی کہ وہ بیوقوف یا سفیہ ہیں ۔ اسی طرح آپ نے اس بات کی نفی بھی کی کہ آپ گمراہ ہیں ‘ اس لئے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی طرح آپ نے بھی انہیں بتا دیا تھا کہ انکے پیغام کا سرچشمہ کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں ؟ یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ ناصح امین ہیں اور یہ بات انہوں نے نہایت ہی درد بھرے لہجے میں ان سے کہی ‘ نہایت ہی سچائی اور صفائی کے ساتھ ۔ یہاں یہ بات لازمی طور پر ثابت ہوتی ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کے نظریات پر تعجب کیا ‘ جس طرح اس سے قبل حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے تعجب کیا تھا کہ کس طرح اللہ عام انسانوں میں سے کسی کو نبی چن سکتا ہے اور رسول بنا سکتا ہے چناچہ حضرت ہود (علیہ السلام) بھی وہی بات دہراتے ہیں جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے کی تھی ۔ یوں نظر آتا ہے کہ ان دونوں شخصیتوں کی روح ایک ہے ‘ صرف اجسام میں اختلاف ہے ۔ آیت ” أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاء کُمْ ذِکْرٌ مِّن رَّبِّکُمْ عَلَی رَجُلٍ مِّنکُمْ لِیُنذِرَکُمْ “۔ (7 : 69) ” کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعے تمہارے رب کی یاد دہائی آئی تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے ؟ “۔ اس کے بعد وہ ان کو اس صورت حال کی طرف متوجہ کرتے ہیں جو انکی واقعی صورت حال سے واضح تھی کہ اللہ نے قوم نوح کے بعد ان کو خلافت فی الارض کا منصب عطا فرمایا تھا ‘ ان کو جسمانی قوت دی تھی اور پہاڑوں میں بسنے والوں کی طرح وہ جسمانی توانائی رکھتے تھے نیز سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی انکو زمین میں اقتدار دیا گیا تھا ۔
Top