Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 66
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ
قَالَ : بولے الْمَلَاُ : سردار الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جن لوگوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ : سے قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنَّا لَنَرٰكَ : البتہ ہم تجھے دیکھتے ہیں فِيْ : میں سَفَاهَةٍ : بےوقوفی وَّ : اور اِنَّا لَنَظُنُّكَ : ہم بیشک تجھے گمان کرتے ہیں مِنَ : سے الْكٰذِبِيْنَ : جھوٹے
اس پر قوم کے سربر آوردہ لوگوں نے جنہوں نے کفر کا شیوہ اختیار کر رکھا تھا کہا ہمیں تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑگئے ہو اور ہمارا خیال یہ ہے کہ تم جھوٹ بولنے والوں میں سے ہو
قوم عاد نے اپنے رسول حضرت ہود (علیہ السلام) کو یہ جواب سنایا : 76: قوم عاد میں چند ہی لوگ تھے جو ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے باقی سب کے سب لوگوں نے سرکشی کی اور ان پر حضرت ہود (علیہ السلام) کی نصائح سخت شاق گزرتی تھیں اور وہ یہ نہیں برداشت کرسکتے تھے کہ ان کے عقائد و اعمال غرض ان کے کسی ارادہ میں بھی کوئی شخص حائل ہو اور ان کے لئے ناصح ومشفق بنے۔ اس لئے اب انہوں نے یہ روش اختیار کی کہ حضرت ہود (علیہ السلام) کا مذاق اڑایا اور ان کو برملا بیوقوف کہا اور ان کی معصومانہ حقایتوں اور صداقتوں کی تمام یقینی دلائل وبراہین کو جھٹلانا شرو ع کردیا اور حضرت ہود (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ” ہمیں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تم حماقت میں پڑگئے ہو اور یہ بھی کہ تم جھوٹ بولنے والوں سے ہوگئے ہو۔ “ یعنی ہم تمہارے ڈھونگ میں آنے والے نہیں کہ تجھ کو اللہ کا رسول مان لیں اور اپنے معبودوں کی عبادت چھوڑ کر یہ یقین کرلیں کہ وہ خدائے اکبر کے سامنے ہمارے سفارشی نہیں ہوں گے۔ گویا کہ ان کی قوم نے بھی ہر قوم کے ” روشن خیالوں “ یعنی چوہدریوں اور وڈیروں کی طرح وہی جواب دیا جو نوح (علیہ السلام) کی قوم نوح (علیہ السلام) کو دے چکی تھی۔ جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ سارے انبیاء کرام کی تعلیم بھی ایک جیسی تھی اور سارے نبیوں کی قوموں نے ایک ہی جیسا جواب بھی دیا اور جس طرح سارے نبیوں کو بیوقوف کہا گیا اسی طرح ان کو بھی ان کی قوم نے یہی خطاب دیا۔
Top