Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 96
وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ
وَلَوْ
: اور اگر
اَنَّ
: یہ ہوتا کہ
اَهْلَ الْقُرٰٓي
: بستیوں والے
اٰمَنُوْا
: ایمان لاتے
وَاتَّقَوْا
: اور پرہیزگاری کرتے
لَفَتَحْنَا
: تو البتہ ہم کھول دیتے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
بَرَكٰتٍ
: برکتیں
مِّنَ
: سے
السَّمَآءِ
: آسمان
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
وَلٰكِنْ
: اور لیکن
كَذَّبُوْا
: انہوں نے جھٹلایا
فَاَخَذْنٰهُمْ
: تو ہم نے انہیں پکڑا
بِمَا
: اس کے نتیجہ میں
كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ
: جو وہ کرتے تھے
اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا ، لہذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے
یہ اللہ کی سنت جاریہ کا ایک دوسرا پہلو ہے ، اگر بستیوں کے لوگ جھٹلانے کے بجائے مان لیتے اور بدکرداری کے بجائے تقویٰ کی راہ اختیار کرتے تو اللہ ان پر آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا۔ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ۔ اور بلا حساب ان کو دیتا رہتا ، آسمانوں سے اور زمین سے ان پر برکات کی بارش ہوتی۔ قرآن نے جو انداز تعبیر اختیار کیا ہے ، اس کے پیش نظر ہم اسے ہر طرح کی فراوانی سے تعبیر کرسکتے ہو جو کسی ایک جنس ضرورت کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر قسم اور ہر نوع کی فراوانی۔ اس آیت اور اس سے قبل کی آیت میں ہم ایک عظیم حقیقت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کا تعلق بیک وقت انسانی نظریات اور انسانی زندگی کے حقائق سے بھی ہے اور اس پوری کائنات کے حقائق سے بھی ہے۔ اور ان کے اندر انسانی تاریخ کا اہم عنصر اور عامل بھی بیان کیا گیا ہے۔ اس اہم فیکٹر کو دنیا کے انسانوں کے وضع کردہ نظامہائے حیات نے پوری طرح نظر انداز کیا ہے بلکہ اس کا انکار کیا ہے۔ وہ فیکٹر ہے ایمان و عقیدہ اور خدا خوفی کا۔ ایمان و عقیدے اور خدا خوفی کا مسئلہ انسانی زندگی کے حقائق سے جدا چیز نہیں ہے اور نہ وہ انسانی تاریخ سے کوئی الگ چیز ہے بلکہ ایمان باللہ اور خدا خوفی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی برکات نازل فرماتے ہیں یہ اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ سے زیادہ ایفائے عہد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم لوگ جو اللہ پر ایمان لانے والے ہیں ، ہماری شیوہ تو یہ ہے کہ اللہ کے اس عہد کو مومنانہ دل سے لیتے ہیں۔ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس کے علل و اسباب کو سمجھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے ، اور اس آیت کے مدلول و مفہوم کی تصدیق میں لمحہ بھر تردد بھی نہیں کرتے۔ اس لئے کہ ہمارا ایمان تو ہے ہی ایمان بالغیب اور اس ایمان کے تقاضے کے طور پر ہم اللہ کے اس عہد کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہم پھر اللہ کے اس عہد پر غور و فکر کرتے ہیں کیونکہ اللہ نے خود حکم دیا ہے کہ تم قرآن میں غور و فکر کرو اور غور و فکر کے بعد ہمیں اس بات کی ماہیت و حقیقت کا علم بھی ہوجاتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانے سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کی فطرت زندہ ہے اور فطری حقائق کے ادراک اور قبول کرنے کی اہلیت اس میں موجود ہے۔ ایسے شخص کا ادراک سچا ہے اور اس کی انسانی بنیاد صحیح وسالم ہے۔ اور اس شخص کے دماغ میں اس قدر وسعت ہے کہ وہ اس کائنات کے حقائق کا ادراک کرسکے۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جو عملی زندگی میں انسان کی کامیابی کے ضامن ہیں۔ اللہ پر ایمان ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو آگے بڑھاتی ہے ، یہ انسانی شخصیت کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے انہیں ایک جہت اور رخ پر ڈال دیتی ہے اور اس جہت میں انسانی شخصیت اللہ کی قوت کی مدد سے آگے بڑھتی ہے اور اس زمین پر اللہ کے اقتدار اعلی کے قیام کے لئے جدوجہد کرتی ہے۔ اس کرہ ارض کی تعمیر میں لگ جاتی ہے۔ نتیجۃ اس کرۂ ارض سے فتنہ و فساد کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جاتا ہے اور انسان اس زمین کی ترقی اور تعمیر میں لگ جاتا ہے اور اس طرح انسان عملی زندگی میں کامیاب رہتا ہے۔ اللہ پر پختہ ایمان انسان کو خود اپنی خواہشات کی غلامی اور دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دیتا ہے کہ اور اس میں شک نہیں کہ صرف اللہ کا غلام اور دوسری تمام غلامیوں سے آزاد انسان ہی اس کرۂ ارضپر خلافت راشدہ کا صحیح نظام قائم کرسکتا ہے۔ ایسا شخص ان لوگوں سے قوی تر ہوگا جو ایک دوسرے کے غلام ہیں یا اپنی خواہشات کے غلام ہیں۔ خدا کا خوف ایک دانشمندانہ بیداری ہے۔ اس سے انسام سرکشی ، غرور ، بےراہ روی جیسے اخلاقی عیوب سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں اعتدال اختیار کرلیتی ہیں اور اس کی زندگی کا اسلوب سنجیدہ ہوجاتا ہے۔ انسان کی پوری جدوجہد محتاط ہوجاتی ہے۔ اور وہ سرکشی کا ارتکاب کرکے اپنی حدود سے آگے نہیں بڑھتا اور اپنی زندگی کو صالحانہ حدود میں رکھتا ہے۔ ایک صالح انسان کی زندگی کا نقشہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی متوازن اور اعتدال پر مبنی ہوتی ہے۔ وہ آگے بڑھنے اور رکاوٹوں کے درمیان توازن پیدا کرلیتا ہے۔ وہ زمین پر محنت کرتا ہے اور آسمان کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ ہوائے نفس ، سرکشی اور تجاوز سے آزاد ہوتا ہے اور اس کے دل میں ہر وقت خوف خدا ہوتا ہے۔ ایسا شخص ایک صالح ، نتیجہ خیز اور مفید کردار کا مالک ہوتا ہے اور ایسا ہی شخص اللہ کی امداد کا مستحق ہوتا ہے اور اس کے دل میں خدا کا خوف ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے اوپر برکات الٰہی کے سائے نزول کرتے ہیں۔ ان کے کام میں خیر و برکت عام ہوتی ہے اور اس کی زندگی پر فلاح سایہ فگن ہوتی ہے۔ اس کی زندگی بظاہر اسباب کے مطابق چل رہی ہوتی ہے لیکن درحقیقت ایک غیبی قوت اس کی مددگار ہوتی ہے۔ وہ برکات جو مومنین اور اہل تقوی پر سایہ فگن ہوتی ہیں وہ مختلف النوع ہوتی ہیں اور اس آیت میں ان کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں لیکن وہ یقیناً موجود ہوتی ہیں۔ اس آیت میں جو اشارات ہیں ان سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان پر ہر جانب سے برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے۔ ہر طرف سے برکت کے چشمے پھوٹتے ہیں جن کی تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔ لہذا اس سے مراد ہر قسم و نوع کی برکات ہیں ، ہر شکل و صورت میں ان کا نزول ہوتا ہے ، بعض ایسی ہیں جو لوگوں کے وہم و خیال میں بھی نہیں ہوتیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں کہ ان کو وہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ سے خوف کھانا محض پرائیویٹ عبادت کا مسئلہ ہے اور اس کا انسان کی عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے لوگوں نے در اصل حقیقت ایمان کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ ان کا گرض ہے کہ وہ دیکھیں کہ اللہ کے نزدیک تو ایمان کا عملی اور اجتماعی زندگی کے ساتھ تعلق موجود ہے۔ اور اس پر اللہ گواہی دے رہا ہے اور اللہ کی شہادت کافی شہادت ہے۔ اور اللہ اسے ان باتوں سے متعلق کرتا ہے جن کے بارے میں لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ عملی اور اجتماعی زندگی کے معاملات ہیں۔ وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ۔ " اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا ، لہذا ہم نے اس بری کمائی کے حساب میں انہیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔ بعض لوگ دیکھتے ہیں کہ بعض اقوام کا نقطہ نظر اس معاملے میں یوں ہے : " ہم مسلمان ہیں اور ہمارے اوپر رزق کے دروازے بند ہیں اور ہمارے حصے میں خشک سالی اور تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ اقوام ایسی ہیں جو نہ مومن باللہ ہیں اور نہ اہل تقویٰ میں سے ہیں لیکن ان پر ہر طرف سے رزق کی بارش ہو رہی ہے۔ ان کے پاس بےپناہ قوت ہے اور وہ دنیا میں با اثر ہیں۔ لہذ سوال یہ ہے کہ مذکورہ بالا آیت میں جس سنت الٰہیہ کا ذکر ہوا ہے وہ ہم پر صادق کیوں نہیں آتی ؟ " در اصل ایسے لوگوں نے اس مسئلے کے صرف ظاہری اور سطحی پہلو کو لیا ہے۔ یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں ، وہ مومن اور متقی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے۔ نہ ان لوگوں نے خالصتاً اللہ کی بندگی اور غلامی کا رویہ اپنایا ہے۔ ان کی عملی زندگی میں لا الہ الا اللہ کی شہادت موجود نہیں ہے بلکہ یہ لوگ اپنے میں سے بعض غلاموں کی غلامی کر رہے ہیں۔ " یہ " غلام ان کے الٰہ بنے ہوئے ہیں اور ان کے لئے قانون بناتے ہیں۔ نہ صرف قوانین بلکہ ان کے لئے حسن و قبح کی اقدار بھی تجویز کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگ کہاں مومن ہیں۔ مومن کا تو فریضہ ہی یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو ختم کردے جو ان پر مقتدر اعلیٰ بنے ہوئے ہیں۔ مومون کا تو پہلا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے میں سے کسی کو بھی الٰہ و رب نہ بنائے جو ان پر اپنے قوانین اور اپنا نظام نافذ کرے۔ جب ایسے مدعیان کے اسلاف حقیقی مومن اور مسلم تھے تو ان کے سامنے پوری دنیا سرنگوں تھی اور ان پر آسمان اور زمین کی برکات کی بارش ہوتی تھی اور ان کے ساتھ ان کے رب کا وعدہ سچا تھا ، کیونکہ وہ خود سچے تھے۔ رہے وہ لوگ جن پر رزق کے دروازے کھول دئیے گئے ہیں تو یہ بھی سنت الٰہیہ کا ایک حصہ ہے۔ ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰي عَفَوْا وَّقَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَاۗءَنَا الضَّرَّاۗءُ وَالسَّرَّاۗءُ " پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ " ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں "۔ ان لوگوں پر جو انعامات ہوتے ہیں وہ در اصل ان کے لئے ابتلاء و آزمائش ہے اور یہ ابتلاء مصیبت کی ابتلاء سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ کفار پر جو انعامات ہوتے ہیں اور اہل ایمان پر جو انعامات ہوتے ہیں ان کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔ برکت الٰہی بعض اوقات ایک قلیل چیز میں بھی اپنے رنگ دکھاتی ہے۔ جب انسان ایک تھوڑی چیز سے اچھی طرح فائدہ اٹھاتا ہے اور امن و سکون کے ساتھ خوشی اور اطمینان محسوس کرتا ہے ، دوسری جانب بڑی بڑی ترقی یافتہ اور مالدار اقوام ایسی ہیں جو پریشانی اور عدم اطمینان کی زندگی بسر کرتی ہیں حالانکہ بظاہر وہ نہایت ہی امن وامان سے زندگی بسر کرتی ہیں اور ان کے افراد کے درمیان کوئی تعلق باقی نہیں ہے۔ افراد معاشرہ کے درمیان بےچینی کا دور دورہ ہے۔ اور قریب ہے کہ یہ اقوام مکمل طور پر تباہ ہوجائیں۔ سازوسمان بسیار مگر اطمینان مفقود ہے۔ ہر چیز کی فراوانی ہے ، لیکن لوگ بدکردار ہیں ، ان کی خوشحالی ہی ان کے لئے برے مستقبل کا پتہ دے رہی ہے اور یہ خوشحالی ان کے لئے انتقام الٰہی کا سبب ہے۔ اہل ایمان کو جو برکات ملتی ہیں ، ان کے کئی رنگ ہیں ، ان کی ضروریات کی چیزوں میں برکت ہوتی ہے ، ذات انسانی میں برکت ہوتی ہے ، انسانی شعور میں برکت ہوتی ہے ، پاکیزہ زندگیوں میں برکت ہوتی ہے اور ان برکات کے نتیجے میں زندگی بڑھتی ہے اور اس کے اندر سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے ، یہ نہیں کہ ہر طرف سہولیات تو وافر ہوں اور انسان جہنم میں ہو جسمانی اور نفسیاتی اضمحلال میں مبتلا ہو۔ سنت جاریہ جس پر تاریخ انسانی بھی ایک گواہ ہے اور جس کے بیان کے متصل بعد اب روئے سخن اہل غفلت کی طرف مڑتا ہے۔ ان حالات کے جاننے اور دیکھنے کے بعد جن میں مکذبین کو تباہ و برباد کیا گیا اور ان پر عذاب نازل ہوا جن کی وجہ سے پڑھنے والے کے شعور اور وجدان کے اندر ایک ہمہ گیر ارتعاش پیدا ہوگیا کیونکہ ان لوگوں نے اپنی نرمی اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے آزمائش انعامات اور زندگی کے سازو سامان میں غفلت کا مظاہرہ کیا اور حکمت الٰہیہ کو نہ سمجھ سکے کہ یہ تو در اصل ان کی آزمائش ہے۔ ایسے حالات میں اب سیاق کلام ان اہل غفلت کی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اپنے حال میں مست ہیں۔ ایسے لوگوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ رات اور دن کے کسی بھی وقت میں ان کو عذاب الٰہی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ، ایسے حالات میں کہ لہو و لعب اور خواب غفلت میں ڈرے ہوئے ہوں۔
Top