Fi-Zilal-al-Quran - At-Tawba : 106
وَ اٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰهِ اِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَ اِمَّا یَتُوْبُ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاٰخَرُوْنَ : اور کچھ اور مُرْجَوْنَ : وہ موقوف رکھے گئے لِاَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کے حکم پر اِمَّا : خواہ يُعَذِّبُھُمْ : وہ انہیں عذاب دے وَاِمَّا : اور خواہ يَتُوْبُ عَلَيْهِمْ : توبہ قبول کرلے ان کی وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ : جاننے والا حَكِيْمٌ : حکمت والا
کچھ دوسرے لوگ ہیں جن کا معاملہ ابھی خدا کے حکم پر ٹھرا ہوا ہے ، چاہے انہیں سزا دے اور چاہے ان پر ازسرنو مہربان ہوجائے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور حکیم ودانا ہے۔
واخرون مرجون لامر اللہ اما یعذبھم واما یتوب علیھم اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے کہ ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کرے گا۔ یعنی مدینہ کے رہنے والے ان لوگوں میں سے جو تبوک کے جہاد پر نہیں گئے ‘ کچھ اور لوگ ہیں جن کا فیصلہ اللہ کے حکم آنے تک ڈھیل میں پڑا ہوا ہے۔ وہ چاہے تو عذاب دے ‘ اس کو صغیرہ گناہ پر بھی عذاب دینے کا اختیار ہے اور چاہے تو بغیر توبہ کے معاف کر دے ‘ وہ کبیرہ گناہوں کو بھی بغیر توبہ کے معاف کرسکتا ہے ‘ کوئی چیز اس پر لازم نہیں ہے ‘ لہٰذا بندوں کو امید بھی رکھنی چاہئے اور ڈرتے بھی رہنا چاہئے (ا اللہ کو تو کسی کو عذاب دینے یا بخش دینے میں کوئی تردد ہو نہیں سکتا ‘ اس کا علم تو یقینی ہے کہ کس کو معاف کرے گا اور کس کو سزا دے گا ۔ شک تو بندوں کے علم میں ہوتا ہے اور عذاب و مغفرت میں تردد تو بندوں کو ہی ہونا چاہئے ‘ اسلئے آیت میں) لفظ اِمَّا کا استعمال بندوں کے لحاظ سے کیا گیا ہے (یعنی اِمَّاشک و تردد کے موقع پر آتا ہے اور بندوں کو مغفرت و عذاب میں تردد ہو سکتا ہے ‘ اسلئے انہی کے علم کی مناسبت سے لفظ اِمَّا ذکر کیا گیا) ۔ وا اللہ علیم حکیم۔ اور اللہ (ان کے احوال کو) خوب جاننے والا ہے اور (جو سلوک ان سے کرے گا اس کی) مصلحت سے بھی وہی واقف ہے۔ شیخین نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وَاٰخَرُوْنَ مُرْجَوْنَ لِاَمْرِ اللّٰہِسے مراد کعب بن مالک ‘ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع ہیں۔ یہ ان دس آدمیوں میں سے تھے جو تبوک میں شریک نہیں ہوئے تھے اور مسجد کے ستونوں سے بھی انہوں نے اپنے آپ کو بندھوایا نہ تھا (مگر اپنے جرم کا کھل کر اقرار کرلیا تھا ‘ کوئی بہانہ نہیں کیا تھا) رسول اللہ (ﷺ) نے مسلمانوں کو حکم دے دیا تھا کہ ان تینوں حضرات سے سلام کلام ترک کردیں۔ ان حضرات نے جب سلوک دیکھا تو خلوص نیت کے ساتھ تائب ہوگئے اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کردیا۔ آخر اللہ نے ان پر رحم کیا (اور ان کا قصور بھی معاف کردیا گیا) ہم ان کا قصہ آگے لکھیں گے۔ محمد بن اسحاق نے حضرت ابو رہم کلثوم بن حصین غفاری کی روایت سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابو رہم ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے حضور (ﷺ) کے دست مبارک پر (تجدید) بیعت کی تھی۔ ابن جریر ‘ ابن المنذر ‘ ابن ابی حاتم ‘ ابن مردویہ اور بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس کی روایت سے بیان کیا ہے ‘ نیز ابن المنذر نے حضرت سعید بن جبیر کی روایت سے اور محمد بن عمر نے یزید بن رومان کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ عمرو بن عوف کے قبیلہ نے ایک مسجد تعمیر کی اور رسول اللہ (ﷺ) کے پاس آدمی کو بھیجا کہ آپ (ﷺ) تشریف لا کر اس مسجد میں نماز پڑھیں۔ غنم بن عوف کے قبیلہ نے جب یہ بات دیکھی تو ان کو حسد ہوا اور انہوں نے کہا : ہم بھی ایک مسجد بنائیں گے جیسی انہوں نے بنائی ہے (بات یہ ہوئی تھی کہ) شام کو روانہ ہونے سے پہلے ابو عامر فاسق نے ان سے کہا تھا : تم لوگ ایک مسجد تعمیر کرو اور جتنے اسلحہ ممکن ہوں اس میں (پوشیدہ طور پر) جمع کرلو۔ میں قیصر روم کے پاس جا رہا ہوں ‘ وہاں سے رومیوں کا ایک لشکر لا کر محمد (ﷺ) اور ان کے ساتھیوں کو یہاں سے نکال باہر کر دوں گا۔ ابو عامر فاسق اللہ اور رسول (ﷺ) کے خلاف بغاوت کر کے رسول اللہ (ﷺ) سے لڑنے کے ارادہ سے مدینہ سے گیا تھا ‘ چناچہ یہ لوگ ابو عامر کے آنے (اور رومیوں کا لشکر ساتھ لانے) کے انتظار میں تھے۔ مسجد تیار ہوگئی تو انہوں نے چاہا کہ رسول اللہ (ﷺ) اس میں نماز پڑھیں تاکہ ان کا جو مقصد تھا یعنی فساد ‘ کفر اور اسلام سے عناد ‘ اس کو کامیاب ہونے کا موقع مل جائے۔ جب رسول اللہ (ﷺ) تبوک کو روانہ ہونے کی تیاری کر رہے تھے کہ ان کی طرف سے کچھ لوگوں نے خدمت گرامی میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہم نے ایک مسجد بنائی ہے۔ مقصد تعمیر یہ ہے کہ جو بیمار یا حاجت مند مسجد گرامی میں حاضر نہیں ہو سکتے ‘ یا سخت سردی کی رات ہو ‘ یا بارش کی رات ہو اور لوگ وہاں سے یہاں حاضر نہ ہو سکیں تو وہ اس مسجد میں نماز پڑھ لیں۔ ہماری خواہش ہے کہ حضور (ﷺ) تشریف لا کر اس مسجد میں نماز پڑھیں۔ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : اب تو میں برسر سفر ہوں اور کام میں مشغول ہوں ‘ جب ہم انشاء اللہ واپس آئیں گے تو تمہاری مسجد میں نماز پڑھیں گے۔ چناچہ آپ جب تبوک سے واپس ہو کر مقام ذی اوان میں اترے تو مندرجۂ ذیل آیت نازل ہوئی۔ یہ مقام مدینہ سے ایک گھنٹہ کی راہ کے فاصلہ پر تھا۔
Top