Tafseer-e-Haqqani - Hud : 84
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ
وَ : اور اِلٰي مَدْيَنَ : مدین کی طرف اَخَاهُمْ : ان کا بھائی شُعَيْبًا : شعیب قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارے لیے نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا وَ : اور لَا تَنْقُصُوا : نہ کمی کرو الْمِكْيَالَ : ماپ وَالْمِيْزَانَ : اور تول اِنِّىْٓ : بیشک میں اَرٰىكُمْ : تمہیں دیکھتا ہوں بِخَيْرٍ : آسودہ حال وَّاِنِّىْٓ : اور بیشک میں اَخَافُ : ڈرتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر عَذَابَ : عذاب يَوْمٍ مُّحِيْطٍ : ایک گھیر لینے والا دن
اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا) اس نے کہا اے قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور پیمانہ اور تول کم نہ کرو۔ میں تم کو آسودہ پاتا ہوں ( کمی کرنے کی ضرورت نہیں) اور مجھے اس دن کے عذاب کا خوف ہے جو گھیر لے گا
تفسیر : اس کے بعد پانچواں واقعہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا بیان فرماتا ہے جو اہل مدین کی طرف رسول بنا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد میں بھیجے گئے تھے۔ اس قوم کی عادت بت پرستی اور بدکاری کے علاوہ کم تولنا ‘ خیانت ‘ دغابازی کرنے کی بھی تھی جس کو وہ اپنے مال میں تصرف جائز سمجھ کر طعن کی راہ سے کہتے تھے کہ ایک آپ ہی تو بڑے اچھے شخص ہیں اور ان کی نماز پر طعن کرکے کہتے تھے کہ کیا آپ کی نماز ہم کو بت پرستی سے منع کرتی ہے ؟ باقی قصہ صاف ہے۔ یہ مدین وہی جگہ ہے کہ جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے بھاگ کر آئے تھے اور یہ وہی شعیب (علیہ السلام) ہیں کہ جن کی ایک صاحبزادی سے آپ کی شادی ہوئی تھی۔ یہیں آپ برسوں تک بکریاں چرایا کرتے تھے۔ وطن جاتے ہوئے یہیں کوہ حوریب کے قریب ایک درخت پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تجلی ہوئی اور نبوت ملی تھی۔ اس کے بعد چھٹا قصہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بیان فرما کر سورة کو چند باتوں پر تمام فرماتا ہے۔ اول وکذلک اخذ ربک سے لے کر لاجل معدود تک انبیائِ سابقین کے قصہ بیان فرما کر ان کا نتیجہ بیان فرماتا ہے کہ ان بت پرستوں پر جو یہ بلا نازل ہوئی اور ان کی بستیاں غارت کردی گئیں۔ یہ کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھا بلکہ آیندہ جو ایسا کرے گا دنیا میں بھی ویسی سزا پاوے گا (اس میں عذاب آخرت سے ڈرنے والوں کے لئے نشانی اور عبرت ہے) اور پھر قیامت کا عذاب بھی ہے۔ پھر قیامت کی تین صفات ذکر فرماتا ہے۔ اول یہ کہ اس دن سب اولین وآخرین جمع ہوں گے۔ دوم یوم مشہود ابن عباس ( علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اس میں سب حاضر ہوں گے دیگر مفسرین کہتے ہیں یہ معنی کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء گواہی دیں گے۔ سوم مانؤخرہ الالاجل معدود کہ وہ ایک وقت معین تک ہٹائی گئی ہے کیونکہ دنیا کی فنا کا ایک زمانہ معین ہے آنے والی چیز گو کتنی ہی دور ہو مگر قریب ہے۔ دوم یوم یات سے لے کر عطائً غیر مجذوذ تک اس دن میں سعیدوں اور شقیوں کا جو حال ہوگا اس کو بیان فرماتا ہے مادامت السموات والارض اور الاماشاء ربک سے بعض علماء اسلام نے یہ بات سمجھی ہے کہ کفار ایک مدت تک سزا پا کر جہنم سے نکالے جائیں گے کیونکہ جرم متناہی کی سزا غیر متناہی انصاف سے بعید ہے مگر جمہور ہمیشگی کے قائل ہیں اور اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ وہاں کے آسمان و زمین بھی ہمیشہ رہیں گے اور مشیت اس کی نہ ہوگی کہ خلاصی پاویں گے گو مشیت کا اختیار ہے اور خالدین اور ابدا الفاظ بھی قرآن میں آچکے ہیں۔ جرم کفر متناہی نہیں اس سے بڑھ کر اور کیا جرم متناہی ہے اور نیز غیر متناہی عمر بھی پاتا تو کفر نہ چھوڑتا۔ سوم غلاتک سے لے کر غیر منقوص تک انبیاء اور ان کی اقوام کے قصص اور آخرت میں سعد اء والشقیاء کے درجات بیان فرما کر آنحضرت ﷺ کو ان کی قوم کا حال بتلاتا ہے کہ ان جاہلوں کے انکار سے کچھ دل میں شک نہ لاویں (خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے اور مراد اور لوگ ہیں) یہ جہاں اپنے باپ دادا کی تقلید سے بت پرستی کرتے ہیں کوئی عقل و فہم سے یہ بات نہیں ہے تک اصل میں تکن تھا کثرت استعمال سے فصحائے عرب نون کو حذف کردیتے ہیں وانا لموفوھم نصیبہم کے یہ معنی کہ ان کی بت پرستی اور بدکاری پر فراغ دستی دیکھ کر تعجب نہ کرو۔ دنیا میں جو کچھ ان کے حصہ میں لکھ دیا وہ پورا ملنا ہے یا یہ معنی کہ آخرت میں اپنے عذاب کا پورا حصہ پاویں گے۔
Top