Tafseer-e-Haqqani - An-Nahl : 114
فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا١۪ وَّ اشْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
فَكُلُوْا : پس تم کھاؤ مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ اللّٰهُ : تمہیں دیا اللہ نے حَلٰلًا : حلال طَيِّبًا : پاک وَّاشْكُرُوْا : اور شکر کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو اِيَّاهُ : صرف اس کی تَعْبُدُوْنَ : تم عبادت کرتے ہو
پھر تم کو اللہ نے جو کچھ حلال طیب روزی دی ہے اس میں سے کھاؤ (اور پیو) اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم اس کی پرستش کرتے ہو
ترکیب : وما اھل بہ ای رفع الصوت لغیر اللہ بہ والا ہلال رفع الصوت عندرویۃ الہلال وبکاء الصبی والتلبیۃ۔ غیرباغ منصوب علی الحلال من فاعل اضطر۔ الکذب بفتح الکاف والباء وکسر الذال۔ یہ منصوب ہے تصف کی وجہ سے وما مصدریہ اور ممکن ہے کہ بمعنی الذی ہو اور عائد محذوف اور الکذب اس سے بدل اور بضم الکاف والذال و فتح الباء بھی آیا ہے یہ جمع ہے کذاب مخفف کی جیسا کہ کتاب و کتب اور بضم باء ‘ السنۃ کی صفت ہوگا۔ تفسیر : کفار کا کفران نعمت اور اس پر زوال نعمت اور نزول عذاب بیان فرما کر مسلمانوں کو اپنی نعمتوں کے کھانے کی اجازت دیتا ہے کہ تم ہماری نعمتوں کو شوق سے کھاؤ پیو مگر شکر کرو کیونکہ نزول عذاب نعمتوں کے کھانے سے نہیں بلکہ کھا کر ناشکری کرنے پر وابستہ ہے لیکن نعمتوں کے کھانے میں شتر بےمہار نہ ہوجاؤ بلکہ فلاں فلاں چیزیں جو مضر ہیں ان کو حتی المقدور نہ کھاؤ اس کے بعد ممنوع اشیاء کا حال بیان فرماتا ہے اس کے بعد جو پہلے انبیاء کی معرفت اشیاء ممنوع کی گئی تھیں ان کا اس لیے ذکر فرماتا ہے کہ یہ قید ممانعت کوئی بات مسلمانوں کے لیے نہیں اور کبھی بعض اشیاء کسی جرم کی سزا میں بھی حرام کردی گئی ہیں جیسا کہ یہود کے ساتھ ہوا بعض مفسرین کہتے ہیں کُلُوْا کا خطاب ان کفار کی طرف جن جو ناشکری میں سزا ہوئی تھی بار دیگر ان کو ہر قسم کی روزی عطا کر کے فرماتا ہے۔ کلوا مما رزقکم اللہ کہ لو خدا کی دی ہوئی حلال اور پاک چیزیں کھاؤ اور اس کا شکر کرو۔ حلالاً طیباً سے مجملاً ناپاک اور حرام چیزوں کے کھانے کی ممانعت سمجھی جاتی تھی مگر اس کی تصریح بھی کردی۔
Top